تحریر: ریاض احمد
وڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن کے مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ "ٰاشرف غنی افغان سیکورٹی فورسز کی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دینے میں ناکام رہے، جبکہ طالبان نے اسی پہلو کو اپنے فائدے میں استعمال کیا۔ غنی کا نصب العین افغانستان کو قبائلی، مراعات پر انحصار کرنے والے سماج کو ایک جدید ٹیکنوکریٹک ریاست بنانا تھا، یہ ناکام ریاستوں کو فکس کرنے کی تلقین کرتا”۔
۱۵ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضہ کے روز سی این این پر ایک امریکی رکن کانگریس ڈیموکریٹ کہہ رہا تھا کہ ویسے بھی افغانستان کے بڑے حصے پر غنی کا کنٹرول نہ تھا، یا تو یہ طالبان کے زیر اثر تھے یا دوستم ہزارہ شمالی اتحاد کے جو غنی اتحادی تو تھے مگر یہ مرکز کی نہ سنتے اور یوں افغانستان میں کوئی ایسا مرکز نہ تھا جو لڑائی جیتنے کا عزم رکھتا. اسنے کہا کہ تبھی جب امریکی انخلاء شروع ہوا تو ہوا کا رخ دیکھ کر علاقائی رہنما طالبان سے سمجھوتے کرتے گئے، اس لیے مزاحمت بھی نہ ہوئی.
میرا خیال یہی رہا ہے کہ ہم افغانستان کی سرمایہ دارانہ نوعیت کو سمجھیں، ملکوں کی طرح پارٹیاں، طبقے، گروہ، گوریلا، محلے اور حتہ کہ افراد کی اصل سرمایہ دارانہ نوعیت بھی کسی تنازعہ میں ابھر آتی ہے. اس لیے یہ وقت اس کا نہیں کہ کون جنگ جیت رہا یا حکومت بنا رہا. بلکہ یہی وقت یے کہ ہم توجہ سے بدلتے حالات کو ٹی وی، رپورٹوں اور براہ راست افغان عوام کے تاثرات سے سمجھیں اور جانیں کہ کون سا معاشی طبقہ فعال ہے، کون آگے آ رہا ہے کون لڑ رہا ہے. فلحال جو سامنے ہے وہ یہ کہ مصنوعی اوپر سے تھوپی ہوٍی ترقی، جس کا یہاں ہمارے کئی پختون کامریڈز بار بار چرچا کرتے رہے، اس ترقی نے سرمایہ دارانہ سطح پر صرف parasitesپیدا کیے جو سامراج کی موجودگی میں تو لڑتے رہے لیکن سامراج کے جاتے ہی انہوں نے بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا. یعنی یہ کوئی خاص طبقاتی غلبہ، گرامسکی کے سنس میں hegemony، نہیں رکھتے تھے.
افغانستان ایک انتہائی پسماندہ ملک جو قالین، ڈرائی فروٹ، معدنیات اور جڑی بوٹی پیدا کر کے ڈالر کما سکتا ہو وہ کسی بھی طور پر اب بھی ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ ریاست سے زیادہ نہیں. یہی وجہ ہے کہ یہاں علاقوں پر جتھوں کا قبضہ امریکی دور میں بھی رہا. جو المیہ افغانستان کا ہے وہ یہ کہ یہ اب بھی عمومی طور پر ایک دستکار، چھوٹے زمیندار والا خطہ ہے جو جدید سوچ کے مطابق ملک نہیں. جبکہ امریکی و سامراجی پروپپیگنڈا یہی تھا کہ یہاں بڑی ترقی ہوئی، سڑکیں پل بنے، سروسز ہیں، اسکول، ہسپتال، این جی اوز، فوج ہے. لیکن جس چیز کی جدید دور میں کسی پسماندہ ملک کو ضرورت ہوتی ہے وہ اکنامک سرپلس یعنی وہ ویلیو ایڈیشن جو سرمایہ دارانہ طرز پر ہو جس سے کسی خطہ میں بورژوازی ابھرے اور یہ عوام کو کچھ دے اور محنت کشوں کو دبائے رکھنے کے لیے ان پر تشدد کا انتظام کرے اور تمام استحصال و جبر کرنے والوں کو ایک ریاستی نظام میں مجموعی بالا دستی کا احساس فراہم کرے. ایسا افغانستان میں شاید 70 کی دہائی تک کچھ ہوا ہو اس کے بعد تو اس مصیبت زدہ ملک کو نہ آزادی ملی نہ مہلت. اسی لیے افغانستان میں سرمایہ دارانہ حکومت نہیں بلکہ بار بار مواقع ابھرتے ہیں کہ محنت کش اور جبر کا شکار مل کر اقتدار حاصل کریں اور جب ایسا نہ ہو تو اس خلاء کو مذہبی، فرقہ وارانہ، نسل پرست نچلے درمیانہ طبقہ پر کر دیتی ہے اور اگر یہ طالبان کی طرح سامراجی قوت کو چیلنج کرے تو اس پر حملہ آوروں کا ساتھ مڈل کلاس اور بڑے کاروباری دیتے ہیں. افغانستان کے کچلے ہوئے، فرقوں، مذاہب، محنت کشوں کو جڑنا ہو گا. نہ ملائیت مسائل کا حل ہے نہ سامراجی کاسہ لیسی۔
۱۶ اگست کو امریکی صدر نے افغانستان پر طالبان قبضہ پر جو بیان دیا اس سے بہتر سرمایہ دارانہ تجزیہ ممکن نہیں. گو یہ انتہائی خونریز لوگ ہیں البتہ جو اہم بات ہے وہ یہ کہ ریاست کی تعمیر ہمیشہ اندرونی معاملہ ہوتا ہے، یہ بیرون سے ممکن نہیں. بائیڈن کہتا ہے ہم نے انہیں سب کچھ دیا، ائیر فورس سپورٹ، تنخواہیں مگر ہمارا کام نیشن بلڈنگ نہیں، مگر لیڈران بھاگ گئے. یعنی اب غنی وغیرہ لیڈر نہیں.
باہر سے مسلط فوجی آمریت بیساکھی پر چلتی ہے. اسے اندرونی جڑیں اپنی سرمایہ دارانہ معاشرت میں بنانی ہوتی ہیں. دنیا بھری پڑی ہے اس طرح کی کامیاب امریکی مثالوں سے. جرمنی، جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن، تائیوان، کئی لاطینی ممالک اور حتہ کے پاکستان. ہر ملک میں اندرونی سرمایہ دار تھا جسے بچانے، یعنی اپنے عالمگیر سرمائے کے مفاد کو بچانے، امریکہ گیا لیکن وہ بورژوازی کے اندرونی مفادات یعنی سرمایہ تھا جس کو بچانے کے لیے فاشزم کمیونزم سے لڑائی لڑنے امریکی گئے. البتہ کہیں بھی امریکہ صنعت کو فروغ دینے میں کردار ادا نہیں کرتا. یہ تجارت کے مواقع البتہ ہر جگہ فراہم کرتا ہے، پوری منڈی. اتنا وسیع القلب کوئی امپائر نہ رہا ہو گا جتنا امریکہ ہے یا تھا. پاکستان تک کو اپنے مفاد میں ڈالر بھی دئیے اور اپنی ٹیکسٹائل مارکیٹ بھی. آج بھی پاکستانی ایکسپورٹ کا 20-25 فیصد امریکی مارکیٹ ہے(جو گزشتہ پانچ سال میں۳ ارب ڈالر سے ۲۰۲۱ میں۲ء۴ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے) . البتہ افغانستان میں امریکی آمد کے بعد اجناس اور سروسز کی ایکسپورٹ ۱یک ارب ڈالر سے ۲۰۱۱ تک تین ارب ڈالر تک بڑھیں لیکن۲۰۲۰ تک یہ گھٹ کر ایک ارب ڈالر پر آگئیں۔افغانستان جیسے ملک میں امریکہ از خود سرمایہ دار پیدا نہیں کر سکتا نہ اس کا ایسا کوئی ارادہ تھا. ترقی کو سرمایہ داری جن مفہوم میں خود لیتی ہے اور جن مفہوم میں عوام کو دیتی ہے یہ صرف پراپیگنڈا نہیں بلکہ ایک پیچیدہ سچ ہے جس کی تفہیم ایسے ہی بحران، جنگ کے دنوں میں ہوتی ہے.
کامریڈ سرتاج خان جو عام طور پر طالبان کے حامی سمجھے جاتے ہیں ،جبکہ یہ ہیں نہِیں ،ان کا کہنا ہے:”امریکی سامراج افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر اسٹیٹ بلڈنگ کرنے آیا تھا۔ بنیادی آئیڈیا یہی رہا ہوگا کہ بیرونی مداخلت و امداد سے ایک نئے ریاست کی تعمیر ممکن ہے۔ یہ ہو نہ سکا۔ نہ ریاست بنی نہ فوج نظریاتی ہوسکی۔قومی بورژوازی اور مڈل کلاس اتنی مظبوط نہ تھے۔ اور نہ وہ ارتقائی مراحل طے ہوسکے جس کے جدلیات میں قومی تحریک کے زیر اثر اسٹیٹ بلڈنگ ہوتی۔یہ برطانوی استعمار کے ہندوستان کےعمل سے بہت مختلف تھا جو مرکنٹائل تجارت سے شروع ہوا اور ایک عمل میں ادارے بنے۔ لبرل انگریزوں اور مقامی نے انڈین کانگریس بنائی تاکہ کچھ حقوق کے تحت مقامی مڈل کلاس کو بھی امور سلطنت میں شمولیت کا احساس ہو اس کیلئے نمائندگی کے مطالبے شروع ہوئے۔افغانستان میں سامراجی طاقتوں نے 2002 میں بون کانفرنس کے تحت اوپر سے ایک سماجی معاہدہ نافذ کرکے ریاستی ادارے، اور جمہوریت نافذ کرنے کی کوشش کی گئی مگر لیجی ٹیمیسی اس کی گراؤنڈ پر نہ تھی۔ سوال یہی ہے کہ ایک اچھی خاصی تعداد میں بورژوا اور مڈل کلاس کے بغیر قومی ریاست کی تعمیر ممکن ہے۔ اور یہ دیگر طبقات اور پرتوں کو اپنے پیچھے لگا سکتی ہے؟ یا افغانستان ایک کلائنٹ اسٹیٹ ہی رہے گی”
میرا خیال میں سرمایہ دارانہ ریاست کے دو پہلو ہوتے ہیں، نجی سرمایہ کار اشرافیہ اور بیوروکریسی، یہ دونوں کم یا زیادہ سرمایہ اکھٹا کرتے ہیں. بیرونی سرمایہ یا سامراج اندرونی سرمایہ دار تو پیدا نہیں کرتے، یہ انہیں فروغ دینے کے اقدمات کرتے ہیں، بیرونی مارکیٹ کی فراہمی، قرضے، کنسلٹنٹس، پروجیکٹس اور ٹریننگ۔ ٹریننگ میں بیوروکریسی، سول اور ملٹری، کی ٹریننگ بہت اہم ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایوب دور میں سیٹو سینٹو سے لے کر جب بھی امریکہ قریب آیا اس نے فوج اور سول بیوروکریسی کی اپری پرت کی بہت ٹریننگ کروائی، یہ پہلو امریکی ملٹی نیشنل سسٹم میں بہت اہم رکھتا ہے۔ یہ ماٹھے سے ماٹھا بندہ کمپنی میں رکھ لیتے ہیں، کام کم لیتے ہیں مگر کام کے ساتھ بے پناہ ٹریننگ دے دے کر ان ماٹھوں نے جو کچھ الٹ پلٹ اسکول کالج سے سیکھا ہوتا ہے اسے دھو کر ایک طرح سے نئی تربیت کر دیتے ہیں، بعد ازاں افسر بن کر یہی لوگ ملٹی نیشنل اور ایسے ہی ریاستیں چلاتے ہِیں۔ امریکہ کا پاکستان میں فوج کو مضبوط کرنے میں ٹریننگ کا بہت اہم پہلو رہا ہے۔ یوں پاکستانی سرمایہ داروں کو جہاں امریکی مارکیٹ ملتی ہے وہیں پاکستانی بیوروکریسی کو ٹریننگ ملتی ہے۔ اسی لیے یہ ان دونوں کا آقائے زولجلال بنا رہتا ہے۔ افغانستان میں لگتا ہے کہ امریکہ ایسی ہی بیوروکریسی تیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسے کل جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں نیشن بلڈنگ کہا، کہ ہم نیشن بلڈنگ کے لیے نہیں گئے تھے یعنی ہم سرمایہ دار پیدا کرنے نہیں گئے تھے۔
پھر سوال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ و. نیٹو جو کر رہے تھے وہ کیا تھا؟ تو بائیڈن نے خود کہا کہ فوج کو ہتھیار طیارے اور تربیت دی۔ اور اسی تربیت پر تکیہ تھا کہ یہ طالبان کو پسپا رکھے گی۔ میرے نزدیک امریکہ کی جو ناکامی ہے وہ بیوروکریسی کی تربیت کی ناکامی ہے۔ اسی لیے افراسیاب، حسین حقانی، محمد تقی، عائشہ صدیقہ جو امریکی لبرل ازم کے حامی ہیں وہ بوکھلائے ہوئے ہیں اور تین روز سے مسلسل امریکی سرکار کو براہ راست لعن طعن کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو پہلو سامنے آرہا ہے وہ یہ کہ امریکہ سعودی عرب، عمان، عرب امارات کی طرح کا اسلام افغانستان میں نافظ ہونے دے گا کہ، سامراج کے نزدیک جس جگہ نیشن بلڈنگ نہ ہو سکے اس جگہ پر بادشاہت ہی بہتر ہے۔ اور یوں دیکھا جائے تو امریکہ کو سپورٹ کرنے والے لبرلز کے لیے کابل غنی اقتدار کا ڈھہ جانا دراصل پسماندہ ممالک میں سرمایہ داری کی لبرل ترویج کرنے والوں کو کام سے فارغ کرنے کے مترادف ہے۔ وقت بدل رہا ہے۔
طالبان کا افغانستان پر دوسرا قبضہ ایک جانب لاکھوں افغانی عوام پر مذہبی آمریت مسلط ہونا ہے تو دوسری جانب اقلیتوں، فرقوں، چھوٹی قوموں اور کچلی ہوئی پرتوں جیسے عورتوں، ناداروں کے لیے ایک بھیانک مستقبل لے کر وارد ہوا ہے۔ ایسے میں جہاں مذہبی سیاسی رحجان تک رکھنے والے اس اچانک تبدیلی پر گو مگوں کا شکار ہیں وہاں امریکی شکست کو ایک بڑا حلقہ فتح کے طور پر بھی دیکھ رہا ہے۔ بہت واضع ہے کہ طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قبضے نے جیسے پوری تاریخ کو ایک بار پھر ۲۰۰۱ میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں ہمارے بعض ساتھی بھی یہ کہتے ہیں کہ طالبان کی کامیابی سے دس گنا زیادہ سامراج کی شکست اہم ہے۔ البتہ ایسا کہنے میں جہاں یہ سامراج بابت درست کہتے ہیں وہاں افغانی عوام پر آمریت مسلط ہونے کے پہلو کو یہ نظر انداز کرتے ہیں۔ یعنی طالبان کا جو سماج کا تصور ہے وہ اس لیے تسلیم کر لیا جائے کیونکہ سماج ایسا ہے. پشتون روایت میں عورت گھر میں اچھی، اقلیتیں مسلمان اچھی اور فرقوں کا کوئی وجود نہیں، جدید تعلیم کفر ہے. یہ سب روایت اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ قرار دے کر ہم طالبان کے تصور معاشرت کو تسلیم کر لیں؟ پھر مارکسی ترقی کا تصور تو یقینا جاگیردارانہ ہی رہنا چاہیے کہ سرمایہ داری سے قبل یہی رواج تھا اور جدید تعلیم، برابری کا تصور تو سماج میں عدم استحکام پیدا کرتا تھا؟
مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ طالبان کو سامراج دشمن قرار دیتے ہیں وہی دراصل طالبان کی طرح قدامت پسند ہیں. اور اسی لیے یہ سرمایہ دارانہ ترقی پر تنقید کو اپنی قدامت پسندی کے لیے ڈھال بنا لیتے ہیں. ان کے نزدیک تمام سرمایہ دارانہ ترقی انسانی تباہی کا سبب ہے. جبکہ مارکس کے نزدیک سرمایہ داری جاگیر داری سے زیادہ آزادی کا سبب ہے لیکن یہ جس نہج پر پہنچ چکی وہاں انسانیت مزید آزادی سے ترقی نہیں کر سکتی اس لیے مزدور طبقہ کا انقلاب ضروری ہے. یوں مارکس ازم قدامت پسندی نہیں بلکہ جدیدیت ہے۔
افغانستان کے عوام کی آزادی اس خطے میں وسیع پیمانے پر نیم جمہوریتوں اور آمریتوں سے نجات کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے جہاں افغان محنت کش طبقہ اور کچلے ہوئے عوام کو منظم ہونے کی ضرورت ہے وہاں پاکستان میں بھی ابھرتی ہوئی مذہبی سیاست اور نیم مارشل لائی ہائیبرڈ حکومت کی جانب سے بنیادی انسانی و مزدور حقوق سلب کیے جانے کے خلاف جدوجہد کو بھی وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔