سماجیات Archives - Baam-e-Jahan https://baam-e-jahan.com/story/category/سماجیات A window to High Asia and Central Asia Fri, 19 Apr 2024 18:39:45 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.4 https://baam-e-jahan.com/wp-content/uploads/2018/12/small.png سماجیات Archives - Baam-e-Jahan https://baam-e-jahan.com/story/category/سماجیات 32 32 زمان علی شاہ ایک بے باک سیاسی و سماجی رہنماء بھی چل بسے https://baam-e-jahan.com/story/15470 https://baam-e-jahan.com/story/15470#respond Fri, 19 Apr 2024 18:39:42 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15470 تحریر: فرمان بیگ وادئی آفگرچ آج ایک سچے ،بہادر انقلابی اور ایک عظیم سماجی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ زمان علی شاہ جس نے ساری زندگی عوامی حقوق کی جدوجہد میں گزاری جمعہ کے روز 19 اپریل 2024 کو 97 برس مزید پڑھیں

The post زمان علی شاہ ایک بے باک سیاسی و سماجی رہنماء بھی چل بسے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر: فرمان بیگ


وادئی آفگرچ آج ایک سچے ،بہادر انقلابی اور ایک عظیم سماجی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ زمان علی شاہ جس نے ساری زندگی عوامی حقوق کی جدوجہد میں گزاری جمعہ کے روز 19 اپریل 2024 کو 97 برس کی عمر میں رحلت فرما گئے۔

انھوں نے ایک شاندار اور بھرپور زندگی گزاری وہ عوامی حقوق کی جنگ میں ہمیشہ صف اول میں رہے۔ سیاسی طور پر ان کا تعلق پیپلز پارٹی کے ان سرکردہ کارکنان میں شامل تھے جنھوں نے سابق ریاست ہنزہ پر مسلط شخصی آمرانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی۔ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے سیاسی اصولوں اور عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔

وہ خنجراب ویلجرز آرگنائیزیشن کے بانیوں میں سے تھے۔ انھوں نے بطور سماجی کارکن کے بہت سارے اداروں میں خدمات سرانجام دئیے۔ وہ عوامی حقوق کو اہمیت دیتے تھے اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ جب بھی طاقتور اداروں اور افراد کی جانب سے عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہوئی وہ اس کے خلاف مزاحمت میں کھڑے ہو گئے۔ برگیڈئیر اسلم ہوٹل کیس ہو یا خنجراب نشنل پارک میں عوامی حقوق کا معاملہ، وہ ہمیشہ صف اول میں رہے۔

سماجی تبدیلی اور انصاف کے پرجوش کارکن کے طور پر انھوں نےاپنے پیچھے ایک ایسا ورثہ چھوڑا ہے جسے آنے والی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ عوامی اجتماعی وسائل کی تحفظ اور دوسروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے غیر متزلزل عزم کے ساتھ اپنے آپ کو سیاسی اور سماجی کاموں کے لیے وقف کر دیا تھا جس کا مقصد مساوات ،برابری اور سماجی انصاف پر مبنی ایک خوشحال معاشرے کی تعمیر تھا۔

وہ اپنی صاف گوئی، پرجوش تقریروں اور انتھک جدوجہد کے لیے مشہور تھے۔

زمان علی شاہ کے انتقال سے گوجال میں سیاسی اورسماجی سطح پر ایک گہرا خلا پیدا ہوا ہے۔ گوکہ جسمانی طور پر اب وہ ہمارے ساتھ نہیں رہے لیکن اس کی قربانیاں ہمیں ایک بہتر کل کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ دیتی رہے گی۔ایسے بے لوث رہنماوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ نوجواں نسل کو ان کی جدوجہد سے اگاہی دیا جائے اور ان کی عملی جدوجہد اور میراث کو آپنائیں۔ اس میراث کو جاری رکھ کر ہی ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ممکن ہے جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہو۔

The post زمان علی شاہ ایک بے باک سیاسی و سماجی رہنماء بھی چل بسے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15470/feed 0
خون آشام نظام https://baam-e-jahan.com/story/15449 https://baam-e-jahan.com/story/15449#respond Tue, 09 Apr 2024 08:19:11 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15449 آج گلگت بلتستان میں ریاستی ادارے شہریوں کی محافظ کی بجاۓ، ان کے بنیادی سیاسی و انسانی حقوق کو سلب کرنے کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ اب یہ نظام مکمل طور پر تباہ ہونے سے پہلے گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگی تباہ کرکے رکھ دے گا

The post خون آشام نظام appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

از: عزیز علی داد




جس علاقے کو قانون اور جدید انتظامی اصولوں کی بجاۓ آرڈر سے چلایا جاتا ہے،

وہاں نراجیت ہی کی حکمرانی ہوتی ہے۔

گلگت بلتستان میں لاشاری ہو یا منرلز اور مائنز کے لائسنس،

ابھرتی ہوئی مارکیٹیں ہوں یا پی ٹی ڈی سی ہوٹلز کی نجکاری کا معاملہ،

فلک نور کا کیس ہو یا کینگرو کورٹس،

پولیس کی بے بسی ہو یا بجلی کا بحران،

انسانی حقوق کی پامالی ہو یا کے آئی یو میں طالبات کی ہراسانی،

اپاہج صوبائی اسمبلی ہو یا لینڈ مافیا،

نیٹکو کا مالی بحران ہو یا سماج میں فرقہ واریت،

ان سب بلاوں اور بیماریوں کا منبع آرڈر کے ذریعے گلگت بلتستان میں لاگو کیا گیا وہ نظام ہے

جو مقامی لوگوں سے انسانی حقوق چھین کر غلام بنا دیتا ہے،

زندگی سے خواب چھین کر وحشت بھر دیتا ہے،

کمانڈرز کو آزاد اور شہریوں کو قید کرتا ہے،

انسانیت چھین کر فرقہ واریت دیتا ہے،

اختیار کی جگہ بیساکھی دیتا ہے،

بیمار نظام کو بیمار لوگوں کے حوالے کرتا ہے اور

خرد کو جنون کے بھینٹ چڑھاتا ہے۔

پینٹگ میں ایک نظام کے قیدی تباہی کے راستے پر رواں دواں ہیں۔

ایسے سماج اور نظام کا انجام آدم خوری اور خون ریزی پر ہی ہوتا ہے۔

 آج گلگت بلتستان میں ریاستی ادارے شہریوں کی محافظ کی بجاۓ،

ان کے بنیادی سیاسی و انسانی حقوق کو سلب کرنے کے آلہ کار بن گئے ہیں۔

اب یہ نظام مکمل طور پر تباہ ہونے سے پہلے گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگی تباہ کرکے رکھ دے گا۔

میں تو صبح طلوع ہونے والے سورج کے کرنوں میں نور کی دھاریں کم اور خون کی دھاریں زیادہ دیکھ رہا ہوں۔

فلک نور کا کیس گلگت بلتستان میں آنے والے وقت اور حالات کی محض ایک ہلکی سی جھلک ہے جو اس کو اپنے محدود عینک سے دیکھ رہے ہیں،

وہ اس خون آشام نظام اور سوچ کا پہلے حصہ اور آخر میں شکاربن جائینگے۔

یہ بھی پڑھئے: گلگت بلتستان میں حیوانی معاہدہ


عزیزعلی داد کا تعلق گلگت-بلتستان سے ہے۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر ان کے مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہ چکے ہیں۔

The post خون آشام نظام appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15449/feed 0
فلک نور کے عظیم باپ کو خراج تحسین https://baam-e-jahan.com/story/15404 https://baam-e-jahan.com/story/15404#respond Wed, 03 Apr 2024 13:31:50 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15404 یہ باپ کہتا ہے کہ اغواء  کار اگر سچ اور حق پر ہیں تو خود ہی کورٹ میں پیش کیوں نہیں ہوتے ہیں ؟  یہ باپ ایسے متعدد سوالات پولیس ، عدالت ، وکلاء ، صحافی ، اساتذہ ، علماء ، حکومت اور معاشرے کے ہر فرد سے پوچھتا ہے۔ لیکن سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ، جن کو ان کی بات سمجھ آتی ہے وہ شرمندہ ہیں

The post فلک نور کے عظیم باپ کو خراج تحسین appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر۔ اسرارالدین اسرار


یہ وہ عظیم باپ ہے جس کے چہرے پر اپنی بیٹی کی جدائی کے غم کا کرب عیاں ہے مگر اس نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ دنیا کے ہر باپ کی طرح یہ بھی اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ اس کی بیٹی اس کی گود سے دو مہینے قبل چھینی گئی ہے۔  اس عظیم باپ نے اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے گلگت بلتستان کے نظام انصاف اور قانون کے رکھوالوں کا کوئی ایسا دروازہ نہیں ہے جو نہ کھٹکھٹایا ہو۔

 دو مہینے گزرے ہیں یہ اپنی ننی منی بیٹی، جس کو اس نے اپنی گود میں بیٹھا کر کھلایا پلایا ہے اس کو زندہ سلامت دیکھنے کے لئے دن رات تڑپ رہا ہے۔ بیٹی کی تصویر یا ویڈیو جب بھی سوشل میڈیا میں آتی ہے اس کا کلیجہ پھٹ کر منہ کو آتا ہے۔

اس باپ نے اپنی بیٹی کے اغواء کی ایف آئی دو مہینے قبل دنیور تھانے میں  درج کرائی تھی۔ مقامی پولیس محض اس مسئلے کو ٹالتی رہی لیکن ان کی بیٹی کو بازیاب نہیں کراسکی۔ یہ باپ کہتا ہے میری بیٹی خوف زدہ ہے وہ آغوا ء کاروں کے چنگل میں ہے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔

 یہ باپ کہتا ہے ملکی قوانین کے مطابق  سولہ سال سے کم عمر کی بچی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی۔   اس بچی کی عمر نادرا ریکارڈ کے مطابق بارہ سال ہے۔ پھر اس سے زبردستی  دلائے گئے بیان کو کیوں سوشل میڈیا میں پھیلا یا جا رہا ہے؟

وہ کہتا ہے میں اس کا باپ اور شرعی طور پر ولی ہوں ، میری رضامندی کے بغیر ان کی نکاح کیسے ہوگئی؟

یہ باپ کہتا ہے کہ اغواء  کار اگر سچ اور حق پر ہیں تو خود ہی کورٹ میں پیش کیوں نہیں ہوتے ہیں؟  یہ باپ ایسے متعدد سوالات پولیس، عدالت، وکلاء، صحافی، اساتذہ، علماء ، حکومت اور معاشرے کے ہر فرد سے پوچھتا ہے۔ لیکن سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ، جن کو ان کی بات سمجھ آتی ہے وہ شرمندہ ہیں ، جن کو ان کی بات سمجھ نہیں آتی ہے وہ بےحس ہیں اور جو اس باپ پر ہنستے ہیں وہ ظالم اور درندے ہیں ۔

یہ باپ کہتا ہے کہ اغواء  کار اگر سچ اور حق پر ہیں تو خود ہی کورٹ میں پیش کیوں نہیں ہوتے ہیں ؟  یہ باپ ایسے متعدد سوالات پولیس ، عدالت ، وکلاء ، صحافی ، اساتذہ ، علماء ، حکومت اور معاشرے کے ہر فرد سے پوچھتا ہے۔ لیکن سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ، جن کو ان کی بات سمجھ آتی ہے وہ شرمندہ ہیں

 اگر کسی کو یہ کرب محسوس نہیں ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر میں موجود کسی بیٹی کی طرف غور سے دیکھ لیں اور ان کی معصوم اداوں پر غور کریں تو ان کو آسانی سے سمجھ آجائے گا کہ آخر یہ باپ کہتا کیا ہے اور مانگتا کیا ہے؟

یہ باپ دو مہینے سے ایک ہی مطالبہ دہرا رہا ہے وہ یہ کہ "میری بیٹی کو عدالت میں پیش کیا جائے اور مروجہ ملکی قوانین کی روشنی میں فیصلہ کیا جائ”ے۔  یہ باپ کہتا ہے پولیس نے اپنا کام نہیں کیا ورنہ میری بیٹی کو عدالت میں لانے میں اتنی تاخیر نہ ہوتی۔

یہ باپ جب جب اس بے حس معاشرہ کی باتیں سنتا ہے ایسے میں یہ ہر روز مر کر پھر زندہ ہوتا ہے۔  اس کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں درد ہے جس کا اظہار یہ میڈیا ، وکلاء اور سماجی کارکنوں کے سامنے کرتا ہے۔

 رمضان کے اس مقدس مہینے میں مسلمانوں کے اس دیس میں اس کا کرب محسوس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس کو قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کے کسی جرات مند اہلکار  نے ایک بار گلے سے لگا کر یہ امید نہیں دلایا ہے کہ ہم آپ کی بیٹی کو آپ کے پاس لے کر آئیں گے، آپ سے ملائیں گے ، آپ کو اپنی بیٹی کو سینے سے لگانے کا موقع فراہم کریں گے۔

اس بے رخی کے باوجود اس خوفناک دردندہ صفت معاشرے میں اس باپ نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ مجھے  امید ہے کہ یہ عظیم باپ آخری دم تک ہمت نہیں ہارے گا۔ جو باپ اپنی بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں ، جن کے گھروں میں ننی ننی پریاں جیسی بیٹیاں ہیں وہ اس باپ کے دکھ درد کو سمجھ سکتے ہیں۔

مجھے روز اس کا چہرہ دیکھ کر رونا آتا ہے۔ میں اس باپ کے لئے روز یہ دعا کرتا ہوں کہ اس کو اپنی بیٹی سے ملنا نصیب ہو۔ کتنے آس اور کتنی چاہت سے اس نے اپنی بیٹی کو پالا ہوگا ۔

اس باپ کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی ایک ہونہار طالبہ تھی، وہ قرآن پڑھتی تھی ، وہ روز عبادت کرتی تھی۔ وہ کہتا ہے میری بیٹی کو اغواء کیا گیا ہے ، میری بیٹی کو مجھ سے ملایا جائے ، میں ان کو سینے لگانا چاہتا ہوں۔

اس عظیم باپ نے دو مہینے سے نہ ڈھنگ سے کھایا پیا ہے ، نہ سویا ہے اور نہ سکون سے بیٹھا ہے۔ مگر ظالم معاشرہ اتنی بے حسی سے اس کے کرب کو نظر انداز کر رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

کہتے ہیں کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا. یہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہوا تو ایسے ہی کسی مظلوم اور بےبس کسی باپ کی بد دعا سے تباہ و برباد ہوگا۔ فلک نور کے والد سخی احمد جان کو میرا سلام ہو۔

ایسی صورتحال سے متعلق فیض احمد فیض نے بہت خوب کہا تھا۔

جس دیس سے ماؤں بہنوں کو

اغیار اٹھا کر لے جائیں

اس دیس کے ہر اک حاکم کو

سولی پہ چڑھانا واجب ہے

جس دیس میں قاتل غنڈوں کو

اشراف چھڑا کر لے جائیں

جس دیس کی کورٹ کچہری میں

انصاف ٹکوں پر بکتا ہو

جس دیس کا منشی قاضی بھی

مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو

جس دیس کے چپے چپے پر

پولیس کے ناکے ہوتے ہوں

جس دیس میں جاں کے رکھوالے

خود جانیں لیں معصوموں کی

جس دیس میں حاکم ظالم ہوں

سسکی نہ سنیں مجبوروں کی

جس دیس کے عادل بہرے ہوں

آہیں نہ سنیں معصوموں کی

جس دیس کی گلیوں کوچوں میں

ہر سمت فحاشی پھیلی ہو

جس دیس میں بنت حوا کی

چادر بھی داغ سے میلی ہو

جس دیس میں بجلی پانی کا

فقدان حلق تک جا پہنچے

جس دیس کے ہر چوراہے پر

دو چار بھکاری پھرتے ہوں

جس دیس میں دولت شرفاء سے

نا جائز کام کراتی ہو

جس دیس کے عہدیداروں سے

عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں

جس دیس کے سادہ لوح انساں

وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں

اس دیس کے ہر اک لیڈر پر

سوال اٹھانا واجب ہے

اس دیس کے ہر اک حاکم کو

سولی پہ چڑھانا واجب ہے


Israruddin Israr

اسرارالدین اسرار سینئر صحافی اور حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے کوآرڈینیٹر برائے گلگت بلتستان ہیں۔ ان کے کالم بام جہاں میں قطرہ قطرہ کے عنوان سے شائع ہوتا ہے۔

The post فلک نور کے عظیم باپ کو خراج تحسین appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15404/feed 0
گلگت بلتستان حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ شیرنادرشاہی https://baam-e-jahan.com/story/15183 https://baam-e-jahan.com/story/15183#respond Thu, 28 Mar 2024 15:50:48 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15183 عوامی ورکرز پارٹی گلگت-بلتستان کے رہنماء شیر نادر شاہی نے گلگت میں بڑھتے ہوئے جرائم پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متحد ہو کر اپنےزندگی، دھرتی اور وسائل کا تحفظ کریں کیونکہ حکومت، انتظامیہ اور ریاستی ادارے عوام کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔

The post گلگت بلتستان حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ شیرنادرشاہی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

بچیوں کی اغواء اور قتل افسوسناک ہے، فلک نور کو بازیاب کرایا جائے اور انارہ کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔ رہنما عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان


یاسین(پ ر) عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے رہنما شیرنادر شاہی نے گلگت بلتستان میں بڑھتے ہوئے جرائم خاص طور پر لڑکیوں اور نوجوانوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے وحشیانہ ظلم و بربریت اور پراسرار اموات پر شدید تشویش اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کی مقامی حکومت اور ریاستی ادارے گلگت بلتستان کے عوام کی جان و مال کوتحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں ۔

انہوں نے ایک بیان میں گلگت میں دو دنوں کے اندر ایک نوجواں لڑکی اور لڑکا کی پر اسرار موت اور دنیور سے ایک کمسن طالبہ کا اغوا کو دو ماہ گزرنے کے باوجود بازیاب نہ کرنا حکومت اور ریاستی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
گزشتہ دنوں گلگت شہر سے ایک نوجوان لڑکی انارہ کی لاش برآمد ہوئی اور آج ایک اور نوجواں نے مبینہ طور پر خود کشی کی۔ دونوں کا تعلق غذر سے بتایا جاتا ہے۔خفیہ ادارے ایک لڑکی کے قاتلوں کا سراغ ابھی تک نہیں لگا سکے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ مقتول لڑکی کئی دنوں سے لاپتہ تھی اور ایف آئی آر درج کروانے کے بعد بھی متعلقہ تھانے کے پولیس کی طرف سے کاروائی کرکے قاتلوں کو گرفتار نہ کرنا افسوسناک ہے۔

ان کا یہ کہنا تھا کہ اٹھارہ سالہ انارہ کیس ااورفلک نور کیس دونوں میں پولیس کی غفلت نمایاں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ متعلقہ تھانے کے ایس یچ او زاور ایس پی گلگت کو غفلت برتنے پر فی الفور معطل کیا جائے۔

انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کیا کہ وہ متحد ہو کر اپنےزندگی، دھرتی اور وسائل کا تحفظ کریں کیونکہ حکومت، انتظامیہ اور ریاستی ادارے عوام کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں بصورت دیگر ایسے واقعات آئے روز رونما ہونگے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

شیرنادر شاہی نے مطالبہ کیا ہے کہ فلک نور کو فی الفور بازیاب کرایا جائے اور انارہ کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے بصورت دیگر گلگت بلتستان بھر میں احتجاج کرینگے۔

The post گلگت بلتستان حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ شیرنادرشاہی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15183/feed 0
فلک نور کی جلد بازیابی عمل میں لائی جائے۔ احتجاجی مظاہریں https://baam-e-jahan.com/story/15267 https://baam-e-jahan.com/story/15267#respond Sun, 24 Mar 2024 17:09:10 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=15267 نمائیندہ خصوصی اسلام آباد/ہنزہ: سیاسی و سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں نے اتوار ۲۵ مارچ کو گلگت کے نواحی گاوں سلطان آباد سے 13 سالہ کمسن بچی کو مبنیہ طور پر اغواء اور جبری شادی کے خلاف اور اس مزید پڑھیں

The post فلک نور کی جلد بازیابی عمل میں لائی جائے۔ احتجاجی مظاہریں appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

نمائیندہ خصوصی


اسلام آباد/ہنزہ: سیاسی و سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں نے اتوار ۲۵ مارچ کو گلگت کے نواحی گاوں سلطان آباد سے 13 سالہ کمسن بچی کو مبنیہ طور پر اغواء اور جبری شادی کے خلاف اور اس کی بازیابی کے لیے اسلام آباد اور ہنزہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔

احتجاجی مظاہرین نے کمسن بچی کا 20 جنوری 2024 کو مبینہ اغوا کے بعد غیر قانونی شادی کے معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔

چائلڈ پروٹیکشن ورکرز نے حالیہ دنوں ہونے والے مبینہ اغوا اور غیر قانونی شادی، جو کہ صوبہ خیبر پختونخواکے ضلع مانسہرہ  میں ہوئی’ کے حوالے سے  خیبرپختونخوا چائلڈ رائٹس کمیشن کے کردار پر سوال اٹھایا۔

سلطان آباد گلگت سے تعلق رکھنے والی کم عمر لڑکی فلک ناز اغواء اور اسے شادی کی رنگ دینے کے خلاف ہنزہ عوامی ورکرز پارٹی نے سینیر رہنماء بابا جان اور عقیلہ بانو کی قیادت میں علی آباد ہنزہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ جس میں ۔مغوی لڑکی کی جلد بازیابی اور ملزمان کی جلد گرفتاری کے مطالبات درج تھے۔

مظاہرین نے کم عمر لڑکی کی شادی کے بیان کو مکمل طور پر مسترد کیا اور کہا کہ لڑکی کی عمر مشکل سے بارہ سال ہے۔ کس قانون کے تحت لڑکی کی شادی کراٸی گٸی۔ اگر غیر قانونی شادی کراٸی بھی گٸی ہے تو پولیس اور انتظامیہ غیر قانونی نکاح پڑھانے والے نکاح خواں کے خلاف بھی کاررواٸی کرے۔

واضع رہے کہ گلگت پولیس اور پوری سرکاری مشینری دو ماہ ہونے کے باوجود مغوی لڑکی کی بازیابی میں مکمل نام رہی ہیں۔ لڑکی کے والد کی جانب سے میڈیا پر آنے اور پولیس پر ملزمان کی پشت پناہی کرنے کے الزامات کے بعد پولیس نے مشکل سے کاررواٸی کا آغاز کیا تھا۔ اب جبکہ عوامی دباو بڑنے کے بعد مبینہ طور پر پہلے مغوی لڑکی کی ویڈیو بیان منظر عام پر لایا گیاجس میں لڑکی نے دعویٰ کیا کہ اس نے پسند کی شادی کی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سرکار کو خوب علم ہے کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی غیر قانونی ہے۔ اس سے قبل کراچی سے اغواء ہونے والی دعا زہراء کیس میں بھی یہی مسٸلہ تھا۔ عدالت کے حکم پر لڑکی کو والدین کے حوالے کیا گیا۔

یہ واقعہ بھی اسی قسم کا ہی ہے۔ اس لٸے پولیس لیت و لعل سے کام لٸے بغیر لڑکی کو بازیاب کرانے میں کردار ادا کریں اور ملزمان کو کٹہرے لاکر مغویہ کی فیملی کو انصاف دلایا جاٸے۔

مظاہرین نے بچی کو فوری طور پر بازیاب کروانے اور اسے عدالت کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر سے یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیقات کی جائے کہ اس نے  کس طرح بچی کی عمر کا تعین کیا اور سرٹیفکیٹ جاری کردی، نیز پیشہ وارانہ مس کنڈکٹ پر ڈاکٹر کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائی جائے۔یہ بھی مطالبہ کیا کہ بچی کی عمر کا تعین کرنے کے لیے مستند طبی اور قانونی طریقے استعمال کیا جائے۔

انہوں نے نکاح خواں اور رجسٹرار کے طرز عمل کی چھان بین کرنے اور قانون کے مطابق سزائیں دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے ان پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کرانے جن پر بچی کے والدین کی جانب سے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں، کا بھی مطالبہ کیا۔اس بات کا بھی تحقیقات کی جائیں کہ ایف آئی آر درج کرنے کے باوجود پولیس دو ماہ تک کوئی قابل اعتبار کارروائی کیوں نہ کر سکی۔

مظاہرین نے  پشاور ہائی کورٹ سےمطالبہ کیا ہے کہ 164   کا بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کے خلاف انکوائری کمیشن بنا کر تحقیقات کریں۔

مظاہرین نے متاثرہ خاندان کو انصاف ملنے تک احتجاج جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

The post فلک نور کی جلد بازیابی عمل میں لائی جائے۔ احتجاجی مظاہریں appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/15267/feed 0
” قصہ پون صدی کا” https://baam-e-jahan.com/story/14712 https://baam-e-jahan.com/story/14712#respond Sun, 27 Aug 2023 10:42:21 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=14712 (معروف قانون دان، ترقی پسند مفکر، مارکسی دانشور اور عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر جناب عابد حسن منٹو کی دوسری کتاب "قصہ پون صدی کا” شائع ہو گیا ہے۔ ان کی پہلی کتاب، "اپنی جنگ جاری رہے گی” تین مزید پڑھیں

The post ” قصہ پون صدی کا” appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

(معروف قانون دان، ترقی پسند مفکر، مارکسی دانشور اور عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر جناب عابد حسن منٹو کی دوسری کتاب "قصہ پون صدی کا” شائع ہو گیا ہے۔

ان کی پہلی کتاب، "اپنی جنگ جاری رہے گی” تین سال قبل شائع ہو گئی تھی۔)


"’’’قصّہ پون صدی کا ‘‘ نامی اپنے حالیہ شائع شدہ کتاب کے حوالے سے مصنف کا کہنا ہے کہ

یہ کتاب کوئی باقاعدہ، سال بہ سال خودنوشت یا سوانح عمری نہیں ہے۔ عام طور پہ خودنوشت یا سوانح میں زندگی کے مختلف ادوار صفائی سے علیحدہ علیحدہ بیان کیے جاتے ہیں اور قریب قریب ایک باقاعدہ تاریخ وار ترتیب میں ہوتے ہیں۔

اس کتاب میں میں نے اپنی زندگی کے ایسے تجربات و واقعات کو بیان کیا ہے جنھیں میں اہمیت دیتا ہوں یا سمجھتا ہوں کہ ان کے اثرات میری زندگی پہ مرتب ہوئے۔ اس میں میرے بچپن سے لے کر اب تک کی خاندانی زندگی کا بیان بھی ہے اور ملکی و غیر ملکی سیاست کا بھی۔ کچھ وکالت اور وکلا سے جڑی جمہوری جدوجہد کے قصے ہیں اور کچھ مقدمات کا ذکر ہے۔

اس وقت، یہ پیش لفظ تحریر کرتے وقت میری عمر 91 برس ہے۔ کتاب کے لکھنے اور ترتیب دینے میں بہت سی دشواریوں اور مسائل کا سامنا رہا اور کئی وجوہات کی بنا پہ اس کا لکھا جانا اور اشاعت تاخیر کا شکار ہوئے۔ گو کچھ وجہ یہ بھی تھی کہ وکالت کے پیشے سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں خود کو کچھ سُست پاتا تھا، ایک بڑی وجہ کووڈ کی وبا تھی جو اپنے طویل دورانیے میں طرح طرح سے ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگیوں پر اثر انداز ہوئی۔

اس کتاب کے ابواب کچھ واقعاتی ہیں کچھ تجزیاتی، اور یہ دونوں، لامحالہ، میرے مخصوص سیاسی اور معاشرتی نظریات کے پس منظر میں تشکیل پائے ہیں۔ ملکی، معاشرتی اور سیاسی حالات کا بیان اور تجزیہ ہو یا بین الاقوامی سیاست میں رونما ہونے والے پچھلی کچھ دہائیوں کے واقعات، سوویت یونین کا ٹوٹ جانا ہو یا دُنیا بھر کی بائیں بازو کی سیاست پر اس کے ٹوٹنے کے اثرات، سوویت یونین اور چین کی کشمکش ہو یا چین کا اپنے تئیں آج بھی کمیونسٹ سمجھنا، پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا ہو یا اس کا دو حصوں میں تقسیم ہونا، پاکستان میں جاری رکھے گئے نِت نئے سیاسی اور فوجی تجربات ہوں یا اعلیٰ عدالتوں کے مجرمانہ حد تک برے سیاسی فیصلے، ترقی پسند ادب کی تحریک ہو یا جنرل ضیاء کے دور میں وکلا کی بحالیِ جمہوریت کی تحریک … ظاہر ہے کہ سب کے ذکر اور تجزیے کے پس منظر میں میرے مخصوص خیالات اور نظریات ہیں۔

 پاکستان بننے کے بعد کالج کے زمانے میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا رکن بننے سے لے کر آج تک میں خود کو کمیونسٹ اور مارکسسٹ ہی سمجھتا ہوں اور اِسی زاویے سے ان سب معاملات کو دیکھتا رہا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ اس کتاب میں کی گئی گفتگو نہ صرف ان قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی جو بائیں بازو کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ شاید ان کے لیے بھی جو پاکستان کی سیاسی اساس و تاریخ، آئین، معاشرتی انصاف اور انسانی حقوق کے مسائل سے اپنے غور و فکر کا تعلّق جوڑتے ہیں۔

The post ” قصہ پون صدی کا” appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/14712/feed 0
نو روز کیا ہے اور کہاں ہے۔ https://baam-e-jahan.com/story/13549 https://baam-e-jahan.com/story/13549#respond Tue, 21 Mar 2023 17:05:42 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=13549 تحریر: فرنود عالم موسمِ بہار کے استقبال کے لیے تقریبا ہر قوم قبیلے میں تہواروں، میلوں ٹھیلوں اور جھوم جھملیوں کی روایت موجود ہے۔ ہمارے نمائندہ تہواروں کا خطے میں آغاز ہوگیا ہے۔ لوہڑی اور ہولی کا تہوار گزر گیا مزید پڑھیں

The post نو روز کیا ہے اور کہاں ہے۔ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر: فرنود عالم

موسمِ بہار کے استقبال کے لیے تقریبا ہر قوم قبیلے میں تہواروں، میلوں ٹھیلوں اور جھوم جھملیوں کی روایت موجود ہے۔

ہمارے نمائندہ تہواروں کا خطے میں آغاز ہوگیا ہے۔ لوہڑی اور ہولی کا تہوار گزر گیا ہے، نو روز کا تہوار آگیا ہے۔ بسنت اور بیساکھی کو بھی آنا چاہیے، مگر نہیں آئیں گے۔ آئیں گے بھی تو سرحد کے پار آئیں گے۔ ہمارے نصیب سے سب اچھے رنگ مٹا دیے گئے ہیں۔

قدیم ایرانی شمسی کیلینڈر کا آغاز یکم فروردین یعنی اکیس مارچ سے ہوتا ہے۔ سو ایرانی تہذیب میں نوروز کا جشن مناکر محض بہار کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا، نئے سال آغاز بھی کیا جاتا ہے۔

ایران سے کئی قومیں، تہذیبیں اور مذہبی دھڑے ہوکر گئے ہیں۔ جو گیا نوروز کے آتش دان سے ایک چنگاری توڑ کر گیا۔ ایران خود بھی کہیں سے ہوکر آیا تو نوروز کی چھاپ چھوڑ کر آیا۔

اس کی تاریخ حضرتِ مسیح کے عہد سے بھی بہت پہلے کی ہے۔ زرتشتوں نے نوروز کو سرکاری سطح پر منانے کی روایت ڈالی تو اس کے خاکے میں خوش رنگ علامتوں کا خوبصورت اضافہ ہوا۔

قدیم ایرانی شمسی کیلینڈر کا آغاز یکم فروردین یعنی اکیس مارچ سے ہوتا ہے۔ سو ایرانی تہذیب میں نوروز کا جشن مناکر محض بہار کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا، نئے سال آغاز بھی کیا جاتا ہے۔

آگ، روشنی، سورج، روایتی ملبوس، پھول پودے، رقص و موسیقی، عطر، چراغ، دھونی، میوے اور خوردے نوروز کی علامتیں ہیں۔

اسی طرح !

دسترخوان پر سجائے جانے والے پھل پودے اور اوڑھے جانے والے رنگ در اصل انصاف، خوش حالی، مثبت سوچ اور درگزر کی علامات ہیں۔

نوروز ایران سے ہی پارسیوں کے ساتھ چلتا ہوا ہندوستان کے بازاروں میں آیا۔ مغلوں نے پھر اس کا اہتمام کیا۔ مقامی ثقافتوں کو اس کے خال و خد اپنے جیسے لگے۔ دل سے لگالیا۔

اسماعلیوں، پارسیوں اور بہائیوں کی ہی وجہ سے یہ چراغ کراچی میں جلتے تھے۔ اب بھی جلتے ہیں، مگر اب لو ذرا مدہم ہوتی ہے۔

افغانستان میں بارود اور خون کی بو پھیلی تو نوروز کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اس نے وہاں سے ہجرت کرلی۔ اور یہ کوئی پہلی ہجرت نہیں تھی۔

امیر عبد الرحمن کے دور میں ہزارہ قوم نے ہرات اور بامیان سے کوئٹہ کی طرف ہجرت کی تو نوروز کی روایت بھی پھولوں والی چادر لپیٹ کر یہاں آگئی۔ اسی لیے کوئٹہ کی ہواوں میں نوروز کی مہک اب بھی محسوس کی جاتی ہے۔

نوروز کی روشنی ڈیورنڈ لائن کو بغیر کسی ویزے کے عبور کرکے اکثر اِس طرف کے پشتون علاقوں میں نکل آتی تھی۔ ‘سپرلے’ کے میلوں میں گھل مل کر بہار کو ہرکلے کہتی تھی۔ پاڑا چِنار اور اس کے اطراف میں نوروز کے رنگ اب بھی پھیکے نہیں پڑے۔

امیر عبد الرحمن کے دور میں ہزارہ قوم نے ہرات اور بامیان سے کوئٹہ کی طرف ہجرت کی تو نوروز کی روایت بھی پھولوں والی چادر لپیٹ کر یہاں آگئی۔ اسی لیے کوئٹہ کی ہواوں میں نوروز کی مہک اب بھی محسوس کی جاتی ہے۔

لیکن نوروز کا حوالہ بلوچوں کے لیے کبھی نیا نہیں رہا۔ ایک تو بلوچستان اور ایران سنگ بہ سنگ ہیں۔ پھر عربوں کے تسلط اور انقلاب کے بعد جو پار سی اور بہائی یہاں وہاں فرار ہوئے، وہ کوئٹہ بھی آئے۔ پارسی اور بہائی آئیں، نوروز ساتھ نہ آئے، ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔

آذر بائیجان اور تاجکستان میں نوروز کے ڈنکے ہفتے دو ہفتے پہلے ہی پِٹ جاتے ہیں۔ رونقیں، تحفے تحائف، میل جول، عشوے اور اظہاریے ماحول میں سال بھر کے لیے مثبت انرجی سٹاک کر رہے ہوتے ہیں۔

تاجکستان کی وجہ سے یہ روایت ساتھ کے علاقے گلگت بلتستان میں اب بھی بھرپور نظر آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلتستان کے لیے یہ کوئی نئی روایت ہے۔ زمانے سے یہ روایت کشمیر میں ہولی اور دیوالی کے ساتھ ساتھ موجود تھی۔ وہیں سے اس نے بلتستان کی راہ لی اور پھر ہنزہ پہنچی۔

پھر اس خطے میں اسماعلی بھی تو ہیں۔ نوروز کا پانی اسی چینل سے گزر کر شندور تک جاتا ہے۔ شندور کے اس پار چترال میں بہار ہی کا ایک قدیم میلہ ‘چِلم جوش’ بھی سجتا ہے۔ کالاش میں اس کے رنگ ڈھنگ آپ دیکھ چکے ہوں گے۔ یوں سمجھیں یہ نوروز ہی ہے۔

وبا کی دنوں میں جب لوگ گھروں تک محدود ہوگئے تھے، تب دنیا بھر کے انسانوں کو درد اور موسیقی کے علاوہ جس چیز نے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، وہ نوروز ہی تھا۔ یاد کیجیے، امریکا تک میں یہ جشن بھرپور انداز میں آن لائن منایا گیا تھا۔

بڑی بات یہ نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں یہ روایت بہت پہلے سے موجود ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ یہ روایت اب بھی موجود ہے۔ مگر کیسے موجود ہے۔ جب لاہور میں بسنت باقی نہیں رہا تو یہاں نوروز کیسے موجود ہے؟

در اصل ان کی ریت روایت اور تہذیب وتمدن پاکستان کے کلچر سے کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتی۔ مناسبت جوڑنے کی انہیں کوئی آرزو بھی نہیں ہے۔ ان کی ثقافت کو لپیٹنے کے لیے تبلیغی سیلیبریٹیز کو بھیجا تو جاتا ہے، مگر نصرت نہیں مل پاتی۔

پاکستان کی کوئی معلوم ثقافت وجود ہی نہیں رکھتی۔ ثقافتیں تو در اصل یہاں بسنے والی قوموں کی ہیں۔ ان ثقافتوں کا خاتمہ کرکے یہاں ‘ایک قومی نصاب’ کی طرح عرب کلچر رائج کردیا گیا ہے۔

نو روز کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس کا خمیر اسی خطے سے اٹھایا گیا تھا۔ اس کی آنکھ میں یہیں سے جنم لینے والی تہذیبوں، قوموں اور مذاہب نے اپنے اپنے حصے کا سرمہ بھرا تھا۔ یہ سُرمہ اِسی سرزمین کی مٹی پِیس کر بنایا گیا تھا۔

وبا کی دنوں میں جب لوگ گھروں تک محدود ہوگئے تھے، تب دنیا بھر کے انسانوں کو درد اور موسیقی کے علاوہ جس چیز نے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، وہ نوروز ہی تھا۔ یاد کیجیے، امریکا تک میں یہ جشن بھرپور انداز میں آن لائن منایا گیا تھا۔

اس خطے میں ہولی سے چِلم جوشت تک بہار کے ہر میلے کا رنگ نوروز میں نظر آتا ہے۔ یہ سورج اور آگ کی روشنی ہے، جو سرحد کے آر پر برابر اترتی ہے۔ اب یہ سات پانیوں کے اُس پار بھی اترچکی ہے۔ تبھی تو یو این نے اسے کُل انسانیت کا ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔

مگر!

وائے نصیب کہ ہمارے ہاتھ سے نوروز نکل گیا۔ نوروز ہی کیا، خوشیوں کا ہر تہوار نکل گیا۔ ایسے ہر تہوار کی یاد میں سب کو نوروز مبارک۔

The post نو روز کیا ہے اور کہاں ہے۔ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/13549/feed 0
مفکر کا گدلا پانی https://baam-e-jahan.com/story/13244 https://baam-e-jahan.com/story/13244#respond Tue, 24 Jan 2023 13:49:05 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=13244 تحریر: عزیزعلی داد عہدحاضر کی پاکستانی سوچ جو دانشوری کے نام پر سوشل میڈیا میں دیکھنے کو ملتی ہے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔بس فرق اتنا ہے کہ سوشل میڈیا نے اس عمومی مگر مخفی ذہنیت کو سب کے سامنے مزید پڑھیں

The post مفکر کا گدلا پانی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر: عزیزعلی داد


عہدحاضر کی پاکستانی سوچ جو دانشوری کے نام پر سوشل میڈیا میں دیکھنے کو ملتی ہے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔بس فرق اتنا ہے کہ سوشل میڈیا نے اس عمومی مگر مخفی ذہنیت کو سب کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔اصلی فکرمفکر کو اپنے معاشرے، لوگوں اور ریاست سے بیگانہ کردیتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں فکر مفکر کے لیےطاقت کی راہداریوں کے در  وا کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی سرمایہ سے مالامال لوگوں کے قریب کردیتی ہے۔

یہ پینٹنگ بن جانسن کے معروف ڈرامے الکیمسٹ سے ماخود ہے جس میں کچھ فراڈیے معاشرے کے ہر طرح کے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی جعلی سائنس الکیمیا کے ذریعے بے وقوف بنا کر لوٹتے ہے۔

پاکستانی دانشورانہ پیٹرن یہ ہے کہ آپ کسی بھی مکتب فکر یا آئیڈیالوجی کےبڑے ناموں پربے غیر پڑھے اور سمجھے دشنام انگیزی شروع کریں۔ آپ اس طریقہ کار کو کچھ مہینوں تک دہراتے رہیں۔آہستہ آہستہ اسی طرح سوچنے والے آپ کے اردگرد جمع ہوجائیں گے۔بالآخر آپ افکار کی دنیا کے اختر لاوا بن کر ابھریں گے۔جب آپ کسی معروف مگر آپ کے ناپسندیدہ مفکر پر تنقید کریں گے تو اسے ناپسند کرنے والے آپ کی واہ واہ کریں گے اور بہت جلد آپ ایک نمائندہ مفکر بن جائیں گے۔

پاکستانی دانشورانہ پیٹرن یہ ہے کہ آپ کسی بھی مکتب فکر یا آئیڈیالوجی کےبڑے ناموں پربے غیر پڑھے اور سمجھے دشنام انگیزی شروع کریں۔ آپ اس طریقہ کار کو کچھ مہینوں تک دہراتے رہیں۔آہستہ آہستہ اسی طرح سوچنے والے آپ کے اردگرد جمع ہوجائیں گے۔بالآخر آپ افکار کی دنیا کے اختر لاوا بن کر ابھریں گے

چونکہ مخالف مفکر کے بھی بہت سے عقیدت مند ہوتے ہیں ،وہ بھی فوری طور  ردعمل کے طور پر وہی انداز بیان اختیار کریں گے جیسا نقاد اولین نے کیا تھا۔ اس طرح معاشرے میں ایک ایسا ڈسکورس پیدا ہوتا ہے جو کسی بھی متن کے گہرے مطالعے اور تجزیے سے نہیں ابھرتا ہے بلکہ دوسرے گروپ کو زک پہنچانےکی نیت  سے کیا جاتاہے۔یوں ایک سنجیدہ علمی معاملے پر ایک عامیانہ بیانہ تیار ہوتا ہے۔ یہی عامیانہ باتین پاکستانی سوشل میڈیائی دانشوروں کی پسندیدہ ذہنی خوراک ہے جس کی طلب ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے۔ یہی طلب رسد مہیا کرنے والے لوگ پیدا کرتی ہے۔

کچھ سالوں پہلے میں ان تمام مفکروں کو بلاک کرنا شروع کردیا تھاجو بہت ہی گنجلک معاملے کا بہت ہی یک رخا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان میں ذہنی تجسس کی بجائے اندھی تنقید کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور بڑے قد کاٹ کے لوگوں پر دشنام طرازی کرکے اپنا نام بناتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا تجزیہ ایک ہی نقطے پہ پھنسا ہوتا تھا۔ ان میں حالیہ نام اویس اقبال کا بھی ہے۔ان کی سطحیت اور اندھے فالورز کو دیکھ کر میں نے ان کو فالو کرنا چھوڈ دیا تھا۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ بندے نے شوشلشٹوں کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے۔اگر موصوف کو اتنا ہی اختلاف تھا تو یا تو کوئی پیپریا کتاب لکھ لیتے۔ساری دنیا میں علمی اختلاف ہوتا ہے اور اس کا علمی جواب دیا جاتا ہے۔اور تو اور اختلاف کرنے سے قبل بندے کو اپنے آپ کو اختلاف کرنے کے قابل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ چیز ہر مکتبہ فکر میں مفقود ہے۔اس رجحان کو دو تجربات سے واضع کرتا ہوں۔

پچھلے سال شوشل میڈیا پہ ایک صاحب سے واسطہ پڑا جو ہر دوسرے دن ڈاکٹر محمد اقبال پر گالیوں سمیت تنقید کرتے تھے کہ انھوں نے اسلام کے زیر اثر پاکستانی مسلمانوں کو پرتشدد بنا دیا ہے۔چونکہ فلسفے کے میری خاص دلچسپی جرمن فلسفے میں ہے، اس لیے میں نے عرض کیا کہ اقبال پر اسلام سے بھی زیادہ اثرات مغربی فلسفے کے ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں کالج کے قریب ایک مسجد کے مولانا کی تقریر سنی۔ موصوف کہہ رہے تھے کہ ملحدی پھیلانے کے لیے مغربی سرمایہ داروں نے کارل مارکس کے خیالات کو دنیا کے ہر حصے بشمول پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کی مگر چونکہ ہر مسلمان کا دل اسلام کا قلعہ ہے اس لئے پاکستان میں کمیونزم کے ملحدانہ خیالات پھیل نہ سکے۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ مولوی کو اپنی جہالت پر پختہ یقین تھا۔

 اب جرمنی کے یونیورسٹی آف جینا سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے والا  کارل مارکس اس مولوی کے سامنے بے بس تھا۔ تب سے میں نے فیصلہ کیا کہ مارکس کو سمجھنا ہے تو کسی پروفیسر سے سمجھنا ہے نہ کہ اس مولوی سے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس اہل ہی نہیں بنایا کہ وہ مارکس کو سمجھ کر تنقید کرسکے۔ کہاں یونیورسٹی آف جینا اور کہاں پیر ودھائی۔

پچھلے سال شوشل میڈیا پہ ایک صاحب سے واسطہ پڑا جو ہر دوسرے دن ڈاکٹر محمد اقبال پر گالیوں سمیت تنقید کرتے تھے کہ انھوں نے اسلام کے زیر اثر پاکستانی مسلمانوں کو پرتشدد بنا دیا ہے۔چونکہ فلسفے کے میری خاص دلچسپی جرمن فلسفے میں ہے، اس لیے میں نے عرض کیا کہ اقبال پر اسلام سے بھی زیادہ اثرات مغربی فلسفے کے ہیں۔

چونکہ مسلمان فکری طور پر غریب تھے، اسی لیے اقبال اعلی تعلیم اور پی ایچ ڈی کے لئے کیمبرج یونیورسٹی انگلستان اور لڈوگ میکملن یونیورسٹی جرمنی گئے تھے۔تبھی تواقبال جرمن قومی شاعر گوئٹے کے ساتھ پیام مشرق اور دیگر تحریروں میں تہذیبی مکالمہ کرنے میں کامیاب ہوا۔

اب موصوف کے اقبال کے ایک پیور یعنی خالص مسلمانی مفکر ہونے کے لبرل مفروضے پر چوٹ لگی تو موصوف نے مجھے مذہبی تعصبی ڈیکلئیر کردیا۔ پھر ان کی دشنام سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے انہیں ان فالو کردیا۔

اسی طرح آپ پاکستانی لیفٹسٹ سے جیکس لاکان، دریدا،لیوٹارڈ یا فوکو کی بات چھیڑ دیں تو وہ فورا انھیں پوسٹ ماڈرن چول قرار دے کے مسترد کردیں گے۔ یوں پاکستانی ذہن چاہے کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو، اپنے آپ کو علمی جستجو سے زیادہ مجادلوں اور مناظروں میں پھنسایا  ہواہے۔ چونکہ یہ ذہن خود سطحی ہے اس لیے بقول نطشے اپنے آپ کو گہرا دکھانے کے لئے پانی کو گدلا کردیتا ہے۔حیف کہ ہم اس گدلے ذہن کو مفکر اور گدلے پانی کو علم سمجھ بیٹھے ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں کالج کے قریب ایک مسجد کے مولانا کی تقریر سنی۔ موصوف کہہ رہے تھے کہ ملحدی پھیلانے کے لیے مغربی سرمایہ داروں نے کارل مارکس کے خیالات کو دنیا کے ہر حصے بشمول پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کی مگر چونکہ ہر مسلمان کا دل اسلام کا قلعہ ہے اس لئے پاکستان میں کمیونزم کے ملحدانہ خیالات پھیل نہ سکے۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ مولوی کو اپنی جہالت پر پختہ یقین تھا۔

یہی تو وجہ ہے کہ ہم علم پر کم زور دیتے ہیں اور بھرم کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیتے ہیں۔ہمارے اندر کچھ ہے ہی نہیں، تو بھرم ہی مار یں گے۔اور ویسے بھی خالی برتن ہی زیادہ شور مچاتے ہیں۔پاکستان میں فکر وہ الکیمیا ہے جو کبھی بھی لوہے کو سونا نہ بنا سکی مگر لوہے کو سونا بتا کر فروخت کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پینٹنگ: یہ پینٹنگ بن جانسن کے معروف ڈرامے الکیمسٹ سے ماخود ہے جس میں کچھ فراڈیے معاشرے کے ہر طرح کے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی جعلی سائنس الکیمیا کے ذریعے بے وقوف بنا کر لوٹتے ہے۔

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

عزیزعلی داد ا

The post مفکر کا گدلا پانی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/13244/feed 0
معاشرہ، تبدیلی اور علی شریعتی https://baam-e-jahan.com/story/13167 https://baam-e-jahan.com/story/13167#respond Wed, 11 Jan 2023 06:53:36 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=13167 تحریر: شاہد صدیقی کہتے ہیں کچھ لوگ شہابِ ثاقب کی طرح ہوتے ہیں‘ ان کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے لیکن ان کے افکار کی روشنی مدتوں ذہنوں کے افق اجالتی رہتی ہے۔علی شریعتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا مزید پڑھیں

The post معاشرہ، تبدیلی اور علی شریعتی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

تحریر: شاہد صدیقی


کہتے ہیں کچھ لوگ شہابِ ثاقب کی طرح ہوتے ہیں‘ ان کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے لیکن ان کے افکار کی روشنی مدتوں ذہنوں کے افق اجالتی رہتی ہے۔علی شریعتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

ان دنوں یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سمسٹر بریک تھی اس دوران ہاسٹل تقریباًخالی ہو جاتا تھا ۔مانچسٹر میں میرا ایک ہی دوست تھا‘ پروفیسر راج‘ جس کے ہمراہ میرا زیادہ وقت گزرتا تھا ۔وہ سوشیالوجی کا پروفیسر تھا اور سوشل تھیوری اس کا پسندیدہ موضوع تھا‘ یہی ہماری دوستی کی بنیاد تھی۔ اُس کا تعلق ساؤتھ انڈیا سے تھا‘ لیکن اب اس نے مانچسٹر ہی کو ہمیشہ کے لیے ٹھکانہ بنا لیا تھا جہاں اس نے دو کمروں کا چھوٹا سا گھر کرائے پر لے رکھا تھا جو فرنیچر کے بجائے کتابوں سے آباد تھا ۔

میں ان دنوں برٹش کونسل کے سکالرشپ پر انگریزی میں ایم اے کر رہا تھا اورسوشیالوجی سے میری دلچسپی کو راج نے بڑھا دیا تھا ۔اکثر شام کو مانچسٹر کے وٹ ورتھ پارک میں سیر کرتے ہوئے ہم مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے‘ بلکہ سچ تو یوں ہے کہ زیادہ وقت راج گفتگو کرتا اور میں اس کی گفتگو کو سنتا رہتا ۔

علی شریعتی کی تحریروں کو انقلابِ ایران کا والٹئر (Voltaire)کہا جاتا ہے۔

اب ان دنوں کی یاد آتی ہے تو مجھے مانچسٹر کی شامیں یاد آ جا تی ہیں اور پھر وٹ ورتھ پارک میں پروفیسر راج کی باتیں جن کا موضوع اکثر معاشرہ ہوتا کہ معاشرے کس طرح نمو پاتے ہیں؟

معاشرے میں تبدیلی کیسے آتی ہے ؟ سماجی برتاؤ سے کیا مراد ہے ؟ معاشرے میں طاقت کا تصور کیا ہے؟ سماجی انقلاب کیسے آتے ہیں؟ جدیدیت کسے کہتے ہیں؟ مثالی معاشرت کا تصور کیا ہے؟ سماجی ادارے کیسے خیالات اور تصورات کی پرورش کرتے ہیں؟ فرد اور معاشرے کا کیا تعلق ہے؟ کیسے کیسے موضوعات تھے جو ہماری گفتگو کا محور ہوتے ۔

ان دنوں میرا دل تو سوشل تھیوری میں اٹکا رہتا تھا‘ جس میں کتابوں سے زیادہ راج کی محفلوں کا اثر تھا‘ یہیں میں پہلی بار راج کی بدولت فوکو (Foucault)کے نام سے آشنا ہوا ۔ جب راج نے اپنے گھر کی چھوٹی سی لائبریری سے فوکو کی کتاب Discipline and Punish مجھے پڑھنے کے لیے دی تھی جس کے مطابق سزا کا قدیم تصور ‘جس کا مرکز طبعی جسم ہوا کرتا تھا‘ اب بدل گیا ہے اور دورِ حاضر کے انسان کے ٹارچر کا تعلق جسم سے زیادہ ذہن کے ساتھ ہے۔

ایک طرف وہ مارکس اور فرائڈ کا مطالعہ کر رہا تھا‘ دوسری طرف علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی کی تعلیمات سے متاثر تھا ۔ وہ نظریے کو عمل میں ڈھلتا دیکھنا چاہتا تھا

اب میں اکثر سوچتا ہوں کاش میں ان دنوں کی ڈائری لکھتا رہتاجس میں راج کی گفتگو ہوتی۔ میر ا ایک سال کا ایم اے ختم ہو رہا تھا‘مانچسٹر چھوڑنے کا وقت آ رہا تھا ۔راج سے آخری ملاقات میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی وہ بول رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اب شاید یہ گفتگو میں کبھی نہ سُن سکوں گا۔اُس روز راج نے مجھ سے پوچھا ”تم نے علی شریعتی کا نام سُنا ہے؟ ‘‘ پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی کہنے لگا تم واپس اپنے وطن جاؤ گے تو کتابوں سے دوستی مت چھوڑنا اور وقت ملے تو علی شریعتی کے بارے میں پڑھنا۔

پاکستان واپس آکر میں کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھانے لگا۔ایک روز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں شیلف پر پڑی کتابیں دیکھ رہا تھا کہ ایک کتاب دیکھ کر رُک گیا‘ یہ کتاب علامہ اقبال کے بارے میں تھی اور مصنف کا نام علی شریعتی تھا۔

پیرس میں قیام کے دوران ایک طرف تو علی شریعتی پر علم کے نئے دریچے کھل رہے تھے اور دوسری طرف اس کے سیاسی شعور کی پرورش ہو رہی تھی۔علی شریعتی دونوں مواقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہا تھا۔

اچانک میرے ذہن میں پروفیسر راج سے آخری ملاقات کا منظر روشن ہو گیا‘ جس میں اس نے علی شریعتی کا ذکر کیا تھا۔اس شام میں علی شریعتی کو جاننے کے سفر پر نکلا تو حیرتوں کے در کھلتے گئے۔

علی شریعتی کی تحریروں کو انقلابِ ایران کا والٹئر (Voltaire)کہا جاتا ہے۔

وہ 1933ء میں پیدا ہواتھا‘ اس کے والدایک عالمِ دین اور استاد تھے ‘ بیٹے نے بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے استاد بننے کا فیصلہ کیا۔تربیتِ اساتذہ کے کالج میں قیام کے دوران علی شریعتی نے طبقاتی فرق کو بہت قریب سے دیکھا ۔وہ اکثر سوچا کرتا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک ہی معاشرے میں کچھ لوگ انتہائی ثروت مند اور کچھ بہت مفلس ہوتے ہیں۔؟

طبقاتی فرق کا یہ ابتدائی مشاہدہ آخر دم تک علی شریعتی کی انقلابی سوچ کی بنیاد رہا۔وہ اسلامی ممالک کے معاشروں کے مسائل کو ایک نئے رُخ سے دیکھ رہا تھاجس میں مذہب‘فلسفہ اور عمرانیات کے زاویے اس کی رہنمائی کر رہے تھے۔

اس کی سیمابی طبیعت میں قرار نہیں تھا ۔ایک طرف وہ مارکس اور فرائڈ کا مطالعہ کر رہا تھا‘ دوسری طرف علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی کی تعلیمات سے متاثر تھا ۔ وہ نظریے کو عمل میں ڈھلتا دیکھنا چاہتا تھا

1952 ء میں جب وہ ہائی سکول میں استاد مقرر ہوا تو اس نے اسلامک سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی ۔اگلے ہی سال حکومت کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے پر اُسے گرفتار کر لیا گیا۔

یہ وہی وقت تھا جب ایرانی وزیرِاعظم محمد مصدق کو برطرف کر دیا گیا تھا۔یہ علی شریعتی کی پہلی گرفتاری تھی جس نے اس کے ارادوں کو اور پختہ کر دیااور وہ نیشنل فرنٹ کا ممبر بن گیا۔ اسی دوران میں علی شریعتی نے مشہد یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کر لی۔

1957ء میں اسے ایک بار پھر National Resistance Movementکے سولہ ارکان کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔قید سے رہائی کے بعد بھی علی شریعتی متحرک رہا۔1964ء میں علی شریعتی کو پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لیے پیرس میں داخلہ مل گیا۔

پیرس میں قیام کئی حوالوں سے اہم تھا۔یہیں اس کا رابطہ الجیرین نیشنل لبریشن فرنٹ سے ہوا‘ یہیں پر اس کا تعارف Frantz Fanonکی تحریروں سے ہوا۔یوں لگتا تھا یہ تحریریں اس کے دل کی دھڑکن بن گئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس نے ان تحریروں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

پیرس میں قیام کے دوران ایک طرف تو اس پر علم کے نئے دریچے کھل رہے تھے اور دوسری طرف اس کے سیاسی شعور کی پرورش ہو رہی تھی۔علی شریعتی دونوں مواقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہا تھا۔

علی شریعتی مذہب کے حرکی تصور کے قائل تھے۔  وہ مغربی ثقافت اور سیاست کے روایتی تصور کو چیلنج کرتے تھے۔ ان کے نزدیک ہماری ثقافت اور پہچان مذہب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے

یہ جنوری 1961ء کی بات ہے جب کانگو کے مقبول رہنما Patrice Lumumba کو 17جنوری کو قتل کر دیا گیا۔ اس روز لوگ اس قتل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ علی شریعتی بھی مظاہرین میں نمایاں تھا۔اس روز گرفتار ہونے والوں میں وہ بھی شامل تھا۔

پیرس میں اس ہنگامہ خیز قیام کے دوران 1962ء میں علی شریعتی نے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔اسی دوران اس کی ملاقات معروف فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر سے ہوئی۔

پیرس میں زندگی کا ایک متحرک دور گزارنے کے بعد 1964ء میں علی شریعتی نے ایران واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ ایران میں ان دنوں رضاشاہ پہلوی کی حکومت تھی‘ جس کیلئے علی شریعتی کے انقلابی خیالات قابلِ قبول نہ تھے‘ یوں ایران آتے ہی علی شریعتی کو گرفتار کر لیا گیا۔کچھ ہفتوں بعد رہائی ہوئی تو علی شریعتی نے مشہد یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔

علی شریعتی مذہب کے حرکی تصور کے قائل تھے۔  وہ مغربی ثقافت اور سیاست کے روایتی تصور کو چیلنج کرتے تھے۔ ان کے نزدیک ہماری ثقافت اور پہچان مذہب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے

‘اس لیے سرمایہ داری نظام کا مقابلہ مذہب کو ایک طرف رکھ کر نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی ثقافت کی کڑی تنقید اور اپنی اصل شناخت کی بازیافت ان کے اور علامہ اقبال کے درمیان قدرِمشترک تھی۔

وہ اس مغربی تصور ِجمہوریت کے خلاف تھے جس کی بنیاد ان کے بقول زر‘زور اور تعزیر پر ہے۔ جس میں معاشرے کے افراد کو مینج کیا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے انقلابی نظام کے داعی تھے جس میں معاشرے کے افراد کی رہنمائی کی جا سکے۔

وہ اس مغربی تصور ِجمہوریت کے خلاف تھے جس کی بنیاد ان کے بقول زر‘زور اور تعزیر پر ہے۔ جس میں معاشرے کے افراد کو مینج کیا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے انقلابی نظام کے داعی تھے جس میں معاشرے کے افراد کی رہنمائی کی جا سکے۔

 مشہد یونیورسٹی کے کچھ عرصہ بعد تہران کے حسینیہ ارشاد انسٹی ٹیوٹ میں لیکچرز کا آغاز کیا۔ علی شریعتی کے ان انقلابی لیکچرز میں لوگ جوق درجوق آنا شروع ہو گئے اور رضا شاہ پہلوی کی حکومت نے انہیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا۔ اس دفعہ گرفتاری کی مدت ڈیڑھ سال تھی۔آخر علی شریعتی کے لئے ایران میں رہنا ناممکن بنا دیا گیا ‘وہ انگلینڈ کے شہر ساؤتھمپٹن چلے گئے جہاں تین ہفتے بعد پراسرار حالات میں ان کی موت واقع ہو گئی‘۔

کہتے  ہیں کچھ لوگ شہابِ ثاقب کی طرح ہوتے ہیں ان کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے لیکن ان کے افکار کی روشنی مدتوں ذہنوں کے افق اجالتی رہتی ہے‘علی شریعتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔

 اس وقت ان کی عمر صرف تینتالیس برس تھی ۔ان کی وفات کے دو سال بعد جب لوگ ایران کی سڑکوں پر فتح کا جشن منا رہے تھے تو بہت سے ہاتھوں میں علی شریعتی کے مسکراتے ہوئے چہرے والی تصویریں تھیں۔ وہ اپنے محسن کو نہیں بھولے تھے کہ جس کے افکار نے اس انقلاب کا راستہ ہموار کیا تھا۔

 کہتے  ہیں کچھ لوگ شہابِ ثاقب کی طرح ہوتے ہیں ان کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے لیکن ان کے افکار کی روشنی مدتوں ذہنوں کے افق اجالتی رہتی ہے‘علی شریعتی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔

The post معاشرہ، تبدیلی اور علی شریعتی appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/13167/feed 0
‘یوسف مستی  خان مزاحمت، جرآت اور استقامت کا استعارہ ہے’ https://baam-e-jahan.com/story/12471 https://baam-e-jahan.com/story/12471#respond Fri, 07 Oct 2022 20:13:53 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=12471 انہوں نے ے ساری زندگی محکوم قوموں  کے حقوق کی جدوجہد میں گزار دی؛ ان کی جدوجہد کا راستہ ہی ہمارا راستہ ی ہے، عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام پارٹی صدر یوسف مستی خان کی یاد میں مزید پڑھیں

The post ‘یوسف مستی  خان مزاحمت، جرآت اور استقامت کا استعارہ ہے’ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

انہوں نے ے ساری زندگی محکوم قوموں  کے حقوق کی جدوجہد میں گزار دی؛ ان کی جدوجہد کا راستہ ہی ہمارا راستہ ی ہے، عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام پارٹی صدر یوسف مستی خان کی یاد میں ہنزہ میں تعزیتی ریفرنس سے  مقررین  کا خطاب


رپورٹ:  شیرنادرشاہی

ہنزہ :  یوسف مستی خان ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک مزاحمتی تحریک  اور جر آت اور استقامت کا استعارہ ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی محکوم قوموں،   لسانی گروہوں، استحصال زدہ محنت کش طبقات  اور کچلے ہوئے عوام کے حقوق کے لئے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی جدوجہد کرتے رہے اور طاقت ور اداروں  اور حکمران طبقوں کو للکارتے رہے ۔

ان کی کے وفات سے ترقی پسند اور سامراج دشمن  تحریک  کو جو نقصان پہنچا  ہے اس کو پورا کرنا بہت مشکل ہے ۔ ان کی سیاست، نظریہ اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کے  آدرشوں پر عمل کیا جائے اور ان کے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔

ان خیالات کا اظہار  مقررین نے عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان  نےضلعی دفتر ہنزہ میں منعقد کیا تھا ۔

تقریب کا آغاز عوامی ورکرز پارٹی ہنزہ کےجنرل سیکریٹری  اخون بائے نے کیا اور مختصرا یوسف مستی خان کی زندگی اور جدجوہد پر روشنی ڈالی۔

تعزیتی ریفرنس سے عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کے  مرکزی سیکریٹری خواتین  اور قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبئہ صنفی مطالعہ کے  سابق سربراہ ڈاکٹر فرزانہ باری،  محقیق،مصنف  ڈاکٹر نوشین علی ،  عوامی ورکرز پارٹی گلتگت بلتستان کے چئرمین کامریڈ بابا جان،  گلگت بلتستان متحدہ تحریک  کے رہنما فدا ایثار، قوم پرست رہنما ایڈوکیٹ  محمد عباس، اے ڈبلیو پی فیڈرل کمیٹی کے  اراکین  عقیلہ بانو اور شیرنادرشاہی،  اے ڈبلیو پی جی بی کے سیئر رہنماٗ وں اکرام جمال، آصف سخی،  ظہور الہی ، نوید احمد ، ماہر لسانیات ڈاکٹر بروشو ڈوڈوک، ودیگر نے  خطاب کیا اور یوسف مستی خان کی جدوجہد اور  زندگی کے مختلیف پہلوں پر  روشنی ڈالی۔

انہوں نے  کہا کہ کامریڈ یوسف مستی خان ایک فرد نہیں بلکہ سوچ، فکر اور نظریے کا نام ہے۔

انہوں  نے اپنی ساری زندگی مظلوم  و محکوم قوموں، پسے ہوئے طبقات،  خواتین  کے حقوق کے لئے صرف کیا۔انہوں نے مظلوم  اقوام  کو  نوآبادیاتی  سرمایہ دارانہ  نظام سے آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی۔

ڈاکٹر فرزانہ باری نے  اس بات پر زور دیا کی کہ ہمیں اپنے طبقے کے لوگوں کو سیاسی میدان میں آگے لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ  ایک متبادل پروگرام کے ذریعے نچلے طبقے اور  محنت کشوں   کے مسائل کو اجاگر کر سکیں اور ان کا حل تلاش کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف اور ٖصرف ایک سوشلسٹ  پروگرام  اور پارٹی کے ذریعے ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوسف مستی خان اور کامریڈ بابا جان جیسے رہنماٗ  ہی سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر نوشین نے کہا کہ عوامی ورکرز پارٹی او ربایاں بازو کی  تحریک سے ہیمیں رہنمائی ملتی ہے اور ہم  بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان کی جدوجہد سے  ہمارے ریسرچ کا بھی رجحان بڑھتا ہے۔

انہوں نے  کہا کہ میں یہاں کے کامریڈز کی جدوجہد کو  لال سلام پیش کرتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک عام تاچر یہ ہے کہ یہ  پسماندہ علاقہ  ہے۔  لیکن  یہ غلط ہے ۔

"میری علم و  تحقیق اور دانش کی تربیت  اسی علاقےکے کامریڈز  میں بیٹھ کر  ہوئی ہے۔”

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے سربراہ کامریڈ بابا جان نے کہا کہ کامریڈ یوسف مستی خان وہ بہادر آدمی انسان  تھے جنہوں نے کینسر میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی سرمایہ درانہ ، قبائلی اور جاگیردرانہ نظام  اور اسٹبلشمینٹ کے کے خلاف جدوجہد کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت گلگت بلتستان میں سرمایہ داروں اور ظالم حکمرانوں نے عوامی زمینوں، پہاڑوں ، دریاوں اور معدنیات پر قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف ہم سب نے یوسف مستی خان کی طرح چٹان بن کر لڑنا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی غذر کے رہنما شیرنادرشاہی نے کہا کہ یوسف مستی خان ایک سوچ اور فلسفے کا نام ہے جس کے راستے کو اپناتے ہوئے مظلوم و محکوم قومیتیوں کو ظالموں سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عقیلہ بانو کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں خواتین سپورٹس گالا کے خلاف  رجعت پسند  عناصر  کا احتجاج افسوسناک ہے ۔ہمیں مذہبی شدت پسندی کے خلاف میدان میں آنا ہوگا اور خواتین کو ان کا حقوق دلانا ہوگا۔

اے ڈبلیو پی  کے رہنما  اور ہنزہ حلقہ ۶ سے  گلگگت بلتستان اسمبلی  کے  سابق امیدوار آصف سخی  نے  کہا  کہ "میں نے یوسف مستی خان کو جدوجہد کے راستے میں کبھی لڑکھڑاتے نہیں دیکھا بلکہ وہ ضعیف العمری  اور موذی مرض کے باوجود بھی نوجوانوں سے بڑھ کر جدوجہد کی جو ہم سب کے لئے قابل تقلید ہے۔اگرچہ وہ کینسر جیسے موذی مرض سے جنگ ہار گئے لیکن سماجی نا انصافی، نوآبادیاتی قومی جبر اور حکمران طبقوں کی بد عنوانی اور اسٹبلشمینٹ کے جبر کے سامنے کبھی نہیں جھکے اور نہ مصلحت پسندی کے شکار ہوئے ۔

اکرام اللہ جمال کا کہنا تھا کہ ہمار ایوسف مستی خان سے کوئی رشتہ داری نہیں اور نہ ہی وہ ہمارا ہم زبان ہے لیکن ہمارا ایک ہی رشتہ ہے وہ ہے نظریاتی رشتہ۔

مقررین نے مزید کہا کہ ہم نے یوسف مستی خان کے نظریے کو گلگت بلتستان کے کونے کونے تک پہنچانا ہے اور ایک ترقی پسند سوشلسٹ معاشرے کا قیام عمل میں لانے کے لئےجدوجہد تیز کرنا ہے۔

مقررین نے حالیہ دنوں گلگت میں وویمن سپورٹس گالا  پر تبصرہ کرتے ہوئے  اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ  ریاست اور حکومت نے مذہبی  شدت پسندوں اور رجعتی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور خواتین کو ان کی بنیادی "کھیلنے کا حق” سے  محروم  رکھا جس کی ہم  شدید مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ آئندہ خواتین کے ساتھ دوہرا معیار قابل قبول نہیں ہوگا۔

مقررین نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے اندر ٹیکس کے نفاز  اور گندم  کی رعایتی نرخ  پر فراہمی کا خاتمہ کیا جارہا جو کہ متنازعہ خطہ کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔  عوامی ورکرز پارٹی اس کو عوام کو بھوکا مارنے کی سازش سمجھتی ہے اور اس کی مذمت کرتی ہے۔

 فدا ایثار نے کہا کہ ہر ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کا نام یوسف مستی خان کا فلسفہ ہے، وہ کینسر جیسے مہلک بیماری کے باوجود بھی عوامی حقوق کے لئے لڑتے رہیں، ان کو سرخ سلام ہو۔

پروگرام کے آخر میں مرکزی آفس سے  ہنزہ پریس کلب تک یوسف مستی خان کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لئے مشعل بردار ریلی بھی نکالی گئی اور شمعیں روشن کئے گئے۔


شیر نادر شاہی کا تعلق غلگت بلتستان کے غذر ضلع سے ہے۔ وہ ایک سیاسی کارکن، شاعر اور صحافی ہیں۔ بام جہان سمیت دیگر مقامی اخبارات میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

The post ‘یوسف مستی  خان مزاحمت، جرآت اور استقامت کا استعارہ ہے’ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/12471/feed 0