581

عالمی وباء اور گلگت بلتستان


تحریر : عنایت ابدالی


جب بھی لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں جون ایلیا سے منسوب ایک کہاوت یاد آتی ہے ، پتہ نہیں کہ جون نے ایسا کہا بھی ہے یا نہیں لیکن ایسی بات عقل مندوں کےلیے ایک نصیحت سے کم نہیں ہے۔
جون ایلیا نے کہا کہ جن کو پڑھنا چاہیے وہ لکھتے ہیں۔

میں جب بھی کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ بات یاد کرکے قلم چھوڑ دیتا ہوں اور کتاب لےکر کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر ہمارے معاشرے میں پڑھنے کا رجحان بہت ہی کم ہے جس کی وجہ سے کبھی کسی کتاب کو مشکل سے مکمل ختم کرپاتا ہوں کبھی کبھار دوستوں سے لی ہوئی کتابیں آدھی بھی پڑھے بغیر واپس کردیتا ہوں اس میں ایک طرف میری سستی اور کاہلی شامل ہے تو دوسری طرف گھر سے دوری کی وجہ سے دل ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا رہتاہے اور جی کرتا ہے کچھ پڑھنے سے بہتر ہے کہ فارغ وقت سوتے میں گزارہاجائے یوں نہ کوئی ناراض ہونگا اور نہ ہی کسی سے نئی دشمنی مول لی جائے گی۔

بہرحال ان تمام سستیوں اور مجبوریوں کے باوجود کبھی کبھار قلم اٹھائے بغیر رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
ارسطو کے مطابق انسان معاشرتی حیوان ہے ، معاشرے میں جو کچھ بھی ہوتا آرہا ہے انسان اس سے اثر لیتا ہے اور سیکھتا رہتا ہے۔

چاہے وہ کسی کام میں جسمانی طور پہ شامل نہ بھی ہو لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی طرح اس تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
اب اصل موضوع کی جانب آتے ہیں، کرونا وائرس نے چین کے شہر ووہان میں ہزاروں انسانوں کو اپنے لپیٹ میں لیا تو ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ پاکستان میں حکومت اس وقت تک سنجیدہ نظر نہیں آئی جب تک کراچی میں ایران سے آئےہوئےایک شخص میں کرونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس سے پہلے چین سے آنے والے طلبا و طالبات مکمل صحت مند اور تندرست آ رہے تھے جن کو حکومت نے ایمرجنسی میں نہیں لا سکی بقول اسلام آباد حکومت ان کو چین میں تمام تر سہولیات فراہم کی گئی تھی۔

پاکستان میں پہلے مریض کی تشخیص کے بعد سندھ حکومت اور گلگت بلتستان حکومت نے ہوش کے ناخن لیے۔ لیکن اسی عرصے میں ایران گئے ہوئے گلگت بلتستان کے بہت سارے زائرین تفتان پہنچ چکے تھے جن کو وہاں قرنطینہ کے نام پر ایک عجیب صورتحال میں رکھا گیا ۔ سیکنڑوں زائرین کو ایک ساتھ رکھنے کی وجہ سے صحت مند زائرین کو بھی وائرس لگنے کاخطرہ لاحق ہوگیا یوں انہیں کسی نہ کسی طرح گلگت بلتستان پہنچا کر قرنطینہ کردیا گیا۔

اس دوران گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے تھوڑی سی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ہوٹلوں کو خالی کرکے زائرین کےلیے جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔
اس ہنگامی صورتحال میں گلگت بلتستان حکومت نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہدایات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے طبی عملے کو بغیر کسی حفاظتی انتظام کے ڈیوٹی پر مامور کیا جس کی وجہ سے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض خالق ِحقیقی سے جاملے اور ہم ایک ہونہار ڈاکٹر سے محروم ہوگئے اور ڈاکٹر اسامہ ریاض گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کا پہلا نشانہ بنے ۔ اس نقصان کے بعد ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے مقامی حکومت کو طبی عملے کے لئے فوری حفاظتی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تو ڈاکٹر اعجاز ایوب کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر راتوں رات گلگت سےنگر تبادلہ کیا گیا ۔ بعد ازاں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور محکمہ صحت کے درمیان مذاکرات کے بعد ڈاکٹر اعجاز ایوب اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے موقف کو جائز قرار دیکر حفاظتی کٹس کی فراہمی اور انتظامات کرنے کی یقین دہانی کی گئی۔

اس کے اگلے دن ڈاکٹر اعجاز ایوب کی سربراہی میں ایک ماہر ٹیم نگر روانہ ہوئی اور کل شفٹ تبدیل ہوگیا ڈاکٹر رازق کے ساتھ ٹیم نگر میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
حفاظتی کٹس نہ ہونے اور ڈاکٹرز برادری کے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے حکومت چین کو خط لکھ دیا جس کے بعد چین کے کافی تعداد میں ڈاکٹرز کے لیے ذاتی حفاظتی کٹس، N95 ماسک اور وینٹی لیٹر سمیت دیگر ضروریات کے سامان گلگت بلتستان حکومت کے حوالہ کیا جس پہ گلگت بلتستان کے باسی چین کے مشکور و ممنون ہے۔

ڈاکٹر اسامہ ریاض جو گلگت بلتستان کا پہلا شید جو کرونا سے لڑتے ہوئے پیچھلے مہنے جان کی بازی ہار گئے

ڈاکٹر اسامہ ریاض کے بعد نگر سے تعلق رکھنے والے ایکسرے ٹیکنیشن ملک اشدر کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود بیمار ہوکر ہستپال میں داخل کر دیئے گئے اور چار دن بعد وہ بھی اس فانی جہان سے کوچ کر گئے۔ ملک اشدر کے موت کے پیچھے بھی حفاظتی انتظامات نہ ہونا ہے۔
ایک غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت تک گلگت بلتستان میں روزانہ کے بنیاد پہ دس سے لیکر سترہ مشتبہ مریضوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے گلگت بلتستان میں ایک ٹیسٹ سنٹر ہونے کی وجہ سے بلتستان سے نمونے اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نتائج بہت دیر سے موصول ہوتے ہیں جو کہ خطرناک عمل ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض اور ملک اششدر کے شہید ہونے کے بعد ہی ٹیسٹ کے نتائج دئیے گیے اور دونوں میں کرونا وائرس پایا گیا جس کے بعد ملک اشدر جس ہسپتال میں کام کررہا تھا وہاں کے تمام سٹاف کو قرنطینہ کیا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق ملک اشدر کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے نمونے 24 مارچ کو کیا گیا جبکہ 29 مارچ کو اس کے انتقال کے بعد اس کے نتائج محکمہ صحت نگر کے حوالہ کیاگیا۔

وزیر اطلاعات شمس میر کے مطابق بلتستان میں باہر سے آئے ہوئے مریضوں کے علاؤہ کرونا وائرس مقامی لوگوں میں بھی منتقل ہوگیا ہے جبکہ محکمہ صحت بلتستان نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ مقامی سطح پر کوئی ٹرانمیشن نہیں ہوئی ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ متاثر ضلع نگر ہوگیا ہے اس اب تک کے تعداد کے مطابق 80 افراد کا تعلق نگر سے بتایا جاتاہے جبکہ باقی ایک سو بیس افراد میں ضلع گلگت اور بلتستان ریجن کے مریض شامل ہے۔

ایکسرے ٹیکنیشن ملک اشدر کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود اس فانی جہان سے کوچ کر گئے

گلگت بلتستان میں صرف ایک کرونا وائرس ٹیسٹ سنٹر ہونے کی وجہ سے آنے والے آیام میں صورتحال مزید سنگین ہوسکتے ہیں اس حوالے سے سوشل میڈیا میں گلگت بلتستان کے نوجوان حکومت پہ دباؤ ڈالنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں کہ فوری طور پر مزید ٹیسٹ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کچھ دنیا پہلے نیوز اسلام آباد میں دو کالم خبر لگی ہے جس میں وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے گلگت بلتستان میں ٹیسٹ سنٹرز کے اضافے کا عندیہ دے دیا ہے جو کہ نیک شگون عمل ہے۔اخباری ذرائع کے مطابق بلتستان میں ایک سنٹر کھولا گیا ہے اور محکمہ صحت گلگت بلتستان کے فوکل پرسن برائے کرونا وائرس ڈاکٹر شاہ زمان نے اس کی تصدیق کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا ہے گلگت سنٹر میں روزانہ کی بنیاد پہ 50 سے زیادہ مریضوں کا ٹیسٹ کیا جائے گا مگر اس حوالے سے گلگت بلتستان کے سینر صحافی دوست مطمئین نہیں ہے ایک سینر صحافی نے کہا کہ یہ مشکل ہے جب تک ٹیسٹ سنٹر مزید نہیں بنائے جاتے اس ایک ٹیسٹ سنٹر سے زیادہ کام لینا ممکنات میں سے نہیں ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان میں مکمل لاک ڈاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے حالات کسی حد تک کنٹرول ہوگیے ہیں۔ جبکہ قومی میڈیا میں یہ خبر بھی چلی ہے کہ رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کے افراد میں بھی وائرس پایا گیا ہے جو کہ مزیدتشویشناک بات ہے۔ یہ وائرس کسی کا خیال نہیں رکھتا ہے کسی علاقے،فرقے،ذات اور نسل کےلیے اس کے پاس کوئی رعایت نہیں ہے اس لیے میری گگت بلتستان کے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اس کو فرقہ وارنہ عینک سے دیکھنے کے بجائے ایک قوم بن کر اس کو کنٹرول کرنے میں حکومت ، ڈاکٹرز اور دیگر زمہ داروں کے ساتھ کام کریں۔ گلگت بلتستان سے جہاں ایک بڑی تعداد ایران چکے گئے تھے وہاں این بڑی تعداد تبلیغ کے لیے بھی جاتے ہیں اور بہت سارے لوگ مختلف ممالک سے سفر کرکے آئیے ہوئے ہیں جن کو اپنا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس بیماری پہ قابو کےلیے ہمیں ایک دوسرے پہ الزامات کے بجائے ایک بازو بن کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دو ہفتے گزر گئے مگر حکومت نے غریبوں تک راشن پہنچانے کا جس سست روی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن سے مزدور اور محنت کش طبقہ بہت زیادہ مسائل کا شکار ہوگیا۔

اب اس تقسیم کو بھی ہم اس وقت تک موثر اور منصفانہ نہیں بناسکتے ہیں جب تک سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کو اس عمل میں شریک نہ کریں۔
المیہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ اور یونین کونسلز کے الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی بے تاج بادشاہ بن گیا ہے۔منتخب حکومتوں نے گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے میں اہم کردار ادا کیے جن میں پی پی پی اور ن لیگ دونوں شامل ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے اب اتنا مشکل مرحلہ رکھا گیا ہے کہ راشن پہنچتے پہنچتے غریب بھوک سے نڈھال ہونگے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ پی پی پی اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے میں کردار ادا کرچکے ہوتے آج لیگ کو یہ موقع نہیں ملتا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے بجائے عوام کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔

لگتا ہے کہ جمہوریت کے نام پہ اقتدار حاصل کرکے سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کو جمود کا شکار کرکے جمہور کو سرکاری ملازمین کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ منتخب حکومتیں سیاسی کلچر کا گلا گھونٹ کے پھر سیاسی عمل کے ناپید ہونے کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لاک ڈاؤن کو موثر بنانے اور اس وبائی مرض کو مکمل کنٹرول کر نے کے لیے فوری طور پر راشن تقسیم کیا جائے۔ اب بھی مختلف اضلاع اور جگہوں سے شکایت موصول ہو رہی ہیں کہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ذاتی حفاظتی کٹس میسر نہیں ہے۔ پہلی فرصت میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو ذاتی حفاظتی کٹس فراہم کیے جائیں اور ان اس مشکل وقت میں ان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہیے تاکہ وہ بہتر طریقے سے متاثرہ افراد کا بہتر خیال رکھ سکیں۔

خوش آئند بات یہ ہے گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ، غذر اور دیامر میں کرونا وائرس کا کام بھی پوزیٹو کیس موجود نہیں ہے اس کے باوجود غذر،ہنزہ اور دیامر میں عوام لاک ڈاؤن کرکے حفاظتی اقدامات میں پیش پیش ہے۔

اسلام آباد سرکار،گلگت بلتستان حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس بیماری پہ فوری طور پر مزید وقت ضائع کیے بغیر کنٹرول کرنے کےلئے گلگت بلتستان میں کم از کم پانچ جگہوں پہ کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کے لیے سنٹرز کا قیام عمل میں لائے جائے۔


عنائت ابدالی گلگت بلتستان میں بام جہاں اور ہائی ایشیاء ہیرالڈ کے بیوروچیف ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں