آمریت Archives - Baam-e-Jahan https://baam-e-jahan.com/story/category/آمریت A window to High Asia and Central Asia Thu, 29 Sep 2022 06:02:43 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.4.4 https://baam-e-jahan.com/wp-content/uploads/2018/12/small.png آمریت Archives - Baam-e-Jahan https://baam-e-jahan.com/story/category/آمریت 32 32 امریکہ کا نام لئے بغیر سائفر کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ https://baam-e-jahan.com/story/12322 https://baam-e-jahan.com/story/12322#respond Thu, 29 Sep 2022 05:57:06 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=12322 چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کا اپنے سابق پرسنل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو، امریکی سازشی خط کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ، امریکہ کا نام نہ لیا جائے۔ عمران خان کی تنیہہ سابق وزیر اعظم مزید پڑھیں

The post امریکہ کا نام لئے بغیر سائفر کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>

چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کا اپنے سابق پرسنل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو، امریکی سازشی خط کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ، امریکہ کا نام نہ لیا جائے۔ عمران خان کی تنیہہ


سابق وزیر اعظم اور چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کا اپنے سابق پرسنل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ لیک ہو گئی ہے جس میں وہ اپنے پرسنل سیکرٹری کو امریکی سازشی خط کے ساتھ سیاست کھیلنے کا کہہ رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ امریکہ کا نام نہیں لینا

آڈیو ریکارڈنگ یہاں پر موجود ہے

The post امریکہ کا نام لئے بغیر سائفر کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/12322/feed 0
ایاز امیر کو خواہش ہٹلر کی ہے، نام چے گویرا کا لے رہے ہیں https://baam-e-jahan.com/story/11688 https://baam-e-jahan.com/story/11688#respond Mon, 04 Jul 2022 09:06:39 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=11688 فاروق سلہریا بشکریہ جدوجہد گذشتہ ہفتے کالم نگار ایاز میر خبروں میں رہے۔ پہلے ایک ’انقلابی‘ تقریر کی وجہ سے، بعد ازاں تشدد کا نشانہ بننے کی وجہ سے۔ یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان پر حملہ قابل مزید پڑھیں

The post ایاز امیر کو خواہش ہٹلر کی ہے، نام چے گویرا کا لے رہے ہیں appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
فاروق سلہریا بشکریہ جدوجہد


گذشتہ ہفتے کالم نگار ایاز میر خبروں میں رہے۔ پہلے ایک ’انقلابی‘ تقریر کی وجہ سے، بعد ازاں تشدد کا نشانہ بننے کی وجہ سے۔

یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان پر حملہ قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ تشدد کوئی بھی کرے، کسی بھی نام پر کرے، ہم اس کے خلاف ہیں۔ معاشرے اور ریاست کی بنیاد دلیل پر رکھی جانی چاہئے ورنہ مہذب سماج جنم نہیں لے سکتا۔

آج کا موضوع ایاز امیر پر ہونے والا تشدد نہیں، ان کی ’انقلابی‘ تقریر ہے۔ یہ تقریر ایک مخصوص مراعات یافتہ مڈل کلاس، ریٹائرڈ فوجی، جمہوریت دشمن، وینا ملک سنڈروم کے شکار، فرسٹریٹڈ یوتھئے کی تقریر تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ایاز امیر فیصل واڈا کی طرح گفتگو نہیں کرتے۔ جس طرح فصیح و بلیغ انگریزی تحریر کرتے ہیں، ویسے ہی مہذب زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ پیغام البتہ وہی ہوتا ہے جو قوم یوتھ گالی گلوچ کے ذریعے دیتی ہے۔

وہ پیغام کیا ہے؟

”جو پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں، وہ چور ہے چاہے وہ سیاستدان ہو یا جرنیل، صحافی ہو یا عام شہری۔ جمہوریت میں ووٹ کا حق جاہل عوام کو نہیں ہونا چاہئے۔ معاشرے میں میرٹ (انصاف) ہونا چایئے اور میرٹ کا تعین پی ٹی آئی کرے گی، بریانی پر بکنے والی جاہل عوام کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا۔ ملک میں شریعت ہونی چاہئے، افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہونا چاہئے مگر ہمیں اجازت ہونی چاہئے کہ ہم گاڑی میں شہد کی بوتل رکھ کر لے جائیں یا بقول ایاز امیر شام کی محفل سجا سکیں“۔

ایاز امیر کسی زمانے میں وئیو پوائنٹ میں لکھتے تھے لیکن جس طرح مغرب کی بہترین یونیورسٹیاں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں، مظہر علی خان ایسی نابغہ روزگار ہستی بھی ایاز امیر کے اندر کے رجعتی فوجی کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔

ان کے کالم میں ہمیشہ جمہوریت، محکوم قوموں، عام شہریوں کے لئے حقارت پائی جاتی ہے۔ بظاہر وہ لبرلزم کی بات کرتے ہیں مگر ان کا لبرلزم وہی ہے جسے دوستوسکی نے اپنے زمانے اور ملک کے سیاق و سباق میں ڈیلیٹانٹے لبرلزم کہا تھا۔

آج ان کو نواز شریف اور آصف زرداری صرف اس لئے چور نظر نہیں آ رہے کہ انہوں نے بدعنوانیاں کی ہیں۔ بھٹو زرداری خاندان اور شریف خاندان سے انہیں اس لئے اختلاف ہے کہ ریٹائرڈ فوجیوں کے جس گروہ کا وہ حصہ ہیں، اس نے عمران خان کو مسیحا مان لیا ہے۔ اس گروہ کو ہمیشہ سرے محل یاد رہتا ہے، جنرل ایوب خان کی لوٹ مار یاد نہیں آتی۔ مذکورہ انقلابی تقریر میں انہیں یہ کہنا تو یاد رہا کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں نواز شریف، زرداری اور فضل الرحمن نے مہروں کا کردار ادا کیا (جو بالکل درست بات ہے) مگر یہ ذکر کرنا بھول گئے کہ جب 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے ہابرڈ رجیم تشکیل دیا جا رہا تھا تو عمران خان کا کردار مہرے سے بھی بد تر تھا۔

نوے کی دہائی میں نواز شریف کو ”لاڈلے“ کا درجہ حاصل تھا۔ ان دنوں ریٹائرڈ کپتان ایاز امیر نواز لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا کرتے تھے۔ وئیو پوائنٹ کے دفتر آنے جانے کے نتیجے میں انہوں نے چے گویرا کا نام تو سن لیا لیکن سوچ اور مزاج ہمیشہ قبل از ضیا دور کے پی ایم اے والا ہی رہا۔ اس دور میں وہسکی پینا افسر میس کا کلچر تھا مگر جمہوریت کے بارے میں، بقول جنرل ایوب خان، تصور یہ تھا کہ یہ گرم موسم والے ملکوں میں نہیں پنپ سکتی۔ اس لئے گرم مرطوب موسم والے مشرقی پاکستان میں جب وہاں کے لوگوں نے جمہوریت کی جانب جانے کی کوشش کی تو فوجی آپریشن کرنا پڑا محض یہ یاد دلانے کے لئے کہ جمہوریت برفانی ملکوں میں ہی اچھی لگتی ہے۔

ایاز امیر ایک چھوٹا سا جنرل مشرف ہیں۔ کپتان کی سطح کا جنرل مشرف۔ پینا پلانا ٹھیک ہے۔ ناچ گانا، بغل میں کتا اٹھا کر تصویر کھنچوانا اور کبھی کبھی فیض کی شاعری…یہ سب ہونا چاہئے لیکن جمہوریت، سوشلزم، برابری، سیکولرزم، اکبر بگٹی وغیرہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ فی الحال کوئی جنرل مشرف دستیاب نہیں تو اب آخری امید عمران خان کو قرار دیا جا رہا ہے۔

عمران خان نہ صرف سویلین جنرل مشرف ہیں بلکہ ایاز امیر جیسے ریٹائرڈ فوجیوں کو عمران خان میں ایک فوجی بھٹو بھی دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ہر رجعتی فوجی کی طرح ایاز امیر کو بھی خواہش ایک ہٹلر جیسے مسیحا کی ہے، زیب داستاں کے لئے بے چارے چے گویرا کو خوار کر رہے ہیں۔ اس لئے ان کو عمران خان ہی آخری امید دکھائی دیتے ہیں۔

ایاز امیر صاحب! آخری امید عمران نہیں، عوام ہیں۔ آخری امید پی ٹی آئی کا نیو لبرلزم نہیں، سوشلزم ہے۔ آخری امید ہائبرڈ نظام نہیں، جمہوریت ہے۔ آخری امید عمران خان کی ’رحونیت‘ نہیں، سیکولرزم ہے…اور شام کی محفلیں تب تک ممکن نہیں جب تک بائیس کروڑ عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہو گا۔

The post ایاز امیر کو خواہش ہٹلر کی ہے، نام چے گویرا کا لے رہے ہیں appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/11688/feed 0
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ: ’انٹیلیجنس اہلکاروں نے گھر میں داخل ہو کر ہراساں کیا‘ https://baam-e-jahan.com/story/10102 https://baam-e-jahan.com/story/10102#respond Sat, 01 Jan 2022 15:47:51 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=10102 انٹیلیجنس اہلکاروں نے گھر میں داخل ہو کر ہراساں کیا

The post جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ: ’انٹیلیجنس اہلکاروں نے گھر میں داخل ہو کر ہراساں کیا‘ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
بشکریہ بی بی سی اردو


پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں کراچی میں اپنے گھر میں مبینہ طور پر فوج اور وزارت داخلہ کے محکمہ انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے ہراساں کیا ہے۔

31 دسمبر کو پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ، وزارتِ دفاع، انسپکٹر جنرل پولیس سندھ اور محکمہ داخلہ سندھ کو تحریر کردہ شکایت میں سرینا عیسیٰ نے کہا کہ یہ واقعہ کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز فائیو میں اس وقت پیش آیا جب وہ اپنی مرحوم والدہ کے گھر کی مرمت کروانے میں مصروف تھیں۔

بی بی سی نے ان الزامات پر پاکستان آرمی کا مؤقف جانے کی کوشش کی تو ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک وزارت دفاع یا وزارت داخلہ کو سرینا عیسیٰ کی جانب سے بھیجی جانے والی درخواست موصول نہیں ہوئی لہٰذا باضابطہ طور پر اس وقت مؤقف دینا قبل از وقت ہو گا جبکہ وزارتِ داخلہ کے ایک افسر نے بھی بی بی سی کو یہی بتایا کہ اب تک ’اس قسم کی کوئی تحریری شکایت انھیں موصول نہیں ہوئی۔‘

’دو آدمی یہ کہہ کر گھسے کہ ان کا تعلق ملٹری انٹیلیجنس سے ہے‘
سرینا عیسیٰ کی تحریری شکایت کے مطابق ان کے والدین کی وفات کے بعد یہ گھر ان کے دونوں بھائیوں اور اُن کے نام پر منتقل ہوا جس کے رنگ و روغن اور مرمت کے لیے وہ کراچی آئی ہوئی تھیں۔

اشتہار

سرینا عیسیٰ نے تحریری شکایت میں بیان کیا ہے کہ 29 دسمبر کو دوپہر 12:15 بجے ان کے گھر میں دو آدمی یہ کہہ کر داخل ہوئے کہ ان کا تعلق ملٹری انٹیلیجنس سے ہے۔

سرینا عیسیٰ کے مطابق اُن کی جانب سے استفسار پر دونوں افراد کسی قسم کا ایسا تحریری اجازت نامہ پیش نہیں کر سکے جو ان کو گھر میں داخل ہونے کا مجاز بناتا ہو، نہ ہی ان میں سے کسی نے اپنے شناختی کارڈ یا دفتری کارڈ کی کاپی دکھائی۔ سرینا عیسیٰ کے مطابق ان دونوں اہلکاروں میں سے ایک نے اپنا نام محمد امجد بتایا لیکن دوسرے نے وہ بھی بتانے سے اجتناب کیا۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی بیٹی ان کے ساتھ تھیں۔

سرینا عیسیٰ کے بیان کی کاپی کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ تحریری شکایت ملک کے وفاقی و صوبائی اداروں کو بھیجی جا چکی ہے لیکن اب تک کسی کی جانب سے کوئی جواب یا وضاحت موصول نہیں ہوسکی ہے۔‘

سرینا عیسیٰ نے بیان میں لکھا ہے کہ ان کے گھر میں داخل ہونے والے اہلکاروں نے ان سے ان کے خاندان کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک چار صفحوں کا فارم تھمایا اور اسے بھرنے کا کہا۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ اس فارم پر بھی ملٹری انٹیلیجنس یا کسی اور ادارے کا نام نہیں لکھا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یہ دونوں افراد ان کو فارم تھمانے کے بعد یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ دو دن بعد پُر شدہ فارم واپس لینے آئیں گے۔

The post جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ: ’انٹیلیجنس اہلکاروں نے گھر میں داخل ہو کر ہراساں کیا‘ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/10102/feed 0
شہیدِ جمہوریت بے نظیر بھٹو https://baam-e-jahan.com/story/10029 https://baam-e-jahan.com/story/10029#respond Mon, 27 Dec 2021 16:15:39 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=10029 مجھے ڈرایا دھمکایا گیا لیکن میں فیصلہ کرکے آئی ہوں کہ اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کے ساتھ جیوں اور مروں گی۔اس اعلان کے کچھ دیر بعد انہیں لیاقت باغ کے باہر ماردیا گیا۔

The post شہیدِ جمہوریت بے نظیر بھٹو appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
حیدر جاوید سید


بے نظیر بھٹو 27دسمبر 2007ء کی ڈھلتی سپہر میں لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ماردی گئیں، زندگی تمام ہوئی۔ جدوجہد کا باب بند ہوا۔
جلاوطنی ختم کرکے وہ شہادت سے 70دن قبل جب کراچی ایئرپورٹ پر اتریں تو انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے استقبال کیلئے موجود تھا۔
(بلاشبہ اپریل 1986ء میں جب وہ بیرون ملک سے لاہور آئیں تو ایک تاریخی استقبالیہ جلوس ان کا منتظر تھا۔) اکتوبر 2007ء میں کراچی میں استقبال کرنے والا ہجوم لاہور کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھا۔
اقتدار پر قابض فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اور ان کے ترجمان آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہا گیا کہ حکومت ان کی سکیورٹی کی ذمہ دار ہرگز نہیں۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بڑا حصہ ان کی وطن واپسی کو پرویز مشرف سے ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہا تھا۔ تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ وہ ایک سمجھوتے کے تحت آئی ہیں۔ الیکشن ہوں گے اگلی حکومت پی پی پی اور جنرل مشرف کی تخلیق کردہ (ق) لیگ کی مشترکہ ہوگی۔
بی بی سمجھوتے کے مطابق پرویز مشرف کو دوبارہ صدر منتخب کرائیں گی۔ تجزیہ نگار آسمان سر پر اٹھائے پھر ر ہے تھے۔
’’دلیل یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں بھی ڈیل کرکے ہی اقتدار لیا تھا‘‘۔ 1988ء کی ڈیل؟ مجھے یاد آیا کہ جنرل ضیاء الحق کے رخصت ہونے پر بننے والی عبوری حکومت نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا یہ اعلان بھی اس لئے ہوا کہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
ضیاء الحق کی جگہ آرمی چیف بننے والے جنرل مرزا اسلم بیگ نے قائم مقام صدر غلام اسحق خان اور سینئر وزیر الٰہی بخش سومرو کوبتادیا تھا کہ فوج مارشل لاء نہیں لگارہی
(تب کچھ حلقوں نے تاثر دیا کہ مہاجر جنرل مرزا اسلم بیگ کا ساتھ نہیں دیا غیرمہاجر جرنیلوں نے ، لیکن یہ بات بعد میں اُس وقت غلط ثابت ہوئی جب ایک دوسرے مہاجر آرمی چیف پرویز مشرف نے پنجابی وزیراعظم نوازشریف کا تختہ الٹاکر اقتدار پر قبضہ کیا تو سارے غیرمہاجر جرنیل ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے)
انتخابات ہوئے پیپلزپارٹی اکثریتی پارٹی بن کر قومی اسمبلی میں پہنچی لیکن قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے الٰہی بخش سومرو اور دوسرے وزراء کے مشورے کے باوجود جنرل حمید گل کی بات مانی اور اسلامی جمہوریت اتحاد کے سربراہ میاں نوازشریف کو موقع دیا کہ وہ بیوروکریسی اور پولیس کے تعاون سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے ارکان اسمبلی کا ہانکا کرکے انہیں اپنی "سائیکل” پر سوار کرلیں۔
انہی دنوں جنرل حمید گل یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ
’’ہم نے آئی جے آئی کے نام سے اتحاد اس لئے بنوایا تھا کہ فوج کو خطرہ تھا کہ اگر پیپلزپارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو وہ فوج سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا انتقام لے گی‘‘۔
بہرطور تاخیر کے باوجود جب آئی جے آئی کی قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت نہ بنی تو اقتدار پیپلزپارٹی کو دینے کا فیصلہ ہوا۔
پنجاب میں میاں نوازشریف ڈپٹی کمشنروں اور ایس ایس پی صاحبان کے ذریعے آزاد ارکان کو جمع کرچکے تھے اس لئے پی پی پی کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار فاروق لغاری کی دال نہ گلنے پائی۔
(یہ اور بات ہے کہ پھر ایک وقت میں اسی فاروق لغاری نے نوازشریف کے ساتھ مل کر محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی)
پی پی کا یہ اقتدار 19ماہ سے کچھ اوپر چلا۔
اگست 1990ء میں صدر غلام اسحق خان نے کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے پی پی پی ختم کردی۔
بے نظیر بھٹو دوسری بار 1993ء میں اقتدار میں آئیں ان کے اس دور میں انکے بھائی مرتضیٰ بھٹو کراچی میں قتل ہوئے۔ آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ وہ کیسی کراس فائرنگ تھی جس کی ایک بھی گولی مرتضیٰ بھٹو کو نہیں لگی اور وہ ایک اجنبی شارپ شوٹر کی گولی سے مارے گئے۔
بینظیر بھٹو کا یہ اقتدار ان کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری نے ویسے ہی الزامات پر ختم کیا جیسے 1990ء میں صدر اسحق نے لگائے تھے۔
آصف علی زرداری اس شب گورنر ہائوس لاہور میں مقیم تھے جہاں سے اس وقت کے اخبارات کے مطابق اربوں روپے کی نقدی۔ سینکڑوں کلو سونا اور کروڑوں کے ڈالر زرداری کے بیڈ کے نیچے پڑے ٹرنکوں سے برآمد ہوئے تھے۔ اللہ جانے وہ سارا مال احتساب کونسل والے حسن وسیم افضل کی ٹیم کھاگئی یا جن لے اڑے کیونکہ برآمد شدہ مال کا کسی مقدمہ میں ذکر نہیں تھا۔
جنرل ضیاء الحق اور ان کے حواریوں موالیوں اور محبان نے تو اپنے دور میں جو سلوک بے نظیر اور ان کی والدہ کے ساتھ کیا سو کیا، ان کے سیاسی جانشین میاں نوازشریف اور اسلامی جمہوری اتحاد نے تو ساری حدیں پھلانگ لیں۔ گھٹیا جعلی تصاویر سے غلیظ تقاریر تک سب کچھ ہوا۔
پھر قومی اسمبلی میں جو ہوا وہ الگ المیہ داستان ہے۔ میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں بینظیر بھٹو ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔
ان کی واپسی اکتوبر 2007ء میں ہوئی اور آمد کے 70 دن بعد وہ راولپنڈی میں سڑک پر ماردی گئیں۔
اس سے قبل بیرون ملک قیام کے دنوں میں میثاق جمہوریت ہوا۔ (میثاق جمہوریت پر عمل اور انحراف ایک الگ موضوع ہے اسے پھر پر اٹھارکھئے) محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کےبعد صبرواستقامت کے ساتھ فوجی حکومت کے مظالم برداشت کئے محض مظالم ہی نہیں اسلامی پسندوں کی ہر گالی کا زخم بھی سہا۔
پیپلزپارٹی اور مشرف کے این آر او کے قصے بہت ہیں لیکن اسی این آر او کی وجہ سے نوازشریف اور ان کے خاندان کی واپسی ہوئی ورنہ وہ دس سال کا معاہدہ جلاوطنی کرکے ملازموں، خاندان اور باورچیوں سمیت ملک چھوڑ گئے تھے اسی این آر او کے تحت الطاف حسین کی مہاجر قومی مئومنٹ( ایم کیو ایم) کے ہزاروں کارکن رہا ہوئے
لیکن این آر او کی کالک صرف پیپلز پارٹی پر ملی جاتی ہے ۔
ہمارے یہاں کہنے والے کہتے ہیں پیپلزپارٹی نے سمجھوتوں کی سیاست کی عجیب سمجھوتہ باز پارٹی ہے جس کا بانی چیئرمین قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھا اس کی صاحبزادی لیاقت باغ کے باہر ماردی گئی۔
کہتے ہیں طالبان نے قتل کیا۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا 14برس بعد بھی اپنے موقف پر قائم ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی مقامی مرکزی کردار تھے۔
امریکہ انکے قتل میں بطور ریاست شریک تھا۔ ہمارے دیسی ٹوڈیوں نے حق نمک ادا کیا۔
آج بینظیر بھٹو کی 14ویں برسی ہے۔ انہوں نے پرعزم جدوجہد میں زندگی بسر کی۔ سڑک پر ماردی گئیں۔ ہماری تاریخ یہی ہے ہم آفتابوں کو پھانسی چڑھاتے ہیں اور چاندنیوں کو قتل کرتے ہیں۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی چاہتی تو بہت آسانی کے ساتھ راتوں رات اس ملک کا جغرافیہ تبدیل ہوسکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی نے اپنا وزن وفاق پاکستان کے پلڑے میں ڈالا، کیوں؟
اس سوال کا جواب پیپلزپارٹی ہی دے سکتی ہے
ویسے جو لوگ پی پی پی پر مشرقی پاکستان کے سقوط کا الزام دھرتے ہیں وہ ہی بتادیں موقع ملنے کے باوجود پی پی پی نے سندھو دیش کیوں نہ بننے دیا؟
پیپلزپارٹی آبپارہ و بنی گالہ اور جاتی امرا شریف کے محبوں کے نزدیک آجکل اندرون سندھ کے چند اضلاع کی جماعت ہے،
حیرت ہے چند اضلاع کی جماعت کے خلاف یہ سارے صبح سے شام تک دشنام طرازی اور ڈیل ڈیل کے الزامات لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔
بینظیر بھٹو نے اپنی جدوجہد، صبر اور استقامت سے خود کو ملکی سطح کا رہنما منوایا۔ بین الاقوامی سطح پر انہیں ایک مدبر دانشور کا درجہ حاصل ہوا۔
ان کا سفاکانہ قتل درون سینہ راز نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں
’’مجھے ڈرایا دھمکایا گیا لیکن میں فیصلہ کرکے آئی ہوں کہ اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کے ساتھ جیوں اور مروں گی‘‘
اس اعلان کے کچھ دیر بعد انہیں لیاقت باغ کے باہر ماردیا گیا۔

The post شہیدِ جمہوریت بے نظیر بھٹو appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/10029/feed 0
بینظیر کا قتل جس سے بی بی کے سوا سب آگاہ تھے https://baam-e-jahan.com/story/10026 https://baam-e-jahan.com/story/10026#respond Mon, 27 Dec 2021 15:58:28 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=10026 لیاقت باغ جلسہ سے قبل کوئٹہ جلسہ گاہ کے باہر دھماکے اور اس سے قبل پاکستان آمد پر کراچی میں انکے قتل کی کوشش کے باوجود بی بی کو یقین تھا کہ ریاست انکے قتل کی سازش کو ناکام بنا دے گی

The post بینظیر کا قتل جس سے بی بی کے سوا سب آگاہ تھے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
اظہر سید


محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل سے چار روز قبل زیرو پوائنٹ پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل میں نذیر ڈھوکی کے کمرہ میں محترمہ بینظیر بھٹو کی اخبار میں شائع تصویر پر نجانے کس سوچ کے تحت ہم نے اپنا بال پوائنٹ پھیرا اور بی بی کا چہرہ غائب کر دیا ۔نذیر ڈھوکی کسی وقت ہمارے پیچھے ان کھڑے ہوئے ۔نذیر ڈھوکی ہمیشہ سے جیالے ہیں ۔انہوں نے غصے سے پوچھا یہ کیا کیا ہے ؟ڈھوکی کو شائد یاد ہو ہم نے کہا تھا "بی بی کو یہ مار دیں گے "۔
اسی روز صبح دس گیارہ بجے کے قریب ہمیں پارٹی کے ایک مرکزی راہنما نے آف دی ریکارڈ بتایا تھا کہ عرب امارت کے ایک ملک سے بی بی کو ایک خط پہنچایا گیا ہے جس میں انکی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے ۔بی بی نے اس خط کے متعلق پارٹی راہنماؤں سے مشاورت کی تھی ۔اس راہنما جو آصف علی زرداری کی صدارت میں پیپلز پارٹی کا چوہدری نثار تھا نے بی بی کو مشورہ دیا کہ یہ صرف دھمکیاں ہیں ۔یہ راہنما اب پیپلز پارٹی میں نہیں بی بی نے اس کے مشورہ کی تائید کی اور خط کو سنجیدہ نہیں لیا ۔
بی بی کا پختہ خیال تھا کہ اگر کوئی سازش ہوئی فوج انکے قتل کی سازش ناکام بنا دے گی لیکن بی بی کو یہ نہیں پتہ تھا کہ ان کے قتل کے چند گھنٹے بعد جائے وقوعہ کو دھو دیا جائے گا اور پبلک پراسیکیوٹر دن دیہاڑے قتل کر دیا جائے گا ۔بی بی یہ نہیں جانتی تھی ان کے قتل والے روز لیاقت باغ جلسے میں انکے پیچھے کھڑے ہو کر پراسرار اشارے کرنے والے خالد شہنشاہ کو نامعلوم ہاتھ غائب کر دیں گے ۔
بی بی قلندر تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ ان کے قاتلوں کے نقش پا تک پہنچانے والے تمام کردار ایک کے بعد ایک کر کے قبائلی علاقہ جات، افغانستان اور خیبر پختونخوا میں قتل ہو جائیں گے ۔
افغان صدر حامد کرزی سی آئی اے کے پروردہ تھے ۔اچھے اور برے طالبان کے ساتھ کرزی کے اچھے تعلقات کا یہ عالم تھا وہ اشرف غنی حکومت میں بھی کابل میں تھے اور طالبعلموں کی کامیابی کے بعد بھی انہیں زندگی کی ایسی ضمانتیں حاصل تھیں وہ کابل سے فرار نہیں ہوئے اب بھی وہیں پر ہیں۔افغان صدر نے محترمہ بینظیر بھٹو کو خط نہیں لکھا وہ ایک غیر شیڈول دورہ بنا کر اسلام آباد پہنچ گئے ۔کرزی نے بی بی کو فرحت اللہ بابر کے زریعے انتہائی ضروری ملاقات کا پیغام بھیجا اور ملاقات کیلئے بی بی سرینا ہوٹل پہنچ گئیں ۔
صبح ہونے والی ملاقات "جس کے دس گھنٹے بعد بی بی کو قتل کر دیا گیا” میں حامد کرزی نے بی بی کو انکے قتل کی سازش سے آگاہ کر دیا اور محتاط رہنے کا مشورہ دیا ۔حامد کرزی نے اپنا فرض پورا کر دیا ۔
حامد کرزی کی ملاقات سے چند گھنٹے قبل یعنی 26 اور 27 دسمبر کی درمیانی شب صدر مشرف کی فوج کے ایک اعلی عہدیدار نے بی بی سے ملاقات کی ۔اس ملاقات میں کس چیز سے بی بی کو خبردار کیا گیا اسکی تصدیق کبھی نہیں ہو سکے گی کہ سولہ سترہ گھنٹے بعد بی بی لیاقت باغ میں قتل ہو گئیں ۔
ہم ایک بڑے میڈیا گروپ میں پیپلز پارٹی کی بیٹ کرتے تھے ۔لیاقت باغ جلسے میں ہماری ڈیوٹی تھی ۔اس دن ہمارے ساتھ خاتون رپورٹر فائزہ کی ڈیوٹی بھی تھی ۔گروپ کے انگریزی اخبار کے بیٹ رپورٹر عاصم یاسین بھی ہمارے ساتھ تھے ۔جلسہ سے قبل وہاں قائم عارضی چائے خانہ میں چائے پیتے ہوئے ہم تینوں کی گفتگو کا مرکزی نکتہ بی بی کی زندگی کو لاحق خطرات تھے۔
پورے شہر کو پتہ تھا بی بی کی زندگی خطرے میں ہے۔ لیاقت باغ جلسہ سے قبل کوئٹہ جلسہ گاہ کے باہر دھماکے اور اس سے قبل پاکستان آمد پر کراچی میں انکے قتل کی کوشش کے باوجود بی بی کو یقین تھا کہ ریاست انکے قتل کی سازش کو ناکام بنا دے گی۔
دوسری صورت یہ ہے ذوالفقار علی بھٹو اور اکبر بگٹی کی طرح بی بی بھی جان بچا کر زندہ رہنے کی بجائے دلیر اور جرات مند انسانوں کی طرح مرنا چاہتی تھی اور سمجھوتہ کرنے کی بجائے اس نے جان بوجھ کر موت کو گلے لگایا۔

The post بینظیر کا قتل جس سے بی بی کے سوا سب آگاہ تھے appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/10026/feed 0
شہید حسن ناصر اور پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ https://baam-e-jahan.com/story/9815 https://baam-e-jahan.com/story/9815#respond Sat, 20 Nov 2021 18:27:30 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=9815 اس تقریب نے تمام مظلوم طبقات کو اکٹھا کیا جو اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے لڑ رہے ہیں اور ظالمانہ طرز عمل کو ترک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

The post شہید حسن ناصر اور پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
رپورٹ: حیدر خوجہ


عوامی ورکرز پارٹی کراچی نے ہفتے کے روز ملک کے پہلے لاپتہ شخص کامریڈ شہید حسن ناصر کی یاد میں پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ اس تقریب نے تمام مظلوم طبقات کو اکٹھا کیا جو اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے لڑ رہے ہیں اور ظالمانہ طرز عمل کو ترک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مقررین نے لاپتہ ہونے والوں کی جدوجہد کو یاد کیا اور ان وجوہات کو اجاگر کرنے کی اہمیت پر زور دیا جن پر وہ کام کر رہے تھے اس سے پہلے کہ انہیں زبردستی لاپتہ کیا جائے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے بتایا کہ کس طرح بلوچستان اپنی تاریخی جدوجہد کی وجہ سے اس وحشیانہ حربے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بلوچ عوام کے ساتھ ریاستی حکام کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کو لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کا حساب لگانے کے لیے خود چھوڑ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2019 تک، کم از کم 47,000 بلوچ لاپتہ تھے، انہوں نے مزید کہا کہ اس تعداد کا حوالہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ ‘بلوچستان: ابھی تک نظرانداز’ میں بھی دیا ہے۔ آمنہ نے مزید کہا، "اب صوبے میں یہ معاملہ اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ صرف پچھلے مہینے میں تقریباً 60 طالب علموں کو جبری طور پر غائب کر دیا گیا۔” انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے سے دو طالب علموں، سہیل احمد اور فصیح بلوچ کے حال ہی میں لاپتہ ہونے کے بارے میں بات کی۔ آمنہ نے مزید کہا کہ ان گمشدگیوں کے خلاف طلباء کے احتجاج کو میڈیا نے بھی بڑی حد تک رپورٹ نہیں کیا ہے۔

بلوچ متحدہ محاذ (بی ایم ایم) کی جانب سے بات کرتے ہوئے عظیم دہقان نے کہا کہ بدقسمتی سے بلوچ عوام کی جدوجہد صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے۔ درحقیقت بہت سے بلوچ سیاسی کارکنوں کو، جن میں طلباء بھی شامل ہیں، کراچی میں ان کے گھروں اور یونیورسٹیوں سے بھی اٹھائے گئے ہیں۔”

وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی میڈیا سیکریٹری سوہنی جویو نے کہا کہ یہ مسئلہ 2017 میں صوبے میں بڑے پیمانے پر سر اٹھانے لگا۔ "تاہم، ہم نہ صرف سندھی لاپتہ افراد کے لیے کھڑے ہیں، بلکہ ہم بلوچوں کی جدوجہد کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ، پشتون، اردو بولنے والے نیز شیعہ لاپتہ افراد،” انہوں نے کہا۔ سوہنی نے مزید کہا، "ہماری جدوجہد مشترکہ ہے کیونکہ ہم سب اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں، اور یہ ہر ایک لاپتہ شخص کی رہائی تک جاری رہے گی۔”

وائس آف شیعہ مسنگ پرسنز سے راشد رضوی نے کہا کہ کمیونٹی کے سینکڑوں افراد کو عراق، ایران اور شام سے زیارت سے واپسی کے فوراً بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور خاندانوں کو دہشت زدہ کر دیا گیا۔
رشید رضوی نے مزید کہا اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے کالا پل میں احتجاج کرنے والے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی حالیہ گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے رضوی نے کہا کہ یہ ریاست اپنے اور اپنے لوگوں کے درمیان خطرناک تقسیم پیدا کر رہی ہے۔ "یہ اچھی طرح سے ختم نہیں ہوگا! جتنی جلدی ریاست کو اس کا ادراک ہو، اتنا ہی بہتر ہے،‘‘

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کراچی کے رہنما محمد شیر نے کہا کہ ریاست کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں سب سے زیادہ نشانہ پشتون تھے۔ زخم پر نمک ڈالنے کے لیے، یہ ایک بار پھر کمیونٹی تھی جس پر ’دہشت گردی سے لڑنے‘ کے نام پر ظلم کیا گیا۔ شیر نے کہا، "قبائلی علاقوں میں رہنے والے سینکڑوں پشتونوں کو اٹھایا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، مقابلوں میں مارا گیا، معذور کیا گیا اور یہاں تک کہ انہیں امریکہ کے حوالے کیا گیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ ملک دہشت گردی سے لڑ رہا ہے،” شیر نے کہا۔

عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے جنرل سیکریٹری اور کراچی بچاؤ تحریک کے کنوینر کامرڈ خرم علی نے کہا کہ کراچی کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شہر کی سیاسی جماعتوں نے کبھی کراچی سے لاپتہ ہونے والے لوگوں کی ملکیت نہیں لی۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اس سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ اپنی آواز اٹھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی طرف بھاگ رہے تھے۔” خرم علی نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت نے لاپتہ ہونے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔
خرم علی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ جدوجہد صرف لاپتہ ہونے والوں کی رہائی تک محدود نہ ہو بلکہ ان مسائل پر بات کرتے رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جن کی وجہ سے انہیں زبردستی لاپتہ کیا گیا تھا۔ ’’اس ظالمانہ نظام اور ریاستی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ہی کیوں غائب ہیں؟‘‘ اس نے سوال کیا. "ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ بیانیے کی جنگ ہے، جہاں حکمران طبقات کے بیانیے کو چیلنج کرنے والوں کو زبردستی غائب کر دیا جاتا ہے،” انہوں نے مزید کہا کہ ان مسائل کے بارے میں بات کرنے والے ہر شخص میں حل موجود ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے صدر شفیع شیخ نے کہا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ شہید حسن ناصر پاکستان کے پہلے لاپتہ شخص کیوں بنے؟ انقلابی کی سیاسی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے، شفیع شیخ نے کہا کہ انہوں نے ۱۹۴۶ کی تلنگانہ کسان تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس سے پہلے کہ وہ ہندوستان میں اپنے خاندان کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے۔
حیدرآباد دکن کے نواب محسن الملک کے فرزند ناصر نے اپنی دولت کی زندگی چھوڑ دی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن کے طور پر پاکستان کے محنت کش طبقے کو منظم کرنا شروع کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے کمیونسٹ تھے جنہوں نے ہمارے جیسے کثیر القومی ملک کی مختلف مظلوم قوموں کو اکٹھا کیا۔
"آج، ہمیں صرف ان کی قربانیوں اور جدوجہد کی بات نہیں کرنی چاہیے، بلکہ مظلوموں کی تحریک کو مزید متحد اور مضبوط کرنے کے طریقے بھی وضع کرنے چاہئیں،” عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے صدر نے اختتام کیا۔

The post شہید حسن ناصر اور پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/9815/feed 0
عاصمہ جہانگیر کی بصیرت کا کرشمہ https://baam-e-jahan.com/story/9812 https://baam-e-jahan.com/story/9812#respond Sat, 20 Nov 2021 18:09:39 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=9812 عاصمہ جہانگیر سماجی فعالیت، حق و انصاف، صنفی تعصب کے تدارک کی جدوجہد، ظلم و استبداد اور آئین و قانون کی سربلندی کیلیئے نڈر اور بے خوف زندگی کا نام ہے

The post عاصمہ جہانگیر کی بصیرت کا کرشمہ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
بامِ جہاں


عاصمہ جہانگیر سماجی فعالیت، حق و انصاف، صنفی تعصب کے تدارک کی جدوجہد، ظلم و استبداد اور آئین و قانون کی سربلندی کیلیئے نڈر اور بے خوف زندگی کا نام ہے۔
یہ سب عاصمہ جہانگیر کی سیاسی بصیرت سے بھرپور شخصیت کا کرشمہ ہے کہ باوجود زندگی کی بازی ہار جانے کے لاہور میں ان کے نام سے منصوب آج شروع ہونے والی کانفرنس میں ان کی بیباک جدوجہد کی بلند آوازیں سننے اور دیکھنے میں آئیں۔
علی احمد کرد کی شعلہ بیانی اپنی جگہ لیکن تقریر میں ان کا یہ کہنا کہ ملک مٹھی میں دبی ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے بے حد معنی خیز اور خصوصا” عدلیہ کیلیئے چشم کشا تھا۔ اس تلخ لیکن سچ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی تائید نے مزید تقویت دی۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی تقریر ردعمل سے بھرپور تھی لیکن حاضرین کی اتنی بڑی تعداد اور ان کے بیحد معنی خیز نعروں کی موجودگی میں جوابی تقریر کو اس لحاظ سے مثبت سمجھنا چاہیئے کہ جس طرح دفاعی محکموں کے بارے میں براہ راست نام لینے کے بجائے عرفیت کا استعمال مثلا” خلائی مخلوق، خفیہ ہاتھ وغیرہ ترک ہو کر براہ راست نام لینے کی روایت پڑ چکی ہے، اسی طرح عدلیہ اور اس کے فیصلوں کے بارے میں کھل کر اظہار رائے کا دور بھی شروع ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ علی احمد کرد کی تلخ نوائی اور مجمع کے جذباتی نعروں کے درمیان چیف جسٹس نے کھڑے رہنا مناسب سمجھا، آنے والے وقت میں اس صورتحال میں تیزی آئے گی اور عاصمہ جہانگیر کی یاد تازہ کرتی رہے گی۔

The post عاصمہ جہانگیر کی بصیرت کا کرشمہ appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/9812/feed 0
لال بینڈ، مزاحمت اور آگاہی کا سفر https://baam-e-jahan.com/story/9775 https://baam-e-jahan.com/story/9775#respond Thu, 11 Nov 2021 16:43:53 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=9775 لال بینڈ اس لحاظ سے ایک مختلف بینڈ تھا کہ اس نے مزاحمتی شاعری کا انتخاب کیا جس میں فیض اور حبیب جالب سرفہرست ہیں۔

The post لال بینڈ، مزاحمت اور آگاہی کا سفر appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
شاہد صدیقی

وہ 2014ء کے اکتوبر کا ایک روشن دن تھا جب میں نے لمز میں پڑھانا شروع کیا۔ فیکلٹی آف ہیومینیٹینز اور سوشل سائنسز میں اس زمانے میں گنے چنے لوگ تھے۔ انہیں میں ایک نوجوان استاد تیمور رحمن بھی تھا۔ ایک جوشیلا مگر بے حد مؤدب نوجوان جس کی کلاس میں طالب علم شوق سے جاتے‘ جہاں کمیونزم، سوشل ازم اور کیپیٹل ازم کی بحثیں ہوتیں اور ان بحثوں کا ایک اہم جزو مارکس ہوتا۔ وقت گزرتا گیا‘ کبھی کبھار میں اسے آتے جاتے دیکھتا۔ اس کے کندھے پر اکثر گٹار ہوتی۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اسے موسیقی سے بہت لگائو ہے۔ ایک سال گزر گیا۔ تب ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی بدولت مجھے تیمور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ 2005 کی بات ہے‘ ایک روز میری اپنے کولیگ رسول بخش رئیس سے بات ہو رہی تھی۔ باتوں باتوں میں ایک خیال نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا کہ کیوں نا ایک ایسا کورس ڈیزائن کیا جائے جس میں طلبا کو شہروں سے ہٹ کر قصبوں اور دیہات کی زندگی سے متعارف کرایا جائے۔ طے پایا کہ اس کورس کو جس کا نام کمیونٹی بیسڈ لرننگ ہو گا‘ اساتذہ کی ایک ٹیم پڑھائے گی۔ میرے اور رسول بخش کے علاوہ تین اساتذہ بھی ہماری ٹیم کا حصہ بن گئے۔ یہ ذیشان، یاسر ہاشمی اور تیمور رحمن تھے۔ یہ ہم سب کے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا جس میں ہمیں پانچ روز کیلئے لاہور کے ہنگاموں سے دور خانیوال میں رہنا ہوتا‘ روزانہ طلبہ و طالبات کو مختلف دیہات میں جانا ہوتا اور انہیں پہلے سے دیے گئے موضوعات پر لوگوں سے مل کر معلومات حاصل کرنا ہوتیں۔ وہ اگست کا مہینہ تھا جب ہم ایک بس پر خانیوال کے لیے روانہ ہوئے۔

راستے کا پہلا پڑاؤ منٹگمری (ساہیوال) تھا۔ وہیں ایک ڈھابہ نما ہوٹل میں ہم کھانے کے لیے رُکے۔ جس میز پر میں بیٹھا تھا اس پر تیمور حمن اور یاسر ہاشمی بھی تھے۔ یاسر ہاشمی کا ایک تعارف یہ بھی کہ وہ معروف شاعر فیض احمد فیض کے نواسے ہیں‘ انتہائی ذہین اور مہذب۔ میں نے یاسر سے کہا: آپ کو یاد ہے ناں کہ منٹگمری جیل میں فیض احمد فیض کو قید رکھا گیا تھا۔ فیض احمد فیض کے ذکر سے تیمور کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ میں نے بات جاری رکھی: فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں چار سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی‘ وہ لاہور اور منٹگمری کی جیلوں میں رہے لیکن جیل کی سلاخیں خیال کو زنجیر نہ کر سکیں۔ فیض کی شاعری کی دو بہترین کتابیں ‘دست صبا‘ اور ‘زنداں نامہ‘ اسیری کے دنوں میں لکھی گئی۔ شاعر کو جب قرطاس و قلم سے محروم کر دیا جائے تو وہ اظہار کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لیتا ہے۔ فیض صاحب کا بھی یہی معاملہ تھا۔ متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے۔ ہماری گفتگو ابھی ادھوری تھی کہ اعلان ہوا‘ بس روانہ ہونے والی ہے۔ خانیوال میں پانچ روز قیام کے دوران دن بھر تو ہم مختلف دیہات کی گلیوں کی خاک چھانتے رہتے؛ البتہ رات کو ٹولیوں میں بیٹھتے اور گپ شپ ہوتی۔

رات کی انہیں محفلوں میں ایک دن حبیب جالب کا ذکر چل نکلا تو وہ دن یاد آ گئے جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ ایوب خان کی حکومت تھی‘ جہاں تحریر اور تقریر کی آزادی نہیں تھی۔ درباریوں کا ایک ٹولہ تھا جو دن رات مدح سرائی میں مصروف رہتا تھا۔ اختلافِ رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘ جبر کے اس سناٹے میں ایک آواز ابھری:تیرے دستور کو صبح بے نور کومیں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتاجام زندوں کو ملنے گئے تم کہوچاک سینوں کے سلنے لگے تم کہواس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کومیں نہیں مانتا میں نہیں جانتااسی دوران حبیب جالب کی کتاب شائع ہوئی یہ مزاحمتی شاعری کی کتاب تھی جس کا نام ‘سرِ مقتل‘ تھا۔ کتاب شائع ہوتے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ کتاب بیچنا، اپنے پاس رکھنا اور پڑھنا بھی جرم تھا جس میں ان کی زباں زدِ عام نظمیں مثلاً دستور، مشیر، دس کروڑ انسانو، چھوڑ کے نہ جا شامل تھیں۔ حبیب جالب ایک نڈر انسان تھے‘ جو ہر دور میں سچ کی آواز بن کر ابھرے۔خانیوال میں رات کی محفل میں جب مزاحمت، حبیب جالب اورر فیض کا ذکر ہوتا تو سب دلچسپی سے سنتے لیکن تیمور کی دلچسپی دیدنی ہوتی۔ پانچ دن جیسے پَر لگا کر اُڑ گئے لیکن اس دوران ذیشان‘ یاسر اور تیمور کے ساتھ بیٹھنے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا۔ پھر میں لاہور کی ایک اور یونیورسٹی میں چلا گیا تو پرانے دوستوں سے ملاقاتوں میں لمبے وقفے آنے لگے۔

پھر تیمور کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلا گیا ہے۔ اس دوران ملکی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ اس وقت کے حکمران پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کو برطرف کر دیا تھا۔ اس پر عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا‘ جس میں وکیلوںکے علاوہ معاشرے کے مختلف طبقوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ لاہور میں ہر جمعرات کو لوگ اکٹھے ہوتے اور احتجاج میں اپنا حصہ ڈالتے۔ ادھر لندن میں بھی پاکستانی اکٹھے ہوتے اور عدلیہ کے حق میں نعرے لگاتے۔ وہیں تیمور اور مہوش بھی مظاہروں میں حصہ لیتے۔ مہوش اس کی شریکِ حیات ہی نہیں اس کی فکر اور اس کی جدوجہد کی ساتھی بھی تھی۔ تیمور کو تو یہ سوچ ورثے میں ملی تھی۔ اس کے والد راشد رحمن جب تعلیم کے لیے بیرون ملک گئے تھے تو یہ ساٹھ کی دہائی تھی۔ انہوں نے طالب علموں کی تحریک کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان کے خیالات میں ترقی پسندی کا رنگ پختہ ہو گیا تھا۔ پاکستان واپس آکر انہوں نے آزادیٔ اظہار کے لیے عملی کام کیا۔ یوں تیمور کا مارکس ازم اور سوشلزم سے تعارف بچپن میں ہو گیا تھا۔ کسی طرح کی ناانصافی پر آواز اٹھانا اس کے خون میں شامل تھا۔ اسے موسیقی کا شوق تھا۔ کالج کے زمانے سے ہی وہ گٹار بجاتا تھا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک میں وہ اپنی گٹار لے جاتا اور نعروں کے ساتھ گٹار پر مزاحمتی گیت سناتا۔ یہ وہ دن تھے جب معروف قانون دان اور عدلیہ بحالی تحریک کے مرکزی رہنما اعتزاز حسن کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی نظم ‘کل آج اور کل‘ اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر رکھ دی۔ تیمور نے وہ نظم سنی تو سوچا اس نظم کو گا کر لوگوں کو سرگرم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ نظم بعد میں عدلیہ بحالی تحریک کا ترانہ بن گئی۔ نظم کی کمپوزیشن تیمور کی تھی اور آواز شاہرام کی تھی۔ 2008 کا سال تھا‘ جب سب دوستوں نے سوچا‘ کیوں نہ مل کر ایک بینڈ بنایا جائے۔

اس بینڈ کا نام لال رکھا گیا‘ جو بائیں بازو کی سیاست کا علامتی رنگ ہے۔ لال بینڈ اس لحاظ سے ایک مختلف بینڈ تھا کہ اس نے مزاحمتی شاعری کا انتخاب کیا جس میں فیض اور حبیب جالب سرفہرست ہیں۔ لال بینڈ کا روح رواں تیمور رحمن ہے۔ اس کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ یونیورسٹی کا پروفیسر ہے۔ کلاس سٹرکچر کے حوالے سے ایک کتاب کا مصنف ہے۔ یوٹیوب پر سنجیدہ موضوعات پر وڈیو لیکچر دیتا ہے۔ بائیں بازو کی ایک سیاسی جماعت کا رہنما ہے اور پاکستان کے اندر اور بیرون ملک دوروں پر بھی جاتا ہے۔ صرف پچھلے تین برسوں میں اس نے دو سو کے قریب موسیقی کے فنکشن کیے۔ کوئی جذبہ ہے جو اسے بے چین رکھتا ہے کوئی یقین ہے جو اسے پُرامید رکھتا ہے کہ ایک دن کمزوروں کو ان کے حقوق ملیں گے ایک دن آئے گا جب ہمارے معاشرے میں تنگ نظری، انتہا پسندی، عدم رواداری اور غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ ہو گا۔ لال بینڈ کی گانوں کی پہلی سی ڈی کا نام ‘امیدِ سحر‘ تھا۔ اس کی مقبولیت اس بات کی دلیل ہے کہ موسیقی، شاعری اور گائیکی کا امتزاج معاشرے میں شعور اور آگاہی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دو روز پہلے اسلام آباد میں اس کی پرفارمنس تھی‘ اس نے پیغام بھیجا تھا: ملاقات ضروری ہے۔ میں ایک طویل عرصے کے بعد اسے دیکھ رہا تھا۔ درمیان میں کتنے ہی مہ و سال گزر گئے تھے۔ اس کے بالوں میں سفیدی اتر آئی تھی‘ لیکن اس کا جذبہ ویسا ہی جوان تھا۔ کہتے ہیں: سچی محبت کو کبھی زوال نہیں آتا۔

The post لال بینڈ، مزاحمت اور آگاہی کا سفر appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/9775/feed 0
آپ بھی کوشش کر دیکھیں https://baam-e-jahan.com/story/9675 https://baam-e-jahan.com/story/9675#respond Fri, 05 Nov 2021 16:46:30 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=9675 جیسے آگ کے لیے پانی اور جنگ کے لیے امن موت ہے۔ اسی طرح فسطائیت کے لیے کوئی بھی حد یا روک موت کے برابر ہے۔

The post آپ بھی کوشش کر دیکھیں appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
وسعت اللہ خان (بشکریہ ایکسپریس اردو)


فسطائیت کو دیگر نظریات سے جو شے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا خمیر ہوا یا پانی سے نہیں بلکہ آگ سے اٹھا ہے۔ جس طرح آتش کو ہردم زندہ رہنے کے لیے ایسا ایندھن درکار ہے جو اسے بھڑکائے رکھے اسی طرح فسطائیت کو بھی زندہ رہنے کے لیے ہر آن فساد کا ایندھن چاہیے۔

جیسے آگ کے لیے پانی اور جنگ کے لیے امن موت ہے۔ اسی طرح فسطائیت کے لیے کوئی بھی حد یا روک موت کے برابر ہے۔ یہی سبب ہے کہ فسطائیوں کے لیے کوئی ایک ہدف کافی نہیں۔ ایک کے بعد ایک ہدف۔ فسطائیت کی کوئی گول پوسٹ نہیں ہوتی۔ اس کی گول پوسٹ کندھے پر ہوتی ہے۔

آپ کو اگر گمان ہے کہ مطالبہ نمبر ایک دو اور تین پورے کر دیے جائیں تو فسطائیت مطمئن ہو جائے گی؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ یہ تین مطالبات پورے ہونے کے بعد تین نئے مطالبات ایجاد کر لے گی۔ یعنی پرامن بقائے باہمی کی فسطائی نظریے میں کوئی گنجائش نہیں۔ فسطائیت کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔یا تو وہ دفن ہو جائے یا پھر وہ دنیا کو قبرستان بنانے کے بعد اپنی قبر کھود لے۔

گزشتہ مضمون میں ہم نے بھارت میں پچھلے سات برس میں فسطائیت کی بدلتی گول پوسٹس اور مسلمانوں کی شکل میں اکثریت کو ایک پنچنگ بیگ فراہم کر کے اصل مسائل سے انٹا غفیل رکھنے کی متعدد مثالیں پیش کیں۔اس سلسلے کی تازہ کڑی ہندوستان میں پیدا ہونے والی اردو کو ایک کونے میں دھکیل دینے کی آخری بھرپور کوشش میں دیکھی جا سکتی ہے۔

ویسے تو تقسیم کے ہنگامے میں جس جس مشترکہ ورثے کی بنیادیں ہل گئی۔ اس میں گنگا جمنی تہذیب اور اس کی نمایندہ ہندوستانی ( اردو ) زبان سرِ فہرست ہے۔مگر سخت جانی برقرار رہی۔ چنانچہ اب اسے پوری طرح کچل دینے کے لیے ریاست کو کھل کے سامنے آنا پڑ گیا ہے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ دو ہفتے پہلے بھارت کے معروف لباس ساز ادارے فیب انڈیا نے دیوالی پر فیشن کی نئی رینج ’’ جشن رواز ( رواج ) ‘‘کے نام سے متعارف کروائی تو بی جے پی کے ایک رکنِ پارلیمان تیجسوی سوریا نے یہ درفنتنی چھیڑ دی کہ جشنِ رواج ایک اردو اصطلاح ہے۔اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ دیوالی ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے لہٰذا جشنِ رواج کی ترکیب سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ تیجسوی کا یہ بیان بی جے پی کے ٹرول بریگیڈ نے ایک ٹرینڈ بنا دیا اور فیب انڈیا کو یہ نام واپس لینا پڑ گیا۔

مگر آج ہمیں لسانی تعصب کا جو ببول دکھائی دے رہا ہے۔اس کا بیج انیسویں صدی میں برطانوی ماہرِ لسانیات جان گلگرائسٹ نے بویا تھا۔اس نے شمالی ہندوستانی کھڑی بولی اور مسلم حکمرانوں کے عہد میں ترک ، فارسی عربی کے احتلاط سے جنم لینے والی ہندوستانی کو دو شاخوں میں تقسیم کیا۔جس بولی میں فارسی ، ترک ، عربی وغیرہ کا اثر زیادہ تھا اسے اردو اور جس بولی میں مقامی کھڑی بولی اور سنسکرت کی آمیزش تھی اسے ہندی قرار دیا۔مگر اس لسانی بحث سے قطع نظر عام ہندوستانی وہی زبان بولتا رہا جس کا وہ عادی تھا۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کے بعد ہندو مسلم سیاسی تضادات کی لپیٹ میں زبان بھی آتی چلی گئی۔انگریزوں نے فارسی کی سرکاری حیثیت ختم کر کے انگریزی اور مقامی بولیوں کو فروغ دینے کی جو پالیسی اپنائی اس میں دیوناگری اور نستعلیق کی علمی بحث نے لسانی تقسیم کے معاملے کو انگریزی منشا کے مطابق ایک نئی شکل دے دی۔چنانچہ سن انیس سو میں دیوناگری خط کے عدالتی استعمال کی اجازت مل گئی۔یوں ایک ہی مشترکہ زبان کی دو علیحدہ سیاسی شناختوں کا سفر تیز تر ہوتا گیا۔

لیکن آزادی کی تحریک میں نعرے ایک ہی زبان میں لگتے تھے۔ تحریکِ آزادی کا سب سے مشہور نعرہ انقلاب زندہ باد نہ ہندو تھا نہ مسلمان بلکہ ہندوستانی جذبات کا ترجمان تھا۔ سبھاش چندر بوس کی قوم پرستی اپنی جگہ لیکن جب نام رکھنے کی باری آئی تو انھوں نے سوتنتر بھارت سینا نہیں بلکہ آزاد ہند فوج کے قیام کا ہی اعلان کیا۔آزادی کے حق میں جو شاعری ہوئی وہ اردو میں ہی ممکن ہوئی۔ویسے بھی اردو میں ساٹھ فیصد مقامی اور چالیس فیصد غیر مقامی الفاظ ہیں۔ایسی زبان کا من پسند کریا کرم کیسے ممکن ہے۔

یہ تو ممکن نہیں تھا کہ جو زبان میر و غالب و انیس و اقبال لکھیں وہ اردو کہلائے اور جو زبان منشی پریم چند ، کرشن چندر، فراق گھورکھپوری ، راجندر سنگھ بیدی اور گلزار لکھیں وہ ہندی کہلائے۔ مگر سیاست کی یہی خوبی ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن بنانے کا چمتکار جانتی ہے۔

اردو کو سیاسی مصلحتوں اور تعصب کے سبب کسی بھی نام سے پکاریں۔بھارتی ایکتا کی ضمانت بولی وڈ سینما آج تک اردو مکالمے ، لفظیات اور شاعری سے جان نہیں چھڑا سکا۔اردو سے تب ہی جان چھوٹ سکتی ہے جب بالی وڈ سے جان چھوٹ جائے اور مستقبلِ قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔امیتابھ بچن کون بنے گا کروڑ پتی میں جیسی بھی شدھ بھاشا کا اپیوگ کریں۔ لیکن میرے پاس ماں ہے کو میرے پاس ماتا ہے نہیں کر سکتے۔اردو شاعری میں زبردستی سنسکرت گھسیڑنے سے گیت تو مضحکہ خیز بن سکتا ہے،مگر دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے کو ذرا ہندی میں کہہ کر دکھائیں اور پھر جنتا کا چہرہ دیکھیں۔

معروف لکھاری اور بالی وڈ کے اسکرپٹ رائٹر جاوید صدیقی کے بقول فلم کی مجبوری یہ ہے کہ کوئی بھی نغمہ دل، عشق اور محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس زبان میں جو قدرتی نغمگی ہے وہ ہندی متبادلات کے استعمال کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی۔

عجیب بات ہے کہ جو زبانِ انگریزی واقعی خالص غیر ملکی زبان ہے اسے تو بھارت کے جنوب اور شمال کے رابطے کی زبان کہہ کر گلے لگایا گیا۔مگر جو زبان ہندوستان کی خاک سے اٹھی اسے اب غیر ملکی و غیر ہندوستانی زبان قرار دینے کی سعیِ لاحاصل میں توانائی جھونکی جا رہی ہے۔

اردو ان بائیس زبانوں میں شامل ہے جنھیں بھارتی آئین کے مطابق سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ دو ہزار ایک کی مردم شماری کے مطابق اردو کا شمار سب سے زیادہ بولی جانے والی سات بھارتی زبانوں میں ہوتا ہے۔

اگلی مردم شماری اگلے برس ہونے والی ہے۔چنانچہ اردو کے خلاف مہم کے زور پکڑنے اور اسے صرف اور صرف مسلمانوں سے نتھی کرنے کی تیزرفتار کوشش کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر ایک عام شہری جس نے گزشتہ مردم شماری میں اپنی زبان اردو لکھوائی تھی وہ بھی اسے مسلمانوں کی زبان سمجھ کر اگلی مردم شماری میں اسے اپنی زبان لکھوانے سے پرہیز کرے۔ یوں سرکاری کاغذوں میں اردو کو مزید پیچھے دھکیل دیا جائے۔باقی گھیراؤ سیاسی و سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے مکمل کر لیا جائے،لیکن کیا یہ کوشش بھی کامیاب ہو پائے گی؟

منٹو کے بقول ہندو ہندی کی حمایت میں اور مسلمان اردو کے تحفظ میں اتنے اتاؤلے کیوں ہیں۔ زبان کوئی بناتا نہیں ہے یہ خود بخود بنتی ہے۔ انسان لاکھ کوشش کر لے وہ کسی زبان کو ختم نہیں کر سکتا۔زبان کی حفاظت اور عروج و زوال کی ذمے داری فطرت نے اٹھا رکھی ہے۔

وسعت اللہ خان نامور صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ بی بی سی اردو پر کالم لکھتے ہیں اور ایک پرائیوٹ چینل پر میزبانی بھی کرتے ہیں۔

The post آپ بھی کوشش کر دیکھیں appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/9675/feed 0
عبوری صوبہ: تضادات اور متناقضات https://baam-e-jahan.com/story/9396 https://baam-e-jahan.com/story/9396#respond Sun, 03 Oct 2021 19:13:43 +0000 https://baam-e-jahan.com/?p=9396 گلگت بلتستان کے لئے مجوّزہ عبوری صوبہ اور اس کے فوائد اور نقصانات پر بھرپور علمی بحث مباحثہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ بحثیت گلگت بلتستان کے باشندے ہمیں تاریخ کے اس اہم موڈ پر خاموش اور لاتعلق نہیں رہنا چاہئے جب دوسرے ہماری قسمت کا فیصلہ کررہے ہوں جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گی

The post عبوری صوبہ: تضادات اور متناقضات appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
تحریر : اشفاق احمد ایڈوکیٹ


 گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت پر آج سے چھ سال قبل گلگت بلتستان کی وکلا برادری نے وکلاء کنونشن کا انعقاد کیا تھا اور متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی سیاسی معاشی حقوق کے حصول اور خطے کی آئینی حیثیت طے کرنے کیلئے تجاویز پیش کی تھیں۔.

چھ اکتوبر 2015 کو گلگت بلتستان بار کونسل کے وائس چیئرمین شہباز خان مرحوم نے چار صحفات پر مشتمل وکلاء برادری کی تجاویزکو حتمی شکل دی اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سمیت پاکستان کے دیگر تمام متعلقہ اداروں کو ارسال کیا تھا۔.

انہوں نے اپنے مسودے میں یہ واضح کیا تھا کہ گلگت بلتستان کو 1947 سے ہی نوآبادیاتی نظام کے تحت چلایا جارہا ہے جبکہ پاکستان اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کو 1948 سے ہی تمام تر بنیادی جمہوری حقوق حاصل ہیں مگر گلگت بلتستان کو آج تک ان بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔.

  کشمیر کے دونوں حصون کی طرح گلگت بلتستان بھی مسئلہ  کشمیر کا ایک اہم حصہ ہے اور یہاں کے بیس لاکھ عوام کو ایک نوآبادیاتی نظام کے زیر تسلط رکھنا سراسر زیادتی ہے جس کی وجہ سےخطے میں احساس محرومی بڑھ رہی ہے۔ اس لئے وکلا برادری متفقہ طور پر اس نظام کا فوری طور پر خاتمہ چاہتے ہیں اور ہندوستان کی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے طرز پر گلگت بلتستان کے عوام کو تمام حقوق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ پانچ  اگست 2019 سے قبل انڈیا کے زیر کنٹرول جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصیل تھی جہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول لاگو تھا جسے مودی سرکار نے ختم کیا۔.

مرحوم شہباز خان ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنا کر انڈین کشمیر طرز پر حقوق دینے کے لئے  آیئن پاکستان کے آرٹیکل 1 اور 257 میں ترامیم کرنے کا تجویز دیا تھا۔ لیکن گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر قانون فروغ نسیم کی مجوزہ عبوری صوبہ کی سفارشات میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرنا ممکن نہیں ہے چونکہ پاکستان کی دفتر خارجہ اور نشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے اس کی بھر پور مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ آرٹیکل 1 میں ترمیم نہیں ہوسکتا ہے  جبکہ آرٹیکل 257  جو کہ ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں ہے فروغ نسیم کی تجویز میں اس کا سرے سے ذکر ہی نہیں یعنی وکلاء برادری کے مطالبات کو ناقابل عمل قرار دے کر فروغ نسیم نے یکسر نظر انداز کیا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا چاہئے۔.

 عام طور پر گلگت بلتستان اور پاکستان میں لوگوں کی اکثریت آرٹیکل 257 کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ آرٹیکل کشمیر کے بارے میں ہے نہ کہ گلگت بلتستان کے بارے میں  ہے۔.

 چنانچہ اسی غلط فہمی کو بھی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے متعلق سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ سول ایوی ایشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان 357  میں دور کرتے ہوۓ گلگت بلتستان کو متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا تھا اور آرٹیکل 257 کی بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان بھی آرٹیکل 257 میں شامل ہے اور یہ کی ان علاقوں کے باشندوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اور زیر نگرانی بذریعہ استصواب رائے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔.

 نیز اس بابت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 122 بہت واضح ہے.

یاد رہے کہ مرحوم شہباز خان نے اپنی سفارشات میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 اور257 کے علاوہ جی بی میں لاگو آرڈر میں بھی مندرجہ ذیل 13 ترامیم کا ڈیمانڈ کیا تھا۔

1-یہ کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی قرار دیا جائے.

2.گلگت بلتستان میں باشندہ ریاست قانون کو بحال کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کی شہریت اور جائیداد کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے.

3-گلگت بلتستان کی منتخب قانون ساز اسمبلی کو ایکٹ یا آرڈر میں مزید ترامیم کرنے کا اختیار دیا جائے .

4.آئین پاکستان کے کنکرنٹ لسٹ اور فیڈل لسٹ میں دئیے گئے تمام سبجکٹس اور گلگت بلتستان آرڈر کی شیڈول 4 کے نیچے درج تمام سبجکٹس پر قانون سازی کے مکمل اختیارات گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کو دی جائے.

5-گلگت بلتستان کونسل میں سو فیصد نمائندگی مقامی ہو اور  اپنا منتخب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ہونا چاہئے اور کونسل کا صدر مقام گلگت ہو.

 6- گلگت بلتستان کونسل کی حیثیت کو جموں و کشمیر قانون ساز کونسل کے برابر کیا جائے جو گلگت بلتستان اسمبلی کے پاس کئے گئے بلز کی توثیق کرنے کے لئے بااختیار ہو.

7- آمدنی پیدا کرنے والے شعبے، یعنی بجلی , معدنیات، جنگلات اور سیاحت گلگت بلتستان اسمبلی کی قانون سازی لسٹ میں شامل ہو.

8-ویکنسی شیرنگ فارمولا ختم کیا جائے.

 9-وفاق کی طرف سے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی پوسٹنگ کے لئے کونسل کی بجائے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے مشاورت کی جائے.

10-گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ اور ججوں کا نام تبدیل کرکے سپریم اپیلٹ کورٹ کو گلگت بلتستان سپریم کورٹ جبکہ چیف کورٹ کو ہائی کورٹ گلگت بلتستان کا درجہ دیا جائے جبکہ چیف ججز اور ججزز کو چیف جسٹس اور جسٹس ڈیکلیر کیا جائے۔.

11.گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر پانچ جبکہ چیف کورٹ میں سات کیا جائے. جبکہ فروغ نسیم نے  تجویز دی ہے کہ سپریم اپیلٹ کورٹ ختم کیا جائے نیز چیف کورٹ کو صدارتی حکمنامہ کے تحت ہائی کورٹ ڈیکلیر کرنے کی سفارش کی ہے اور چیف کورٹ میں ججز کی تعداد سات کی بجائے کم کرکے پانچ کرنے کی تجویز دی ہے

12-اعلی عالیہ میں ججز کی تعیناتی کے نظام کو پاکستان میں رائج نظام کے برابر لایا جائے اور جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جس میں گلگت بلتستان بار کونسل کی نمائندگی شامل ہو اور کسی بھی تقریری سے قبل متعلقہ چیف جسٹس سے بھرپور مشاورت کا لازمی پرویژن شامل ہو .

13-یہ ترامیم آزاد کشمیر انٹریم آئین 1974 اور آئی آر پی کی طرز پر کیا جائے اور ججزز کی تعیناتی صرف گلگت بلتستان کے باشندوں میں سے کیا جائے  .

شہباز خان ایڈووکیٹ مرحوم کے تجاویز کے برعکس گذشتہ دنوں فروغ نسیم نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت گلگت بلتستان کے لئے ایک آئینی پیکج تجویز کرتے ہوئے اپنے منصوبہ کو عملی جامع پہنانے کے لئے ایک مجوزہ مسودہ تیار کرکے وزیر اعظم کو ارسال کیا ہے۔.

 مسودہ کے مطابق گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے متعلق مجوزہ ترمیمی بل کا عنوان26ویں آئینی ترمیم بل2021 ہوگا، جس میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 ، 59، 106 ، 175A، 198، 218 ، 240 اور 242 میں ترامیم کی تجاویز شامل ہیں، اس میں آرٹیکل 258A اور 264A کے نام سے مزید 2 شقوں کا اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

مجوزہ ترمیمی بل میں بذریعہ صدارتی حکم نامہ چیف کورٹ گلگت بلتستان کو ہائی کورٹ گلگت بلتستان کا نام دینے کی تجویز دی ہے، جب کہ سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کو ختم کیا جائے گا۔ ہائی کورٹ گلگت بلتستان کے ججز کی تعداد کم کرکے 5 پانچ  کرنے کا مشورہ  دیا ہے

۔ گلگت بلتستان الیکشن کمیشن کو ختم کیا جائے گا تاہم  موجودہ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کو ان کی مدت ختم ہونے تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کا رکن برقرار رکھا جائے گا۔

آئین میں مجوزہ 26 ویں ترمیم میں گلگت بلتستان اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 33 ہی برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے، جس میں سے 24 جنرل، 6 خواتین جبکہ 3 ٹیکنوکریٹس کی نشستیں ہوں گی.

جی بی آرڑر 2018 کے شیڈول چار کے تحت گریڈ 17سے 21 تک کی تمام ملازمتوں میں پاکستان کے شہریوں کے لئے کوٹہ مقرر کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کے شہریوں کے لئے 17گریڈ میں 18 فیصد جبکہ 18گریڈ میں 30فیصد اور 19 گریڈ میں 40 فیصد جبکہ گریڈ 21میں 60 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا ہے دلچسپ بات یہ ہے   فروغ نسیم آرڈر 2018 کی اس شق کو بھی برقرار رکھنے کی سفارش کرتا ہے جس طرح انہوں نے الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کے موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی ملازمت برقرار رکھنے کی شفارش کیا ہے.

فروغ نسیم کی ان سفارشات کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان تجاویز میں از خود تصْاد ہے مثلاً آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں لوکل اتھارٹی قائم کرنے کے بجائے 1974 سے ہی صدرارتی حکم ناموں کے تحت گلگت بلتستان کا نظام  چلایا جارہا ہے اور ماضی کی یہی روایت برقرار رکھتے ہوئے فروغ نسیم نے بھی آئین پاکستان کے آرٹیکل 258 کے تحت ایک صدارتی حکم نامے کے زریعے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی تجویز دی ہے جو کہ وکلاء برادری کی ڈیمانڈ کےبلکل برعکس ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں نافذ آرڈر 2018 بھی اسی آرٹیکل 258 کے تحت جاری کیا گیا ہے.

دوسری اہم بات یہ کہ آرٹیکل 258  آرٹیکل 1 کا متبادل نہیں ہے۔ آرٹیکل 1 پاکستان کے حدود و اربعہ کا تعین کرتا ہے کہ پاکستان سے مراد کون کون سے علاقے ہیں جبکہ آرٹیکل 258 ان علاقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے قوانین کے اطلاق کے طریقے کو بیان کرتا ہے جو ملک کے کسی صوبے میں شامل نہیں۔

 لہذا آرٹیکل 1 میں ترمیم نہ کرنے سے گلگت بلتستان پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل نہیں ہو سکتا تو ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا جورسڈکشن کس طرح گلگت بلتستان میں لاگو ہوگا؟

سابق وزیر قانون گلگت بلتستان اورنگزیب ایڈووکیٹ نے فروغ نسیم کے سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز کمیٹی سفارشات کو تجویز فروغ نسیم نے ختم کیا ہے البتہ فروغ نسیم یا کوئی بھی اصلاحاتی کمیٹی کے لئے سرتاج عزیر کمیٹی ہمیشہ کیلئے راہ بتاتی رہے گی .بقول مسٹر اورنگزیب اب تجویز فروغ نسیم میں واصغ طور کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے لئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 میں کوئی ترمیم نہیں ہوگی یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ائین پاکستان کے آرٹیکل ایک میں ترمیم کیے بغیر سپریم کورٹ آف پاکستان اپنا جورسڈکشن گلگت بلتستان میں لاگو نہیں کرسکتی ہے.

انٹرنیشنل قانون کے تحت گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود بطور انٹرنیشنل باؤنڈری عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے اس لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کی رجسڑی گلگت بلتستان میں قائم نہیں ہو سکتی ہے لہذا گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کو برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں.

 گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں تین نشستیں دینے کی بابت فروغ نسیم اپنے خط میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کا حوالہ دیتا ہے جو شہریوں سے مساوات کے بارے میں ہے جس کے تحت پاکستان کے  تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں. لہذا فروغ نسیم آرٹیکل 25کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دیتا ہے کہ گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں دی گئی تو یہ آئینی ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتی ہے.

دوسری طرف چیف منسٹر خالد خورشید جب وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم  سے آئین پاکستان میں درج واضح اصول کے تحت دیگر  چار صوبوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سینٹ میں نشستیں دینے کا مطالبہ کرتا ہے تو فروغ نسیم آرٹیکل 25 کی فوراً خود نفی کرتے ہوئے دلیل دیتا ہے کہ آپ کو دیگر صوبوں کے برابر سینٹ میں نشتیں اس لئے نہیں دے سکتے چونکہ آپ کو اصلی صوبہ تھوڈی بنایا جا رہا ہے.

یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ اصلی صوبہ نہیں بنا سکتے ہو تو آزاد کشمیر طرز پر لوکل اتھارٹی قائم کرنے کی بجائے نام نہاد صوبہ کیوں بنانا چاہتے ہو؟

حالانکہ سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا فیصلہ کے پیراگراف نمبر 13میں واضع طور پر  لکھا گیا ہے کہ

As noted, Pakistan has responsibilities in relation to two regions, AJK and Gilgit Baltistan. In 1948 UNCIP recognized the establishment of local authorities (as distinct from the government of Pakistan) for the territories. We are of course concerned with Gilgitأ-Baltistan alone.

The region has not been incorporated in Pakistan as it is considered to be part of the disputed state of Jammu & Kashmir. However it has always remained completely under Pakistan,s administrative control.

یعنی حکومت پاکستان کے پاس اس خطے کا انتظام بذریعہ لوکل اتھارٹی چلانے کا اختیار ہے نہ کہ عبوری صوبہ بنانے کا اختیار ہے.

واضح رہے کہ لوکل اتھارٹی حکومت پاکستان سے بلکل مختلف ہے۔اس لئے گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ ایک فرد واحد کیسے کرسکتا ہے؟

درحقیقت فروغ نسیم ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں کر رہا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ غیر مطمئن  ضمیر اپنے ہی تضادات میں پھنس جاتا ہے۔ لہذا اس قسم کی نوآبادیاتی سوچ کو ہم مسترد کرتے ہیں اور تا تصفیہ مسئلہ کشمیر گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر طرز پر لوکل اتھارٹی قائم کرکے دفاع کرنسی اور فادرن افیرز کے علاوہ تمام اختیارات گلگت بلتستان کو منتقل کر دینا ہی ایک موثر حل ہے ورنہ عبوری صوبہ مذید مسائل پیدا کرنے کا باعث ہوگا.

چونکہ گلگت بلتستان کے عوام  تلخ تجربات سے گزرے ہیں جب 1947 میں بھی ایک ٹیلی گرام دے کر انہیں بیوقوف بنایا گیا تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا گلگت بلتستان کے لئے مجوّزہ عبوری صوبہ اور اس کے فوائد اور نقصانات پر بھرپور علمی بحث مباحثہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ بحثیت گلگت بلتستان کے باشندے ہمیں تاریخ کے اس اہم موڈ پر خاموش اور لاتعلق نہیں رہنا چاہئے جب دوسرے ہماری قسمت  کا فیصلہ کررہے ہوں جس کا خمیازہ  ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گی


اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت بلتستاب کے سینئر وکیل اور چیف کورٹ کے وکیل ہیں۔ وہ ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی امور پر لیکچر بھی دیتے ہیں۔ اور بام جہاں سمیت دیگر مقامی اخبارات اور اپنے بلاگ پر مضامین بھی لکھتے ہیں

The post عبوری صوبہ: تضادات اور متناقضات appeared first on Baam-e-Jahan.

]]>
https://baam-e-jahan.com/story/9396/feed 0