تحریر : اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت پر آج سے چھ سال قبل گلگت بلتستان کی وکلا برادری نے وکلاء کنونشن کا انعقاد کیا تھا اور متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی سیاسی معاشی حقوق کے حصول اور خطے کی آئینی حیثیت طے کرنے کیلئے تجاویز پیش کی تھیں۔.
چھ اکتوبر 2015 کو گلگت بلتستان بار کونسل کے وائس چیئرمین شہباز خان مرحوم نے چار صحفات پر مشتمل وکلاء برادری کی تجاویزکو حتمی شکل دی اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سمیت پاکستان کے دیگر تمام متعلقہ اداروں کو ارسال کیا تھا۔.
انہوں نے اپنے مسودے میں یہ واضح کیا تھا کہ گلگت بلتستان کو 1947 سے ہی نوآبادیاتی نظام کے تحت چلایا جارہا ہے جبکہ پاکستان اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کو 1948 سے ہی تمام تر بنیادی جمہوری حقوق حاصل ہیں مگر گلگت بلتستان کو آج تک ان بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔.
کشمیر کے دونوں حصون کی طرح گلگت بلتستان بھی مسئلہ کشمیر کا ایک اہم حصہ ہے اور یہاں کے بیس لاکھ عوام کو ایک نوآبادیاتی نظام کے زیر تسلط رکھنا سراسر زیادتی ہے جس کی وجہ سےخطے میں احساس محرومی بڑھ رہی ہے۔ اس لئے وکلا برادری متفقہ طور پر اس نظام کا فوری طور پر خاتمہ چاہتے ہیں اور ہندوستان کی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے طرز پر گلگت بلتستان کے عوام کو تمام حقوق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ پانچ اگست 2019 سے قبل انڈیا کے زیر کنٹرول جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصیل تھی جہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول لاگو تھا جسے مودی سرکار نے ختم کیا۔.
مرحوم شہباز خان ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنا کر انڈین کشمیر طرز پر حقوق دینے کے لئے آیئن پاکستان کے آرٹیکل 1 اور 257 میں ترامیم کرنے کا تجویز دیا تھا۔ لیکن گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر قانون فروغ نسیم کی مجوزہ عبوری صوبہ کی سفارشات میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرنا ممکن نہیں ہے چونکہ پاکستان کی دفتر خارجہ اور نشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے اس کی بھر پور مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ آرٹیکل 1 میں ترمیم نہیں ہوسکتا ہے جبکہ آرٹیکل 257 جو کہ ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں ہے فروغ نسیم کی تجویز میں اس کا سرے سے ذکر ہی نہیں یعنی وکلاء برادری کے مطالبات کو ناقابل عمل قرار دے کر فروغ نسیم نے یکسر نظر انداز کیا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا چاہئے۔.
عام طور پر گلگت بلتستان اور پاکستان میں لوگوں کی اکثریت آرٹیکل 257 کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ آرٹیکل کشمیر کے بارے میں ہے نہ کہ گلگت بلتستان کے بارے میں ہے۔.
چنانچہ اسی غلط فہمی کو بھی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے متعلق سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ سول ایوی ایشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان 357 میں دور کرتے ہوۓ گلگت بلتستان کو متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا تھا اور آرٹیکل 257 کی بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان بھی آرٹیکل 257 میں شامل ہے اور یہ کی ان علاقوں کے باشندوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اور زیر نگرانی بذریعہ استصواب رائے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔.
نیز اس بابت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 122 بہت واضح ہے.
یاد رہے کہ مرحوم شہباز خان نے اپنی سفارشات میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 اور257 کے علاوہ جی بی میں لاگو آرڈر میں بھی مندرجہ ذیل 13 ترامیم کا ڈیمانڈ کیا تھا۔
1-یہ کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی قرار دیا جائے.
2.گلگت بلتستان میں باشندہ ریاست قانون کو بحال کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کی شہریت اور جائیداد کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے.
3-گلگت بلتستان کی منتخب قانون ساز اسمبلی کو ایکٹ یا آرڈر میں مزید ترامیم کرنے کا اختیار دیا جائے .
4.آئین پاکستان کے کنکرنٹ لسٹ اور فیڈل لسٹ میں دئیے گئے تمام سبجکٹس اور گلگت بلتستان آرڈر کی شیڈول 4 کے نیچے درج تمام سبجکٹس پر قانون سازی کے مکمل اختیارات گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کو دی جائے.
5-گلگت بلتستان کونسل میں سو فیصد نمائندگی مقامی ہو اور اپنا منتخب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ہونا چاہئے اور کونسل کا صدر مقام گلگت ہو.
6- گلگت بلتستان کونسل کی حیثیت کو جموں و کشمیر قانون ساز کونسل کے برابر کیا جائے جو گلگت بلتستان اسمبلی کے پاس کئے گئے بلز کی توثیق کرنے کے لئے بااختیار ہو.
7- آمدنی پیدا کرنے والے شعبے، یعنی بجلی , معدنیات، جنگلات اور سیاحت گلگت بلتستان اسمبلی کی قانون سازی لسٹ میں شامل ہو.
8-ویکنسی شیرنگ فارمولا ختم کیا جائے.
9-وفاق کی طرف سے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی پوسٹنگ کے لئے کونسل کی بجائے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے مشاورت کی جائے.
10-گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ اور ججوں کا نام تبدیل کرکے سپریم اپیلٹ کورٹ کو گلگت بلتستان سپریم کورٹ جبکہ چیف کورٹ کو ہائی کورٹ گلگت بلتستان کا درجہ دیا جائے جبکہ چیف ججز اور ججزز کو چیف جسٹس اور جسٹس ڈیکلیر کیا جائے۔.
11.گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر پانچ جبکہ چیف کورٹ میں سات کیا جائے. جبکہ فروغ نسیم نے تجویز دی ہے کہ سپریم اپیلٹ کورٹ ختم کیا جائے نیز چیف کورٹ کو صدارتی حکمنامہ کے تحت ہائی کورٹ ڈیکلیر کرنے کی سفارش کی ہے اور چیف کورٹ میں ججز کی تعداد سات کی بجائے کم کرکے پانچ کرنے کی تجویز دی ہے
12-اعلی عالیہ میں ججز کی تعیناتی کے نظام کو پاکستان میں رائج نظام کے برابر لایا جائے اور جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جس میں گلگت بلتستان بار کونسل کی نمائندگی شامل ہو اور کسی بھی تقریری سے قبل متعلقہ چیف جسٹس سے بھرپور مشاورت کا لازمی پرویژن شامل ہو .
13-یہ ترامیم آزاد کشمیر انٹریم آئین 1974 اور آئی آر پی کی طرز پر کیا جائے اور ججزز کی تعیناتی صرف گلگت بلتستان کے باشندوں میں سے کیا جائے .
شہباز خان ایڈووکیٹ مرحوم کے تجاویز کے برعکس گذشتہ دنوں فروغ نسیم نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت گلگت بلتستان کے لئے ایک آئینی پیکج تجویز کرتے ہوئے اپنے منصوبہ کو عملی جامع پہنانے کے لئے ایک مجوزہ مسودہ تیار کرکے وزیر اعظم کو ارسال کیا ہے۔.
مسودہ کے مطابق گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے متعلق مجوزہ ترمیمی بل کا عنوان26ویں آئینی ترمیم بل2021 ہوگا، جس میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 ، 59، 106 ، 175A، 198، 218 ، 240 اور 242 میں ترامیم کی تجاویز شامل ہیں، اس میں آرٹیکل 258A اور 264A کے نام سے مزید 2 شقوں کا اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
مجوزہ ترمیمی بل میں بذریعہ صدارتی حکم نامہ چیف کورٹ گلگت بلتستان کو ہائی کورٹ گلگت بلتستان کا نام دینے کی تجویز دی ہے، جب کہ سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کو ختم کیا جائے گا۔ ہائی کورٹ گلگت بلتستان کے ججز کی تعداد کم کرکے 5 پانچ کرنے کا مشورہ دیا ہے
۔ گلگت بلتستان الیکشن کمیشن کو ختم کیا جائے گا تاہم موجودہ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کو ان کی مدت ختم ہونے تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کا رکن برقرار رکھا جائے گا۔
آئین میں مجوزہ 26 ویں ترمیم میں گلگت بلتستان اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 33 ہی برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے، جس میں سے 24 جنرل، 6 خواتین جبکہ 3 ٹیکنوکریٹس کی نشستیں ہوں گی.
جی بی آرڑر 2018 کے شیڈول چار کے تحت گریڈ 17سے 21 تک کی تمام ملازمتوں میں پاکستان کے شہریوں کے لئے کوٹہ مقرر کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کے شہریوں کے لئے 17گریڈ میں 18 فیصد جبکہ 18گریڈ میں 30فیصد اور 19 گریڈ میں 40 فیصد جبکہ گریڈ 21میں 60 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا ہے دلچسپ بات یہ ہے فروغ نسیم آرڈر 2018 کی اس شق کو بھی برقرار رکھنے کی سفارش کرتا ہے جس طرح انہوں نے الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کے موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی ملازمت برقرار رکھنے کی شفارش کیا ہے.
فروغ نسیم کی ان سفارشات کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان تجاویز میں از خود تصْاد ہے مثلاً آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں لوکل اتھارٹی قائم کرنے کے بجائے 1974 سے ہی صدرارتی حکم ناموں کے تحت گلگت بلتستان کا نظام چلایا جارہا ہے اور ماضی کی یہی روایت برقرار رکھتے ہوئے فروغ نسیم نے بھی آئین پاکستان کے آرٹیکل 258 کے تحت ایک صدارتی حکم نامے کے زریعے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی تجویز دی ہے جو کہ وکلاء برادری کی ڈیمانڈ کےبلکل برعکس ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں نافذ آرڈر 2018 بھی اسی آرٹیکل 258 کے تحت جاری کیا گیا ہے.
دوسری اہم بات یہ کہ آرٹیکل 258 آرٹیکل 1 کا متبادل نہیں ہے۔ آرٹیکل 1 پاکستان کے حدود و اربعہ کا تعین کرتا ہے کہ پاکستان سے مراد کون کون سے علاقے ہیں جبکہ آرٹیکل 258 ان علاقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے قوانین کے اطلاق کے طریقے کو بیان کرتا ہے جو ملک کے کسی صوبے میں شامل نہیں۔
لہذا آرٹیکل 1 میں ترمیم نہ کرنے سے گلگت بلتستان پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل نہیں ہو سکتا تو ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا جورسڈکشن کس طرح گلگت بلتستان میں لاگو ہوگا؟
سابق وزیر قانون گلگت بلتستان اورنگزیب ایڈووکیٹ نے فروغ نسیم کے سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز کمیٹی سفارشات کو تجویز فروغ نسیم نے ختم کیا ہے البتہ فروغ نسیم یا کوئی بھی اصلاحاتی کمیٹی کے لئے سرتاج عزیر کمیٹی ہمیشہ کیلئے راہ بتاتی رہے گی .بقول مسٹر اورنگزیب اب تجویز فروغ نسیم میں واصغ طور کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے لئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 میں کوئی ترمیم نہیں ہوگی یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ائین پاکستان کے آرٹیکل ایک میں ترمیم کیے بغیر سپریم کورٹ آف پاکستان اپنا جورسڈکشن گلگت بلتستان میں لاگو نہیں کرسکتی ہے.
انٹرنیشنل قانون کے تحت گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود بطور انٹرنیشنل باؤنڈری عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے اس لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کی رجسڑی گلگت بلتستان میں قائم نہیں ہو سکتی ہے لہذا گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کو برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں.
گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں تین نشستیں دینے کی بابت فروغ نسیم اپنے خط میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کا حوالہ دیتا ہے جو شہریوں سے مساوات کے بارے میں ہے جس کے تحت پاکستان کے تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں. لہذا فروغ نسیم آرٹیکل 25کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دیتا ہے کہ گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں دی گئی تو یہ آئینی ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتی ہے.
دوسری طرف چیف منسٹر خالد خورشید جب وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم سے آئین پاکستان میں درج واضح اصول کے تحت دیگر چار صوبوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سینٹ میں نشستیں دینے کا مطالبہ کرتا ہے تو فروغ نسیم آرٹیکل 25 کی فوراً خود نفی کرتے ہوئے دلیل دیتا ہے کہ آپ کو دیگر صوبوں کے برابر سینٹ میں نشتیں اس لئے نہیں دے سکتے چونکہ آپ کو اصلی صوبہ تھوڈی بنایا جا رہا ہے.
یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ اصلی صوبہ نہیں بنا سکتے ہو تو آزاد کشمیر طرز پر لوکل اتھارٹی قائم کرنے کی بجائے نام نہاد صوبہ کیوں بنانا چاہتے ہو؟
حالانکہ سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا فیصلہ کے پیراگراف نمبر 13میں واضع طور پر لکھا گیا ہے کہ
As noted, Pakistan has responsibilities in relation to two regions, AJK and Gilgit Baltistan. In 1948 UNCIP recognized the establishment of local authorities (as distinct from the government of Pakistan) for the territories. We are of course concerned with Gilgitأ-Baltistan alone.
The region has not been incorporated in Pakistan as it is considered to be part of the disputed state of Jammu & Kashmir. However it has always remained completely under Pakistan,s administrative control.
یعنی حکومت پاکستان کے پاس اس خطے کا انتظام بذریعہ لوکل اتھارٹی چلانے کا اختیار ہے نہ کہ عبوری صوبہ بنانے کا اختیار ہے.
واضح رہے کہ لوکل اتھارٹی حکومت پاکستان سے بلکل مختلف ہے۔اس لئے گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ ایک فرد واحد کیسے کرسکتا ہے؟
درحقیقت فروغ نسیم ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں کر رہا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ غیر مطمئن ضمیر اپنے ہی تضادات میں پھنس جاتا ہے۔ لہذا اس قسم کی نوآبادیاتی سوچ کو ہم مسترد کرتے ہیں اور تا تصفیہ مسئلہ کشمیر گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر طرز پر لوکل اتھارٹی قائم کرکے دفاع کرنسی اور فادرن افیرز کے علاوہ تمام اختیارات گلگت بلتستان کو منتقل کر دینا ہی ایک موثر حل ہے ورنہ عبوری صوبہ مذید مسائل پیدا کرنے کا باعث ہوگا.
چونکہ گلگت بلتستان کے عوام تلخ تجربات سے گزرے ہیں جب 1947 میں بھی ایک ٹیلی گرام دے کر انہیں بیوقوف بنایا گیا تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا گلگت بلتستان کے لئے مجوّزہ عبوری صوبہ اور اس کے فوائد اور نقصانات پر بھرپور علمی بحث مباحثہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ بحثیت گلگت بلتستان کے باشندے ہمیں تاریخ کے اس اہم موڈ پر خاموش اور لاتعلق نہیں رہنا چاہئے جب دوسرے ہماری قسمت کا فیصلہ کررہے ہوں جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گی
اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت بلتستاب کے سینئر وکیل اور چیف کورٹ کے وکیل ہیں۔ وہ ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی امور پر لیکچر بھی دیتے ہیں۔ اور بام جہاں سمیت دیگر مقامی اخبارات اور اپنے بلاگ پر مضامین بھی لکھتے ہیں