تحریر: اشفاق احمدایڈووکیٹ
پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی بنیادی جڑ مسئلہ کشمیر ہے، اور اسی مسئلے کی کوکھ سے جنم لینے والا مسئلہ گلگت بلتستان کے عوام کو گزشتہ سات دہائیوں سے شدید نوعیت کے بنیادی مسائل سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ علاقے کی آئینی حیثیت کا تعین نہ ہونا اور قومی شناخت کا بحران ہے۔ اسی بحران کی آڑ میں عوام کو نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا، بلکہ انہیں حقِ ملکیت اور حقِ حکمرانی سے بھی دور رکھا گیا ہے۔
ان ناانصافیوں کی وجہ سے معاشرے میں محرومی کا احساس روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، اور ساتھ ہی سماجی اجنبیت بھی گہری ہوتی جا رہی ہے۔ یہی احساسات اب احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں، جو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ حالیہ دنوں گلگت بلتستان اسمبلی میں زمینوں سے متعلق قانون سازی کے فوری بعد پیدا ہونے والی عوامی بے چینی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
اسی بے چینی کی ایک بڑی وجہ علاقے میں سیاسی قیادت کا شدید فقدان ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک کسی نے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے اور حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قیادت کے بحران نے ہی دیگر سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کو جنم دیا ہے، تو یہ بات بالکل غلط نہ ہوگی۔ لہٰذا، ان مسائل کے حل کے لیے قیادت کی اہمیت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ مسئلے کی جڑوں تک پہنچا جا سکے۔
قیادت کا بحران اور وجوہات
معروف مصنف جان سی میکس ویل اپنی کتاب "Five Levels of Leadership” میں لکھتے ہیں:
"لیڈر آسمان سے نہیں اترتے، نہ ہی ماں کے پیٹ سے لیڈر بن کر پیدا ہوتے ہیں۔ لیڈر بننے کا عمل ایک دن، ایک ماہ یا ایک سال کا نہیں، بلکہ ایک طویل فکری اور عملی جدوجہد کا نتیجہ ہوتا ہے۔”
اسی تناظر میں ولادیمیر لینن کا قول یاد آتا ہے: "فکری انقلاب کے بغیر سماجی انقلاب ممکن نہیں”.
ایک سچا رہنما حقیقت پسند ہوتا ہے۔ وہ خیالی تصورات میں گم ہو کر قوم کے مستقبل کو اپنی آرزوؤں کے آئینے میں نہیں دیکھتا، بلکہ اسے یہ شعور ہوتا ہے کہ مستقبل حال کے تقاضوں سے جنم لیتا ہے، نہ کہ صرف خواہشات سے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قوموں کی تقدیر یکدم نہیں بدلتی۔ ایک لیڈر کو روزانہ کی بنیاد پر اپنی فکری و سیاسی تربیت کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہی فرق ایک رہنما اور ایک عام سیاسی کارکن میں نمایاں کرتا ہے۔
قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف ملکی سیاست اور مقامی حالات سے باخبر ہو، بلکہ بین الاقوامی قوانین، عالمی سیاست، اور علاقائی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو بھی بخوبی سمجھے۔ کیونکہ آج کی دنیا ایک "گلوبل ویلیج” بن چکی ہے جہاں بین الاقوامی سیاست کے اثرات مقامی معاملات پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے بقول "یہ کہاوت مشہور ہے کہ ‘تمام سیاست مقامی ہوتی ہے’، لیکن اب ہر مقامی سیاست کے عالمی اثرات ہوتے ہیں جو دنیا بھر میں معیارِ زندگی کو متاثر کرتے ہیں”۔
آج کے دور میں کوئی رہنما کنویں کا مینڈک بن کر خود کو لیڈر نہیں کہلا سکتا، اور نہ ہی باشعور قوم ایسے شخص کو اپنا رہنما تسلیم کرتی ہے۔ ایک قومی لیڈر دنیا کے بہترین رہنماؤں سے سیکھنے کے عمل کو جاری رکھتا ہے تاکہ اپنی قوم کے مسائل کو عوامی امنگوں کے مطابق حل کر سکے۔
کہا جاتا ہے "کشتی تو کوئی بھی چلا سکتا ہے، مگر منزل تک صرف لیڈر ہی پہنچاتا ہے۔”
لیڈر اور سیاست ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ کسی معاشرے میں سیاسی شعور کی سطح کا اندازہ وہاں کی قیادت کی قابلیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا لیڈر ہوگا، ویسے ہی لوگ اس کے گرد جمع ہوں گے۔
گلگت بلتستان جیسے خطوں میں رہنمائی کے دعویدار تو بہت ہیں، لیکن ان میں اکثر کو نہ تو قیادت کے مفہوم کا علم ہے، نہ عوامی مسائل کا ادراک۔ ایسے افراد قیادت کو سہولت کاری اور عہدوں کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ قیادت کا عہدے سے کوئی تعلق نہیں۔ خاص طور پر نوآبادیاتی نظام میں عہدے اُن افراد کو دیے جاتے ہیں جن کا کام صرف حکم بجا لانا ہوتا ہے۔
ایسی نام نہاد قیادت کا واحد مقصد ذاتی مفادات اور اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ یہ لوگ الیکشن جیت کر جلد ہی سیاسی منظرنامے سے غائب ہو جاتے ہیں، اور تاریخ میں صرف سہولت کار کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب وہ لوگ جو عوامی حقوق کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔
نوآبادیاتی نظام میں اکثر اوقات عوام کے حقیقی نمائندوں کے بجائے مصنوعی لیڈر تخلیق کیے جاتے ہیں، جو قوم کے وسائل پر قبضے کے لیے آقاؤں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ نتیجتاً، مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں عوام کو ڈوگرہ راج سے نجات دلانے کے باوجود، قیادت کے فقدان کے باعث قوم کو سیاسی ایجنٹوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ایف سی آر جیسے ظالمانہ قانون کا نفاذ کیا گیا، جس کے خاتمے کے لیے قوم کے چند باہمت رہنماؤں نے جدوجہد کی۔ تاہم، بعد میں فرقہ واریت کو فروغ دیا گیا، نوکریوں کی بندر بانٹ کی گئی، اور مصنوعی قیادت کو آگے لایا گیا۔ اس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
مدبر رہنماء اور سیاستداں میں فرق
یہ سچ ہے کہ ظلم، جبر اور کٹھن حالات کے باعث عوامی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کی تعداد کم ہے، لیکن تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہی اقلیت ہی وقت کے دھارے کو موڑتی ہے۔
ایک مضبوط قومی لیڈر صرف نعرے نہیں لگاتا، وہ عملی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عہدہ وقتی ہو سکتا ہے، مگر قوم کی خدمت اور قیادت ایک مسلسل عمل ہے۔
ایک مضبوط قومی لیڈر صرف نعرے نہیں لگاتا، وہ عملی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عہدہ وقتی ہو سکتا ہے، مگر قوم کی خدمت اور قیادت ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ قوم کے مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے اور ان کے حل کے لیے متبادل راستے تلاش کرتا ہے۔
ایک سچا قومی رہنما ایماندار، نڈر اور بااصول ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سیاست میں دوست اور دشمن میں فرق کرنا کتنا ضروری ہے۔ غلط ساتھیوں کا انتخاب نہ صرف لیڈر کی سیاسی موت کا باعث بنتا ہے بلکہ قومی تحریک کی ناکامی کی بنیاد بھی بن جاتا ہے۔
ایک اچھا رہنما کرپشن سے پاک ہوتا ہے، اور اس کا کردار اتنا شفاف ہوتا ہے کہ دشمن بھی اس کی دیانت داری کے قائل ہو جاتے ہیں۔ وہ جھوٹے وعدے نہیں کرتا، عوام کو دھوکہ نہیں دیتا، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ فریب کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والے آخرکار عوام کے شعور کے ہاتھوں بے نقاب ہو جاتے ہیں۔
وقت کے ساتھ خیالات اور معاشرتی تقاضے بدلتے ہیں، اس لیے ایک سچا رہنما روایتی سوچ سے ہٹ کر جدت پسند ہوتا ہے۔ سماجیات کے مطابق "تبدیلی ہی دنیا کی واحد مستقل حقیقت ہے۔”
ایک سچا رہنما اپنی قوم کو تقسیم نہیں کرتا، نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ آزمائشوں میں خود ساختہ بحران پیدا کرتا ہے، کیونکہ عوام کا اعتماد ایک قیمتی سرمایہ ہوتا ہے، اور اگر یہ ٹوٹ جائے تو لیڈر بھی تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔
آج اگر ہم گلگت بلتستان کی یونین کونسل سے لے کر اسمبلی تک کا جائزہ لیں، تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قیادت کا شدید بحران موجود ہے۔ نام نہاد سیاستدان بے شمار ہیں، مگر قومی رہنما بہت کم۔ ہمارا قومی مسئلہ مسئلہ کشمیر کی طرح پیچیدہ ہے، جس کے لیے محض سیاستدان نہیں بلکہ مدبر قیادت درکار ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ آج گلگت بلتستان میں عوامی شعور نام نہاد قیادت سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے دھرنے اور مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام نے اب اپنے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ سیاسی بیداری کی علامت ہے۔
اشفاق احمد گلگت۔بلتستان چیف کورٹ میں وکا لت کرتے ہیں اور ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی امور پر لیکچر دیتے ہیں ۔ وہ مقامی اخبارات میں گللگت۔بلتستان کی تاریخ اور آئینی مسائل پر مضامین اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پہ تبصرہ بھی کرتے ہیں۔
