تحریر:ضمیر عباس
مولانا جلال الدین رومی فارسی زبان کے عظیم صوفی شاعر، مفکر، اورعالم تھے، جنہوں نے روحانیت اور محبت کو اپنی لازوال شاعری کے سانچے میں ڈالا ہے – ان کی شاعری نہ صرف فنی اعتبار سے اعلیٰ ہے بلکہ روحانی اعتبار سے بھی دلوں کو چھو لینے والی ہے۔ ان کا سب سے مشہور شعری مجموعہ مثنوی معنوی ہے، جسے "قرآنِ فارسی” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا دیوانِ شمس تبریز جو غزلیات پر مشتمل ہےبھی بہت معروف ہے۔۔ گلگت بلتستان میں رومی کے چاہنے والے محقق اور لکھاری ضمیر عباس جنہوں نے انگریزی اور اردو میں مختلف قومی اخبارات و جرایدمیں مضامین لکھی ہیں نے ایک نئے زاوئے سے اور سلیس انداز میں رومی کی شخصیت،وشاعری اور اس کی تفہم پر روشنی ڈالی ہے۔
رومی کے اوپر ان کی تازہ کاوش ہم ‘بام جہاں’ میں قسط وار پیش کر رہے ہیں امید ہے سنجیدہ قارئین اور رومی کے چاہنے والے اس کو ضرور پسند کریں گے۔ (مدیر)
تحریر: ضمیر عباس
مختصر تعارف اور شہرت
مولانا رومی (1275-1207) مغرب و مشرق میں بجا طور پر مشہور ہیں۔ مشرق میں مولانا کو زیادہ تر قران و احادیث کے جید و متبحر عالم اورکراماتی صوفی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ُ جبکہ مغرب عموماً ُانہیں ایک مست، سرُورآور اور کیَف پرور شاعر کی حیثیت سےجانتا ہے۔ ۱۹۹۰ کے اواخر میں ایک سروے کے مطابق رومی امریکہ میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر تھے۔ تاہم برصغیر اور مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں اُن کی شہرت نسبتاً کم ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ مشرق سے زیادہ مغرب میں مقبول ہیں۔
ان کا اصلی نام محمد تھا جبکہ ‘جلال الدین’، ‘مولانا’، ‘مولوی’، ‘میولانا’ وغیرہ اُن کے القابات ہیں۔ یاد رہے کہ توصیفی اسماء جیسے ‘مولانا’، ‘مولوی’، ‘مولانا جان’ ، ‘مولانا بلخی’ ایران، ترکی، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں رومی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ ‘رومی’ مغربی دُنیا میں مستعمل ہے۔ رومی کی بجائے میں بھی اِس تحریر میں ‘مولانا’ استعمال کروں گا۔

جیسا اوپر بیان ہوا مغرب میں مولانا کو ایک انسان دوست، مذہب سے ماورا اور اخلاق پسند شاعر کے طور پر دیکھا گیا ہے جبکہ مشرق میں اُن کو صوفی منش اور مطیعِ شریعت مسلمان کے لحاظ سے جانا گیا ہے۔
اس تناظر میں یوُں کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کے متعلق مشرقی طرز فکر دین پرستانہ و عقیدت مندانہ جبکہ مغرب میں غیر مذہبی اور تاریخی نقطہ ہائے نظر پر مبنی ہے۔ مگر یہ امر بھی بہت دلچسپ و منفرد ہے کہ مولانا غیر مذہبی مزاج والے مغرب اور اسلام پسند مشرق دونوں میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ پاکستانی ادبی نقاد احمد جاوید کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا انسانی جذبات، احساسات اور وجود کے جملہ پہلوؤں کے نہایت عمدہ ترجمان ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ساڑھے سات سو سال گزرنے کے باوجود مولانا کی شہرت میں کمی نہیں آرہی ہے۔ ہر سال دنیا کے بڑے مطبوعاتی گروپ اِس فارسی mystic کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور چھاپتے ہیں۔
پروفیسر اومید صافی کا ماننا ہے کہ قرآن کے بعد سب سے زیادہ مسودے مولانا کی نظم مثنوی کے تیار ہوئے ہیں۔
مصنف Franklin Lewis نے بھی اپنی مشہور کتاب “Rumi: East and West, Past and Present میں ریسرچ کی بُنیاد پر اس بات کا تعین کیا ہے کہ مولانا مشرق و مغرب میں مختلف وجوہات کی بُنیاد پر مشہور ہیں۔
منطقی سا سوال یہ بنتا ہے کہ مولانا میں ایسا کیا ہے کہ وہ بظاہر مخالف اور مختلف نظریات رکھنے والے حلقوں میں بہرحال مشہور ہیں؟
اوسکر والڈ, مشہور آئرش ڈرامہ و ناول نگار اور شاعر نے کہا تھا “To be great is to be misunderstood” یعنی ممتاز یا عظیم ہوجانے سے (اس شخص کے متعلق) غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی مولانا کے ساتھ ہُوا ہے۔ ان کی شاعری کی مشہوری نے ایسی کتابوں کی مانگ بڑھا دی ہے جس میں اُن کے فکر و خیال کو عوام الناس کے لئے سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہو۔ یہ امر یقیناً مولانا کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنا۔ اُن کے متعلق لکھی گئی کتابیں زیادہ فروخت ہونے لگیں۔ مارکیٹ کی مانگ دیکھ کر دنیا میں مشہور گلوکاروں، self help صنف کے ماہرین، motivational اسپیکرز اور مغربی روحانیت پرستوں نے اُن کے کلام کو عام فہم بنا کر مختلف اصناف ( گانے، ترجمے، مراقبے وغیرہ) میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس کاوش کے صارف اور سامع زیادہ تر سیکولر لوگ تھے۔ اسلیئے جانے انجانے میں کوشش کی گئی کہ مولانا کو ایک غیر مذہبی اور انسان دوست شاعر کی صورت پیش کیا جائے ۔ دوسرے الفاظ میں اُن کی شاعری سے اسلام کو ناپید کیا گیا۔ اس عمل کو پروفیسر اُومِید صافی روحانی نو آبادیات یا Spiritual colonialism سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن و احادیث مولانا کے کلام کا جزو لا ینفک ہیں۔
اگلی قسط میں کوشش ہوگی کہ مولانا کے کلام سے آگہی اور فہم پر روشنی ڈالی جائے۔ (جاری ہے)

ضمیر عباس کا تعلق گلگت۔بلتستان سے ہے اور وہ اس وقت ایک پبلک سیکٹر ادارے کے سربراہ ہیں۔ ادب و سماجی موضوعات بلخصوص رومی پر ان کی انگریزی اور اردو زبانوں میں تحریریں مختلف قومی و مقامی اخبارات میں شاع ہوتے رہتے ہیں۔