Baam-e-Jahan

امریکی سامراج اور ایرانی ریاست

عمار علی جان

امریکی سامراج نے اسرائیل نامی اپنی فوجی چوکی کے دفاع میں ایران پر حملہ کردیا ہے۔ امریکہ نے حملے میں فردو سمیت تین نیوکلیر تنصیبات پر حملے کرنے کا دعوی کیا ہے جبکہ ایران نے دعوی کیا ہے کہ امریکی حملہ ناکام ہوگیا یے کیونکہ اس نے ایٹمی اثاثے کچھ ہفتے قبل کسی اور مقام پر منتقل کردیئے تھے۔ حقیقت کیا ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ حملہ امریکہ کا ایرانی ریاست اور ایران کی عوام کے خلاف اعلان جنگ یے۔

یہ حملے اس وقت ہورہے ہیں جب ایران ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کرہا تھا۔ اسرائیل نے پہلے حملے میں ملٹری کمانڈروں اور نیوکلئر سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ مزاکراتی ٹیم کے ممبران کو بھی شہید کردیا تھا۔ درحقیقت مسئلہ ایٹمی ہتھیاروں کا نہیں۔ شام عراق یمن لیبیا اور لبنان میں کونسے ایٹمی ہتھیار تھے؟ غزہ میں جن سکولوں ہسپتالوں پر بمباری کی گئی ہے وہاں پر کونسے ایٹمی ہتھیار تھے؟ مقصد صرف اور صرف ان تمام ریاستوں اور مزاحمتی گروہوں کی تباہی ہے جو سامراج کے خلاف کسی بھی قسم کا مقابلہ کرسکے۔ پورے خطے کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے اس کے وسائل اور معدنیات پر قبضے کا منصوبہ بہت عرصے سے تیار ہے جس میں آخری رکاوٹ ایران ہے۔ صہونی اور امریکی سامراج اب مل کر اس چٹان کو گرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

وہ سرکاری دانشور اب خاموش ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ٹرمپ کی نوبل پرائز کی نامزدگی کا یہ کہہ کر دفاع کررہے تھے کہ اس کے ذریعے پاکستان ٹرمپ کو روکنے پر مجبور کردے گا۔ ان کم عقلوں کو یہ علم نہیں ہے کہ سامراج ایک شخص کی ذاتی نرگسیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک معاشی اور سیاسی نظام ہے جس کی یہ مجبوری ہے کہ وہ دیگر ممالک کو مسلسل تابع رکھ کر ان کے وسائل پر قبضہ کرسکے۔ جو بھی ملک مزاحمت کرتا ہے، پابندیاں، رجیم چینج اور بمباری اس کا مقدر بنتی یے۔ اس سے پہلے وہ کم عقل جو سوچتے تھے کہ ٹرمپ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کروائے گا، وہ بھی اتنے ہی بیوقوف تھے کیونکہ سامراجی نمائندے جمہوریت یا انسانی حقوق میں نہیں، صرف قبضہ گیری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

جو دوست نظریاتی محاذ پر لڑ رہے ہیں، وہ ان لوگوں سے ہوشیار رہیں جو اس لڑائی میں یہ کہہ کر پوزیشن لینے سے انکار کررہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایران میں بھی مسئلے ہیں۔ اس لئے ایران کی حکومت کے بجائے ہمیں "ایران کی عوام” کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ اس سے زیادہ بے معنی اور سیاسی طور پر غیر سنجیدہ بات نہیں ہوسکتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ صہونی ریاست کو نسل کشی کرنے پر امریکہ کہ جانب سے نوازا جارہا یے جبکہ ایران لو اسی نسل کشی کے خلاف مزاحمت کاروں کی مدد کرنے پر سزا دی جارہی ہے۔ ایران اور اسرائیل میں اس گھڑی مماثلت تلاش کرنا بدترین اخلاقی بددیانتی ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی اور امریکہ نے جن ممالک پر بھی جارحیت کی ہے، ان قدیم تہزیبوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ شام عراق اور لیبیا ایک زمانے میں عرب دنیا کی تہذیب کے گڑھ سمجھے جاتے تھے اور آج وہاں پر ہر علاقے میں مختلف gangsters کا راج یے۔ غزہ میں امدادی کیمپوں پر اسرائل کا قبضہ ہے جس پر وہ مسلسل بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر گولیاں برساتا ہے۔ یہی حال وہ ایران کا کرنا چاہتے ہیں تاکہ تمام وسائل پر مغربی کمپنیوں کا قبضہ ہو اور رضا پہلوی جیسے وطن فروش امریکہ کی کٹھ پتلی بن کر بیٹھے ہوں۔

ایسے میں "ایرانی عوام” یا لیبیا کی عوام یا شام کی عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کا کیا مطلب ہے جب آپ ان ممالک میں موجود اس واحد قوت کو رد کردو جو ان کا دفاع کرسکتی ہیں؟ کیا مغربی لیفٹ کے چند دانشور ایرانی عوام کا ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرکے امریکی اور صہونی حملے توکیں گے؟ یا civil society مظاہرے کرکے روکے گی جو اسرائیل کی غزہ میں 20 ماہ سے جاری نسل کشی کو نہیں روک سکی؟ واحد قوت جو ایران کی عوام کو نسل کش ریاست کی مستقل غلام بننے سے روک سکتی ہے وہ ایرانی ریاست اور اس کی افواج ہیں۔ جو بھی شخص اس وقت اگر مگر کرکے اس واحد قوت کے حق میں نہیں بول سکتا جو ایرانی عوام کا دفاع کرسکتی ہے، وہ در حقیقت ایرانی عوام کا دشمن ہے اور ہمیں اسے کبھی بھی سنجیدہ نہیں لینا چاہئے۔ ایران پر حملے کا مقصد ایرانی ریاست کو تباہ کرکے ایرانی عوام کو غلام بنانا ہے جبکہ ایرانی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا مطلب ایرانی ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو اس وقت صہونی ریاست اور امریکی سامراجی غلبے کے آگے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرکے تاریخ رقم کررہی ہے۔

ہمارے پورے خطے میں آگ بھڑک رہی ہے۔ ہماری سالمیت ایران کی سالمیت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ جنگ ثابت کررہی ہے کہ شمالی کوریا چین اور پاکستان کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ درست تھا ورنہ اب تک تمام ممالک پر حملہ ہوچکا ہوتا۔ ہمیں اپنے خطے کے ممالک کے ساتھ پرانی رنجشیں بھول کر ہنگامی بنیادوں ہر دفاعی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر حکمران ڈالری جنگوں کے چکر میں اغیار کا ساتھ دیں گے تو ان کے پاپا جونز اور عیاشیاں شائد چلتی رہیں لیکن ہمارا خطہ برباد ہوجائے گا۔ ترقی پسندوں پر لازم ہے کہ وہ ان تمام رجحانات کو جوڑیں جو امریکہ سے ہٹ کر بیجنگ، تہران اور ماسکو کی طرف دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور جو نام نہاد لیفٹ اور لبرل اس نسل کشی اور جارحیت کے دوران چین اور امریکہ، اور اسرائیل اور ایران میں مماثلت تلاش کررہے ہیں، ان کا مقام نظریاتی کوڑے دان کے سوا اور کچھ نہیں۔

دعا ہے کہ ایران کو اس جارحیت کے خلاف ایک تاریخی کامیابی نصیب ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے