Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان: استعماری قوتوں کے شکنجے میں

لکسس ہوٹل سے چائنہ سرحدی تجارت تک نو آبادیاتی استحصال

فرمان بیگ

متنازعہ گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ میں قائم لکسس ہنزہ نامی ہوٹل کا معاملہ محض ایک سادہ واقعہ نہیں بلکہ خطے پر مسلط ایک وسیع تر استعماری نظام کی علامت ہے۔ یہ نظام گلگت بلتستان کو ایک کالونیل مینڈیٹ کی طرح چلا رہا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد خطے کے قدرتی وسائل کو بے رحمی سے نوچ کر باہر منتقل کرنا اور مقامی آبادی کو بااختیار بنانے کی کسی بھی کوشش کو کچل دینا ہے۔ کالونیل نظام نے مقامی قیادت کو خاموش کرانے، گرفتاریوں، حقیقی سیاسی آوازوں کو پابند سلاسل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اب تو یہ لگتا ہے کہ وہ کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔

چائنہ بارڈر تجارت جو گلگت بلتستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی تباہی اس کالونیل استحصالی ڈھانچے کو واضح کرتی ہے۔ نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کو طاقت کے زور پر قابض کر دیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں کو ایک منظم طریقے سے چائنہ سرحدی تجارت کی سرگرمیوں سے باہر کر دیا گیا ہے۔ سلک روٹ ڈرائی پورٹ ٹرسٹ (سوست) پر گلگت بلتستان کے مقامی تجارت پیشہ افراد کا سامان گزشتہ ایک سال سے کسٹم کلیئرنس نہ ملنے کی وجہ سے گل سڑ کر تباہ ہو رہا ہے، جبکہ نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کی گاڑیاں بغیر کسی پوچھ گچھ اور بلا کسی روک ٹوک کے چند گھنٹوں میں کسٹم کلیئر ہو کر جا رہی ہیں۔ اس بات کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں کہ آیا این ایل سی ٹیکسز شفاف طریقے سے ادا کر رہی ہے یا نہیں؟

دوسری جانب چائنہ کے سرحد سے منسلک کاروباری افراد احتجاج اور دھرنے دے رہے ہیں۔ یہ احتجاجی دھرنے بظاہر تو چائنہ کے سرحدی تجارت سے وابستہ افراد کے مفادات کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کے منتظمین وہی ہیں جو غیر منصفانہ پالیسیوں سے براہ راست فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور جن کے کاروبار کوئی خاص متاثر بھی نہیں ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً عام تاجر جن کا سامان گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے سوست پورٹ پر پڑا تباہ ہو رہا ہے، کسی بھی قسم کی کوئی حل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، سوائے کاغذی کاروائیوں اور غیر واضح وعدوں تک محدود ہے، جن پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سرحدی تجارت سے وابستہ افراد میں مایوسی مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

دوسری طرف گلگت بلتستان میں میگا پروجیکٹس کے ٹھیکے این ایل سی اور ایف ڈبلیو او کے پاس ہیں۔ سیاحت کے شعبے میں گرین ٹورازم نامی کمپنی کو گلگت بلتستان کے سرکاری اثاثوں کو کوڑیوں کے بھاؤ کرایہ پر دیا گیا ہے۔ اسی طرح معدنیات کی کان کنی جیسے اہم معاشی شعبے طاقتور اشرافیہ اور غیر ملکی ملٹی نیشنلز کے گٹھ جوڑ کے قبضے میں جانے والے ہیں۔

عطاء آباد جھیل کے کنارے قائم ہوٹلوں کے سیوریج کا گندا پانی جھیل میں جا رہا ہے۔ لکسس جیسے طاقتور مافیہ کی سرکاری سرپرستی جاری ہے۔ لکسس ہوٹل کے خلاف وقتی کارروائی عوامی دباؤ کو کم کرنے کا حربہ ہے، جس کے بعد گزشتہ کارروائیوں کی طرح کاروبار پھر سے معمول پر آ جائے گا۔ رہی بات ماحولیاتی آلودگی کی، تو گلگت بلتستان میں یہ ماحولیاتی قوانین کی کھلم کھلا پامالی ہے، جس کی وجہ سے خطے کے نازک ماحولیاتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ معاشی ترقی کے نام پر گلگت بلتستان کے وسائل کو نوچنے کے باوجود اس کے معاشی فوائد مقامی آبادی تک نہیں پہنچائے جا رہے۔ حکومت تمام معاشی وسائل سے باہر کے سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں اور اشرافیہ کی جیبیں بھر رہی ہے۔ مقامی لوگوں کو نہ روزگار اور نہ ہی تجارت میں مناسب مواقع ملتے ہیں، نہ ہی ترقی میں حقیقی شراکت داری۔ ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی (EPAGB) جیسے اداروں کا لکسس ہنزہ کے خلاف جرمانے اور تعمیری خامیوں کے اعتراف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طاقتور کے مفادات کے سامنے قانون بھی بے بس ہے۔ یہ سب اس بات کی گواہی ہے کہ گلگت بلتستان کے وسائل پر ایک غیر مقامی استعماری طاقت کا قبضہ ہے، جس سے حکومتی پالیسیاں اور انتظامیہ فعال طور پر تقویت پہنچاتی رہی ہیں۔

اس پس منظر میں گلگت بلتستان کے باسیوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسائل کی جڑیں انفرادی نااہلی یا بدقسمتی میں نہیں، بلکہ ایک منظم استحصالی نظام میں ہیں۔ مقامی حکمران اشرافیہ اور پاکستانی حکمران اشرافیہ اس عوام دشمن نظام کے ذریعے بنے ہوئے ہیں۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ اس کالونیل مینڈیٹ کی حقیقی ساخت اور اس کے حربوں اور اپنے خطے کے وسائل پر اس کے ناجائز قبضے کو سمجھیں۔ حقیقی تبدیلی کا راستہ شعور، منظم مزاحمت، مقامی قیادت کی بحالی اور خطے کے وسائل پر مقامی آبادی کے حق ملکیت و انتظام کے واضح مطالبے سے ہو کر گزرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے