Baam-e-Jahan

فلم : منتھن اور انقلاب

سرمد ادل سولنگی

ستر کی دہائی میں ریلیز ہونے والی شیام بینیگل کی فلم "منتھن” اڑتالیس برس بعد کانز فلمی میلے میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔”منتھن” ایک ایسی فلم تھی جسے بنانے میں پانچ لاکھ کسانوں کی مالی معاونت حاصل رہی۔

ہندی آرٹ فلموں کے دیوتا سورگواسی شیام بینیگل نے کئی سال قبل بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا ‘ "منتھن” کو گجرات کوآپریٹو ملک مارکیٹنگ فیڈریشن کے پس منظر میں تخلیق کیا گیا، اور اس کے لیے مالی معاونت کسی پروڈکشن ہاؤس یا سرمایہ دار نے نہیں، بلکہ خود ہاریوں نے دی۔ پانچ لاکھ کسانوں نے ایک ایک روپیہ دے کر اس فلم کو ممکن بنایا۔’

منتھن کے بارے میں

فلم میں ڈاکٹر راؤ (گریش کرناڈ) ایک آدرش وادی ڈاکٹر کا کردار ادا کر رہا ہے، جو شہر سے ملک کوآپریٹو شروع کرنے کے لیے آتا ہے، جب کہ مشرا (امریش پوری) ایک دودھ منڈی کا مالک ہے جو کم قیمت پر دودھ خرید کر ہاریوں کا استحصال کرتا ہے۔

پوری فلم گجرات کے ایک گاؤں میں فلمائی گئی ہے، جو اعلیٰ اور پسماندہ ذاتوں میں بٹا ہوا ہے، اسی گاؤں میں ایک دلت (پسماندہ طبقے کی) عورت بندو (سمیتا پاٹل) بھی رہتی ہے۔ سمیتا پاٹل..! جسے آنکھوں سے اداکاری کرنے کا فن آتا تھا، وہ جب بھی فلم میں نظر آتی ہے، اسکرین پر چھا جاتی ہے۔

تمام باتوں کے علاوہ فلم میں ڈاکٹر راؤ اور بندو جو دونوں شادی شدہ ہیں، لیکن دونوں میں ایک خاموش قربت ہے، ایک ہم آہنگی ہے جو روایتی فلمی رومان سے ہٹ کر، مقصد کی رفاقت کو بیان کرتی ہے۔ ایک شہری، تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ذات والا ڈاکٹر اور ایک دیہاتی، گنوار، پسماندہ طبقے کی عورت ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

گریش کرناڈ کا کردار بظاہر بھارت میں دودھ کا انقلاب لانے والے ورگیز کورین سے متاثر نظر آتا ہے، ورگیز کو بھارت میں "سفید انقلاب” کا بانی سمجھا جاتا ہے جو بھارت میں ڈیری کے شعبے میں انقلاب لائے تھے ۔تمام مایوسیوں اور ملک کوآپریٹو کے معاملے سے ہٹ کر یہ فلم ایک مثبت تبدیلی اور خیالات کی ایک نئی قسم کا طوفان لے کر آتی ہے۔

جس کی ایک مثال فلم میں نصیر الدین شاہ (بھولا) کا کردار ہے، ایک نوجوان دلت ہاری جسے اپنا حق نہ مل سکا، اُسے شہری ڈاکٹر راؤ کے آدرشی خیالات پر بھی کوئی یقین نہیں آتا، اس لیے وہ ملک کوآپریٹو کا حصہ بننے سے انکار اور مخالفت کرتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اٹل، ضدی، لڑاکا بھولا نہ صرف کوآپریٹو تحریک کا حصہ بن جاتا ہے بلکہ آخر میں جب مختلف دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹر راؤ کا تبادلہ کیا جاتا ہے تو بھولا گاؤں کے دلتوں کو سمجھاتا ہے اور انہیں کوآپریٹو سوسائٹی کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے راضی کر لیتا ہے۔

اس کے علاوہ مقامی زبان، لہجہ، باڈی لینگویج ہو یا چہرے پر اندرونی غصے کے تاثرات کو اسکرین پر پیش کرنے کا عمل، نصیر الدین شاہ نے بھولا کے کردار کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے اس فلم کے لیے شیام بینیگل اور ورگیز کورین کو خاص طور پر دوسرے ملکوں میں کوآپریٹو پر مبنی تحریک کے بارے میں آگاہی کے لیے یو این او ہیڈ کوارٹر میں بلایا گیا، جہاں "منتھن” کے شو کا انعقاد بھی کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ فلم روس اور چین میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

1976ء میں بننے والی فلم میں دیہاتی زندگی کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے اور مسائل ایسے ہیں جو آج بھی جوں کے توں برقرار ہیں۔

فلم میں ایسے ہاری ہیں جو کم قیمت پر دودھ بیچنے پر مجبور ہیں، جن کا استحصال ہو رہا ہے بھارت اور پاکستان( پاکستان سے مراد پنجاب) کے بڑے یونٹ/صوبے چھوٹے یونٹوں/صوبوں میں آج بھی کسان اپنی فصل کی اصل اور مناسب قیمت حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی سرکار نے اب اس کا ایک حل یہ تلاش کیا ہے کہ سندھو ( دریائے سندھ) پر نہریں بنائیں جائیں تاکہ نہ پانی آگے جائے گا نہ فصل ہوگی نہ ہر بار کا رونا ہوگا اور سندھ گزشتہ چھ ماہ سے اس منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ معاف کیجئے گا لیکن میں موضوع سے ہٹ رہا ہوں، دراصل مجھے بات کرنی تھی منتھن کی۔

"منتھن” 48 برس بعد کانز فلمی میلے میں گزشتہ سال ایسے وقت میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جب امریش پوری، گریش کرناڈ اور سمیتا پاٹل آنکھیں موندے برسوں بیتا چکے ہیں، یہ واحد بھارتی فلم ہے جسے کلاسک فلم کی کیٹیگری میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ فلم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر انقلاب کے پیچھے قربانی، یکجہتی، اور یقین ہوتا ہے – پھر چاہے وہ پانچ لاکھ کسانوں کا ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو اگر وہ مثبت تبدیلی پر خرچ ہو رہا ہے تو پھر روشن صبح کی امید رکھنی چاہیے جو آج نہیں تو کل یقیناً آنی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے