پروفیسر عاصم سجاد اختر
ایران دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے، اور ان چند ممالک میں شامل ہے جو کبھی باقاعدہ طور پر یورپی نوآبادیاتی قبضے کا شکار نہیں رہا ۔
آج جب خونخوار صیہونی جنگی طیارے اس کی فضاؤں میں منڈلا رہے ہیں، اور امریکہ سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ بھی اپنے بم ان چیٹ طیاروں میں فٹ کرے جو پہلے ہی اندھا دھند بم گرائے جا رہے ہیں، تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ صیہونی جارحیت کا یہ تازہ ترین حملہ ہم سب پر اثر انداز ہوگا۔
اس میں کوئی راز نہیں کہ سامراجی طاقت اور اس کی اسرائیلی چوکی کیا چاہتے ہیں — مسلم دنیا میں اپنی طاقت کو چیلنج کرنے والے واحد ملک کا خاتمہ۔ سامراجی کٹھ پتلی شاہ کے بیٹے رضا پہلوی ، جو 1979 کے اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ہٹائے گئے ، کو منظرِ عام پر لا کر مغربی میڈیا اب ایرانی حکومت تبدیل کرنے کی خواہش کو چھپانے کی بھی زحمت نہیں کر رہی ہے ۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی کی صورت کیا ہوگی؟ بالکل ویسی ہی جیسی افغانستان، عراق، شام، لیبیا میں سامراجی مداخلت کے نتیجے میں ہوئی، اور جیسی یمن و لبنان میں جاری ہے؟
اگر آج یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ایران پر قابض مذہبی و آمرانہ حکومت کو ختم ہونا چاہیے، تو کل یہی بات افغان طالبان، صدام حسین، شام کے اسد خاندان اور معمر قذافی کے بارے میں کہی گئی تھی۔ ان حکومتوں کی زیادتیوں پر پردہ ڈالے بغیر بھی یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سامراجی مداخلت نے ان ممالک کو غیر معمولی خونریزی، نفرت اور نہ ختم ہونے والی جنگ کے سوا کچھ نہیں دیا۔
ایران ان تمام ممالک سے بڑا اور طاقتور ملک ہے جو کہ سامراجی تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ حزب اللہ سمیت کئی شیعہ مزاحمتی تنظیموں پر گہرا اثر ورسوخ رکھتا ہے، اور حماس و فلسطینی جدوجہد کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔ آبنائے ہرمز جیسے اہم آبی راستے پر ایران کا کنٹرول ہے، جہاں سے روزانہ کم از کم 20 فیصد عالمی تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی کی صورت کیا ہوگی؟
اب اس امر پر کسی کو ابہام کا شکار نہیں ہونا چایئے کہ عرب شیخوں کی ملی بھگت کے باوجود، واشنگٹن اور تل ابیب کی جانب سے ایران کو زیر کرنے کی کوشش خطے اور دنیا کو مزید غیر مستحکم کرے گی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے امریکہ کی تمام سامراجی جنگیں ‘پیکس امریکانا’ ( امریکی امن ) کے نام پر لڑی گئیں، جن کا نتیجہ مسلم دنیا، مشرقِ بعید، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں تباہی کی صورت میں نکلا۔
یہی تناظر پاکستان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ آرمی چیف [عاصم منیر] کی ڈونلڈ ٹرمپ سے واشنگٹن میں ‘غیر متوقع’ ملاقات یہ اشارہ دے سکتی ہے کہ پاکستان کی عسکری اشرافیہ ایک بار پھر ، شاید کرپٹو کرنسی اور معدنیات کی تلاش کے معاہدوں کے بدلے امریکہ کی اگلی جنگ میں ‘فرنٹ لائن اسٹیٹ’ کا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے۔ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی آمریتوں نے افغان جنگوں میں امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستانی معاشرے کو شدید نقصان پہنچایا جن کے اثرات میں شدت پسند دائیں بازو کا طاقت ور ہونا ، اور ‘کلاشنکوف کلچر’ آج بھی دیکھتے ہیں ۔
اگر ہم بھول گئے ہوں تو یہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ یہ تباہ کن عمل آج بھی کرم ایجنسی جو خیبر پختونخوا کا واحد شیعہ اکثریتی ضلع ہے میں کھیلا جا رہا ہے ، جہاں ریاست تقریباً ایک سال سے بند سڑکیں کھلوانے میں ناکام ہے۔ مین اسٹریم میڈیا جسے ‘فرقہ وارانہ’ تشدد کہہ کر ٹال دیتا ہے، وہ ایران پر جنگ کی صورت میں اور شدت اختیار کر سکتا ہے۔
قلیل المدتی طور پر، ہم پاکستان میں پہلے ہی صیہونی جارحیت کے بڑے اثرات دیکھ رہے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو اسرائیلی حملوں کے آغاز سے بند ہے۔ اس سرحد کے آر پار تجارت بلوچستان کے عام لوگوں، خاص طور پر مغربی حصوں، کے لیے سب سے بڑا ذریعہ معاش ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق سالانہ تین ارب ڈالر کا مال اس سرحد سے گزرتا ہے۔
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں ایرانی ڈیزل اور پیٹرول استعمال ہوتا ہے۔ دیگر اشیائے صرف بھی بڑی مقدار میں سرحد پار سے آتی ہیں۔ جبکہ ‘ ماہرینِ ‘معیشت اور بیوروکریٹس اس ‘کالی معیشت’ سے ہونے والے مبینہ نقصان پر نوحہ کناں ہوتے ہیں، تو وہ ماہر معاشیات’ اور بیوروکریٹس اس بات پر نوحہ کنان اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کس طرح ریاست اور سرمایہ کے گٹھ جوڑ سے بلوچستان کی معدنی دولت کو لوٹا جا رہا ہے، جبکہ مقامی آبادی ،چند لوگوں کے سوا محرومی اور جبر کا شکار رہی ہے۔
روزانہ کا تجارتی سلسلہ رکا ہوا ہے، اور ریاستی جبر عروج پر ہے، اس صورتحال میں مزید بلوچ نوجوان کو پہلے سے جاری مسلح جنگ میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں ۔ ایران کی حکومت بھی سرحد کے اُس پار بلوچوں ،عورتوں، غیر شیعہ اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کے ساتھ ظلم کرتی آئی ہے؛ کردوں کی طرح بلوچ بھی ریاستوں کے ہاتھوں پِس رہے ہیں، اور جغرافیائی کھیل میں مہرے بنائے جا تے ہیں ؛ ان کو دیوار سے لگائے جانے کے بعد مجرم قرار دئے جا تے ہیں۔
تاہم، ان تمام مماثلتوں کے باوجود، ایران اور پاکستان میں ایک بنیادی فرق ہے: ایران سامراج کے خلاف کھڑا ہے، جبکہ پاکستان اس سے سودے بازی کر رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک کے حکمرانوں نے ایران کے عوام تو دور کی بات اس کی حکومت سے منہ پھیر لیا ہے۔ یہ حکمران ہمیں ‘حقیقی سیاست کاری’ کے بھاشن دیتے ہیں، لیکن ہماری خطے اور دنیا کے مظلوم ترین لوگوں کے نقطۂ نظر سےہمیں بالکل مختلف سیاست کی ضرورت ہے۔
یہ مضمون روزنامہ ڈان میں 20 جون 2025 کو شائع ہوا تھا، جسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے)
مصنف: قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں تدریس سے وابستہ ہیں۔