Baam-e-Jahan

ایران پر حملہ – سامراجی بربریت کے خلاف عالمی محنت کشوں کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت!

نوید خان

ایرانی محنت کش عوام پر ظالم صیہونی اسرائیلی ریاست کی جارحیت اور سامراجی جنگ کے خلاف عالمی مزدور محنت کش طبقے و ان کی پارٹیوں، طلباء تنظیموں انسانی حقوق اور ماحولیاتی تحفظ کی تنظیموں سے فوری رد عمل کی اپیل۔
مزدوروں، محنت کش عوام، مظلوم و محکوم قومیتوں اور اُفتادگانِ خاک کے رگوں سے خون کا ایک ایک قطرہ چوسنے، ان کی بنیوں کو چبانے اور منافع کی حوس کی خاطر پوری دنیا کو خاک و خون میں نہلانے والے سرمایہ دار اور ان کا ظالم حاکمانہ بازاری نظام، سرمایہ داری تاریخی شدید استحصال، ظلم و زیادتیوں، سرمائے کی بے مثال اجتماع و ارتکاز اور تخریب کے بدترین سازو سامان اکٹھے کرنے کے بعد اب نسل انسان کو نابودی کے گہرے گڑھے کے کنارے لاکر کھڑی کر کے جنونی جنگوں کے ذریعے پوری انسانیت کو اس گڑھے میں دھکیلنے کی پاگل پن میں

مبتلا ہیں۔
سرمائے کے مسلسل اجتماع اور منافع کی شدید حوس اور دنیا پر یکطرفہ سامراجی غلبے جیسی سرمایہ دارانہ وحشت کے نظام کی رہبری ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے نیم پاگل، نیم فاشست حکمران اس نظام کے ہمہ جہت زوال کا اظہار ہیں۔ زیر زمین ذخائر کے لحاظ سے امیر ترین اور خوبصورت خطے افریقہ کو سامراجیت نے غربت، افلاس، بھوک، بے روزگاری، سنگین جرائم اور قتل عام کا مسکن بنا دیا ہے۔ لاطینی امریکہ کے وسائل پر قبضے اور انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے سازشوں اور مختلف ریاستوں کو اپنے گماشتہ حکمرانوں کے ذریعے دست و گریباں کرتے رہے ہیں۔ سامراجی جنگ اور اس کی چیرہ دستیوں سے اب یورپ بھی محفوظ نہیں، سامراجی وسعت پسندی کے لیے یوکرین کو طاقتور ریاست روس کے ساتھ جنگ میں پھنسا کر دونوں جانب لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کروایا، امریکہ نے یورپ کو گیس کی ترسیل کی پائپ لائین اڑانے کی سازش کی، جس سے مغربی یورپ میں عام صارفین اور صنعت کے لیے گیس کی قیمت کئی گنا بڑھی۔ جس کی منافع بخش فروخت اور ترسیل خود امریکہ نے اپنے ذمہ لی، ایشیاء میں امریکی سامراج اپنی عالمی اجارہ داری، ڈالر کے سامراجی تسلط اور پیٹروڈالر کے تسلسل کے سامنے چین کی معاشی و اقتصادی بڑہوتری، اس کے اثر و نفوذ اور ریاستی و تجارتی طاقت میں عروج کو خطرہ سمجھتا ہے۔ چین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے سامراج، چین کے گرد حصار قائم کر رہا ہے۔ حصار کے قیام کی ان کوششوں میں جنوبی اور مشرقی ایشیاء کا پورا خطہ چھوٹی اور بڑی جنگوں کی لپیٹ میں ہے حکومتیں گرانے اور اپنے گماشتوں کے ساتھ تبدیل کی جارہی ہیں۔
مشرق وسطی میں تیل کے ذخائر پر مستقل قبضے، گریٹر صیہونی اسرائیلی ریاست کی تشکیل روائیتی طور پر امریکہ مخالف حکومتوں کو تبدیل کرنے، شاہراہ ریشم کی رد میں متبادل روٹ کے قیام جیسے دیگر سامراجی مقاصد کے لیے امریکی سامراج نے مشرق وسطی کے نسبتاً پرامن، رو بہ ترقی ریاستوں کو جمہوریت اور آزادی کے نام پر برباد کرکے ان کی ناک میں غلامی کی نکیلیں ڈالیں۔ عراق پر ایک جھوٹے الزام کے ذریعے چڑھائی کی کہ صدام حسین کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، لاکھوں اِنسانوں کا قتل عام کیا، سماجی و شہری ادارے برباد کیے، فرقہ پرستی کے وہ بیج بوئے جس سے سامراج اب تک مختلف ممالک میں قتل و غارت اور وسیع تخریبی مقاصد پورے کرتا ہے۔ مصر کے نوجوانوں کی انقلابی تحریک کو پہلے رجعتی اخوانیوں کی حکومت کے ذریعے زائل کیا، پھر سعودی کی مدد سے فوجی آمریت مسلط کی۔ افریقہ کی سب سے خوشحال اور آسودہ ملک لیبیا کو بورژوا جمہوریت کا چوغہ چڑھانے کے بہانے اس کے تمام تانے بانے ادھیڑ دینے، گیس و تیل کے ذخائر پر قبضہ کرکے ملک کو ملک الطوافی میں دھکیل دیا۔ شام کی تاریخی اور شاندار تہذیب کو القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے ذریعے برباد کر ڈالا اور بالآخر اس تاریخی تہذیب کو القاعدہ کی وحشت کے سپرد کر کے تیل پر اپنا قبضہ جمالیا، جبکہ تاریخی شہر دمشق کے مغربی پہاڑ پر اسرائیل کے مورچے قائم کردیئے۔ شام میں امریکی گماشتہ پراکسیوں کے شانہ بشانہ لڑنے والی تنظیم حماس کے ذریعے اسرائیل میں دہشت گردی کا 7 اکتوبر کا الاقصی طوفان کا سٹیج سجایا گیا، جس نے انتہائی دائیں بازو کے صیہونی وحشی نیتن یاہو کو فلسطینی علاقوں خصوصاً غزہ کو مقتل گاہ بنانے کا موقع دیا۔ غزہ جو دو عشروں سے حماس اور اسرائیل کے بیچ بائیس لاکھ مظلوم انسانوں کی جیل جیسا تھا اس کے باسی اسی محدود اور بند جیل میں پچھلے بیس ماہ سے اپنے بچوں اور خواتین سمیت نہتے قتل ہوتے رہے ہیں۔ کیمپوں میں بے سروسامان معصوم فلسطینی جدید مہلک بموں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے آخری سرحد پر واقع ایران مشرق وسطیٰ کی حد تک واحد ملک بچا ہے جس کو امریکی سامراج اور اسرائیل اپنی بالادستی اور وسعت پسندی و قبضہ گیری کے خلاف رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس رکاوٹ کو راستے سے ہٹانے کے لیے سامراج نے وسیع انسانی تباہی کے ہتھیار رکھنے کا وہی جھوٹا بہانہ گھڑا، جس کو وہ عراق کے خلاف استعمال کر چکا تھا۔ عراق کی مکمل تباہی کے اور لاکھوں انسانوں کے ناحق قتل، انفراسٹرکچر اور معیشت کی تباہی کے ساتھ عراق کو وحشت کے جنگل میں دھکیلنے کے بعد امریکہ کو اعتراف کرنا پڑا کہ عراق کے پاس ایسے ہتھیار موجود نہیں تھے۔ ایران کے معاملے میں سامراج اور اس کی گماشتہ ریاستیں زیادہ وحشت اور درندگی کے ساتھ جارحیت پر اُتری ہیں۔ اس کے باوجود کہ ایرانی رجعتی مُلا رجیم نے عراق اور افغانستان پر سامراجی قبضے میں مکمل سہولت کاری کا مظاہرہ صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ اپنے پڑوسی دشمنوں سے نجات، جب کہ امریکی سامراج کے حملے سے بچنے کی خوشنودی حاصل کرنے کی خوش فہمی میں مبتلاتھی۔ ایران نے نہ صرف بصرہ کی طرف سے امریکی و اتحادی فوجوں کی عراق پر چڑھائی میں ہر قسم کا تعاون کیا بلکہ سامراجی قبضے کے بعد جب امریکہ کو مقتدیٰ الصدر اور مہدی ملیشیا سے مسلسل خطرہ اور تکلیف کا سامنا تھا، تو ایران ہی نے مقتدیٰ کو ایران میں بے خبر رکھ کر بغداد میں مہدی ملیشیا کو غیر مسلح کرنے میں مدد دی۔ اسی طرح افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی جارحیت اور افغانستان میں فوجی مداخلت کے وقت ایران نے افغانستان کے شمالی اتحاد کے کمانڈرز ہرات سے لے کر بدخشاں تک اپنی پراکسیوں کو امریکہ کی جھولی میں ڈالا، لیکن اس سے نہ تو ایران محفوظ ہوا اور نہ ہی سامراج کی خوشنودی حاصل ہوئی۔
اسرائیل کی ظالم صیہونی ریاست کی ایرانی حکومت کی تبدیلی کے عزائم کے ساتھ ایرانی محنت کش عوام پر بدترین جارحیت موجودہ عالمی تضادات سے بھرے ماحول میں ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی اور سامراجی بالادستی کی جارحیت اور چڑھائی کے اس جنون کو اگر عالمی محنت کش طبقہ اور طلباء نکیل نہیں ڈالتی تو جنگوں کی اس لڑی میں ایرانی عوام کے خلاف سامراج اور اسرائیل شکست کی خفت اور تاریخ کے پہیے کی درست سمت میں گھومنے کے عمل کو روکنے کی خاطر ایٹم بم کے استعمال کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ کیوں کہ ایران نے روس اور چین کے تعاون سے میزائل ٹیکنالوجی اور اس کی تیاری میں جس درجے کی صلاحیت حاصل کی ہے اس کے سامنے اسرائیل مکمل بے بسی کی تصویر نظر آرہا ہے۔ جہاں ایران کے عوام ان حملوں کے دوران بھی بازاریں کھلی رکھ کر رونق جمائے ہوئے ہیں بڑی بڑی ریلیاں نکال رہے ہیں وہاں اسرائیلی مسلح فورسز اور صیہونی آبادکار زیر زمین بنکروں میں چوہوں کی طرح چھپے ہوئے ہیں۔ جنگ کے اِبتدائی سات دِنوں میں ہی تل ابیب کا ایک تہائی شہر برباد ہوا ہے یہ شاید اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں ظلم زیادتی اور قتل عام کے خلاف خاموشی کی وہ قیمت ہے جو عام یہودی ادا کررہے ہیں۔ صیہونیت بذات خود سامراجی پراجیکٹ ہے جو یہودیوں کی تاریخی سامراج دشمنی اور اِنقلابی سرگرمیوں کا ہراول دستہ ہونے کی سزا ہے۔ صیہونیت نے جتنا نقصان یہودیوں کو پہنچایا ہے، جتنا انہیں عالمی سطح پر تنہائی میں دھکیلا ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ آج بھی سامراجی پراجیکٹ ظالم صیہونیت کو نہ سمجھنے والا عامیانہ زہن ایران کی طرف سے اسرائیل کی تباہی اور محنت کش عوام کی موت اور بربادی پر خوشیاں مناتے ہیں، جو اپنی نفس میں سامراجی عزائم کو تقویت دینا ہی ہے۔کیوں کہ ایرانی رجعتی مُلا رجیم کے ہاتھ بھی ایرانی محنت کش عوام اور مظلوم قومیتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ صرف اپریل کے مہینے میں رجعتی ملاؤں نے 110 افراد کو کرین کے ساتھ لٹکا کر موت کے گھاٹ اُتارا۔ رجعتی رجیم نے اپنی پوری تاریخ میں خواتین، ترقی پسند قوتوں، مظلوم قومیتوں اور محنت کش مزدوروں کو اپنی ظالمانہ، قاتل اور فاشسٹ پالیسیوں کے شکنجوں میں جھکڑے رکھا ہے۔ سامراجی پراجیکٹ صیہونی ظالموں کی غیر فطری اور قاتل ریاست کے خلاف رجعتی مُلاؤں کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی۔ محنت کش مزدوروں، طلباء تنظیموں، مظلوم قومیتوں خواتین اور تمام محنت کش عوام کو اس سرمایہ داری اور سامراجی طاقتوں کے خلاف اٹھنا ہوگا، جو ان تمام اذیتوں کی بنیادی اور اساسی وجہ ہے۔ جب تک سرمایہ داری ہے سامراجیت کے پاس اپنی عالمی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے جنگ کے علاوہ کوئی متبادل نہیں۔ ایران میں نہ سہی لیکن آنے والے وقتوں میں ایران سے زیادہ طاقتور ریاستوں کے خلاف جوہری ہتھیار کا استعمال ناگزیر بنتا جارہا ہے۔ عالمی محنت کش طبقے کے پاس یہ شاید آخری موقع ہے کہ جو اس عفریت کے خلاف اپنی آواز بلند کریں، محنت کشوں کے نظریات اور نعروں کو ایجنڈے پر لاکر سیاسی اُفق پر اپنی جدوجہد سے نقش کروائیں۔ نسل انسان بربریت اور سوشلزم کے درمیان انتخاب کے موڑ پر کھڑی ہے۔
لازم ہے کہ ہم جیتیں گے۔
طبقاتی جدوجہد
محنت کش مزدوروں، کسانوں، مظلوم قومیتوں اور خواتین کی تحریکوں میں سوشلزم کی آواز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے