فاروق سلہریا بشکریہ جدوجہد
گذشتہ ہفتے کالم نگار ایاز میر خبروں میں رہے۔ پہلے ایک ’انقلابی‘ تقریر کی وجہ سے، بعد ازاں تشدد کا نشانہ بننے کی وجہ سے۔
یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان پر حملہ قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ تشدد کوئی بھی کرے، کسی بھی نام پر کرے، ہم اس کے خلاف ہیں۔ معاشرے اور ریاست کی بنیاد دلیل پر رکھی جانی چاہئے ورنہ مہذب سماج جنم نہیں لے سکتا۔
آج کا موضوع ایاز امیر پر ہونے والا تشدد نہیں، ان کی ’انقلابی‘ تقریر ہے۔ یہ تقریر ایک مخصوص مراعات یافتہ مڈل کلاس، ریٹائرڈ فوجی، جمہوریت دشمن، وینا ملک سنڈروم کے شکار، فرسٹریٹڈ یوتھئے کی تقریر تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ایاز امیر فیصل واڈا کی طرح گفتگو نہیں کرتے۔ جس طرح فصیح و بلیغ انگریزی تحریر کرتے ہیں، ویسے ہی مہذب زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ پیغام البتہ وہی ہوتا ہے جو قوم یوتھ گالی گلوچ کے ذریعے دیتی ہے۔
وہ پیغام کیا ہے؟
”جو پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں، وہ چور ہے چاہے وہ سیاستدان ہو یا جرنیل، صحافی ہو یا عام شہری۔ جمہوریت میں ووٹ کا حق جاہل عوام کو نہیں ہونا چاہئے۔ معاشرے میں میرٹ (انصاف) ہونا چایئے اور میرٹ کا تعین پی ٹی آئی کرے گی، بریانی پر بکنے والی جاہل عوام کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا۔ ملک میں شریعت ہونی چاہئے، افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہونا چاہئے مگر ہمیں اجازت ہونی چاہئے کہ ہم گاڑی میں شہد کی بوتل رکھ کر لے جائیں یا بقول ایاز امیر شام کی محفل سجا سکیں“۔
ایاز امیر کسی زمانے میں وئیو پوائنٹ میں لکھتے تھے لیکن جس طرح مغرب کی بہترین یونیورسٹیاں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں، مظہر علی خان ایسی نابغہ روزگار ہستی بھی ایاز امیر کے اندر کے رجعتی فوجی کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
ان کے کالم میں ہمیشہ جمہوریت، محکوم قوموں، عام شہریوں کے لئے حقارت پائی جاتی ہے۔ بظاہر وہ لبرلزم کی بات کرتے ہیں مگر ان کا لبرلزم وہی ہے جسے دوستوسکی نے اپنے زمانے اور ملک کے سیاق و سباق میں ڈیلیٹانٹے لبرلزم کہا تھا۔
آج ان کو نواز شریف اور آصف زرداری صرف اس لئے چور نظر نہیں آ رہے کہ انہوں نے بدعنوانیاں کی ہیں۔ بھٹو زرداری خاندان اور شریف خاندان سے انہیں اس لئے اختلاف ہے کہ ریٹائرڈ فوجیوں کے جس گروہ کا وہ حصہ ہیں، اس نے عمران خان کو مسیحا مان لیا ہے۔ اس گروہ کو ہمیشہ سرے محل یاد رہتا ہے، جنرل ایوب خان کی لوٹ مار یاد نہیں آتی۔ مذکورہ انقلابی تقریر میں انہیں یہ کہنا تو یاد رہا کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں نواز شریف، زرداری اور فضل الرحمن نے مہروں کا کردار ادا کیا (جو بالکل درست بات ہے) مگر یہ ذکر کرنا بھول گئے کہ جب 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے ہابرڈ رجیم تشکیل دیا جا رہا تھا تو عمران خان کا کردار مہرے سے بھی بد تر تھا۔
نوے کی دہائی میں نواز شریف کو ”لاڈلے“ کا درجہ حاصل تھا۔ ان دنوں ریٹائرڈ کپتان ایاز امیر نواز لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا کرتے تھے۔ وئیو پوائنٹ کے دفتر آنے جانے کے نتیجے میں انہوں نے چے گویرا کا نام تو سن لیا لیکن سوچ اور مزاج ہمیشہ قبل از ضیا دور کے پی ایم اے والا ہی رہا۔ اس دور میں وہسکی پینا افسر میس کا کلچر تھا مگر جمہوریت کے بارے میں، بقول جنرل ایوب خان، تصور یہ تھا کہ یہ گرم موسم والے ملکوں میں نہیں پنپ سکتی۔ اس لئے گرم مرطوب موسم والے مشرقی پاکستان میں جب وہاں کے لوگوں نے جمہوریت کی جانب جانے کی کوشش کی تو فوجی آپریشن کرنا پڑا محض یہ یاد دلانے کے لئے کہ جمہوریت برفانی ملکوں میں ہی اچھی لگتی ہے۔
ایاز امیر ایک چھوٹا سا جنرل مشرف ہیں۔ کپتان کی سطح کا جنرل مشرف۔ پینا پلانا ٹھیک ہے۔ ناچ گانا، بغل میں کتا اٹھا کر تصویر کھنچوانا اور کبھی کبھی فیض کی شاعری…یہ سب ہونا چاہئے لیکن جمہوریت، سوشلزم، برابری، سیکولرزم، اکبر بگٹی وغیرہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ فی الحال کوئی جنرل مشرف دستیاب نہیں تو اب آخری امید عمران خان کو قرار دیا جا رہا ہے۔
عمران خان نہ صرف سویلین جنرل مشرف ہیں بلکہ ایاز امیر جیسے ریٹائرڈ فوجیوں کو عمران خان میں ایک فوجی بھٹو بھی دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ہر رجعتی فوجی کی طرح ایاز امیر کو بھی خواہش ایک ہٹلر جیسے مسیحا کی ہے، زیب داستاں کے لئے بے چارے چے گویرا کو خوار کر رہے ہیں۔ اس لئے ان کو عمران خان ہی آخری امید دکھائی دیتے ہیں۔
ایاز امیر صاحب! آخری امید عمران نہیں، عوام ہیں۔ آخری امید پی ٹی آئی کا نیو لبرلزم نہیں، سوشلزم ہے۔ آخری امید ہائبرڈ نظام نہیں، جمہوریت ہے۔ آخری امید عمران خان کی ’رحونیت‘ نہیں، سیکولرزم ہے…اور شام کی محفلیں تب تک ممکن نہیں جب تک بائیس کروڑ عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہو گا۔