عزیز علی داد
یہ دو ہزار اکیس کی بات ہے جب میں نے جرمنی سے میرے فکری استاد اور دوست پروفیسر ہرمن کروزمین کی نئی کتاب "ہنزہ میٹرز” کی ہنزہ میں تقریب رونمائی اور ادس پر اظہار خیال کے لیۓ ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس کی ایک مہینے پہلے سے تیاری کی اور اس تقریب کو جولائی کے مہینے میں رکھا کیونکہ اس مہینے ہرمین کروزمین ہنزہ آرہے تھے۔ یہ تقریب گنش کے پرانے گاؤں کے اس قدیم محلے میں منعقد ہونا تھی جسے آغاخان کلچرل سروسرز نے بحال کیا تھا۔ گاؤں کی کمیٹی سے اجازت لے کر سب تیاری مکمل تھی۔
جس دن پچھلے پہر تقریب ہونی تھی ، اس دن کی صبح میں بینرز اور سٹینڈیز لے کر ہنزہ پہنچا۔ تیاریوں میں مصروف تھا کہ گاؤں والوں سے فون آیا کہ ایجنسی اور حکومت کے لوگوں نے تقریب سے منع کیا ہے۔ وجہ پوچھنے کے لئے کوئی موجود نہیں تھا۔ گاؤں والوں نے بھی منع کردیا۔ مجھے مختلف ذرائع سے فون کے ذریعے تقریب نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ بہرحال کچھ بہادر دوستوں کے تعاون سے ہم نے ایک باغ میں ساٹھ سترافراد کی موجودگی میں سادہ سی تقریب منعقد کرلی۔
یہ بھی پڑیۓ:
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ اول)
۔ گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ دویٔم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ سویمٔ)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: سماجی ساخت اورنفسیات (حصہ چہارم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: تاریخ کا قتل (حصہ پنجم)
اس تلخ تجربے کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پاکستان میں اس وقت کی متنازعہ کردار سنتھیا رچی کو ایک صوبائی وزیر کی جلو میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے ساتھ نظر آئیں۔ اس خاتون کا کوئی اکیڈمک پس منظر نہیں تھا۔ وہ ایک بلاگر اور سوشل میڈیا کارکن تھی جنیں کچھ اداروں نے اپنے امیج بلڈنگ کے لیے پاکستان لایے تھے۔ ان پر پاکستانی وزیر پرہراسانی اور جنسی حملے کا الزام لگانے سے مشہور ہوئی تھی۔
وہ باقاعدہ ریاستی پروٹوکول میں پاکستان کے مختلف مقامات کے دورے کررہی تھی۔ انھیں قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے درمیان پاکر ایک بات سمجھ میں آئی کہ گلگت بلتستان کےطلباء کو جان بوجھ کر ایسے لوگوں سے آزادانہ طور پر ملنے دیا جارہا ہے تاکہ وہ حسن و جہالت کے طلسم میں بندھے رہ کر عقل و فکر سے دور رہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
۔ گلگت بلتستان میں حیوانی ،معاہدہ
اب اس حوالے سے کچھ خاموشی تھی تو کل سے یہ خبر چل رہی ہے کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کا ایک نوجوان ممبر جن کا تعلق وہاں کے اشرافیہ طبقہ ہے، حکومتی عہدیداروں کی جلو میں علاقے کے نوجوانوں کو تقریر کرکے ان کو تعلیم و ترقی کا بھاشن دے رہا ہے۔
ستم بالاۓ ستم یہ ہے کہ ہماری بچیوں کی عزت نفس مجروع کرنے کے لئے گرلز گائڈذ کوان کے استقبال کے لئے بلا کر کھڑا کیا گیا۔ اس پر سوشل میڈیا میں غم و غصہ کا اظہار فطرہ تھا۔ سماجی کارکنوں کی طرف سے یہ مطالبہ بلکل جایزٔ ہے کہ جن لوگوں نے گرلز گائڈز لے جانے کی اجازت دی ہے اس کا سخت محاسبہ ہونا چاہئے۔ قومی اسمبلی کا یہ ممبر جو اپنے قبیلے کا سردار ہے کیا بلوچستان میں اپنے بچیوں کو ہمارے استقبال کے لئے لانے کی سکت رکھتا ہے؟ اس میں یہ ہمت ہی نہیں۔ ہماری کشادہ دلی اور روشن خیالی ان کے لئے ہونی چاہئے جن کے دل اتنے ہی کشادہ اور دماغ اتنا ہی روشن ہو۔
جس طرح گلگت بلتستان جنوب سے آنے والی غیر معیاری اور گٹھیا اشیاء کا گودام بن گیا ہے، اسی طرح باقی ماندہ پاکستان کا غیر معیاری ہیومن ریسورس اور گھٹیا تصورات کا سکریپ یا کباڈ یہاں بیجھا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارا ذہن و معاشرہ بھی کباڈ خانے میں تبدیل ہورہا ہے
عزیز علی داد
یہاں بات اس ایک دورے پر موقوف نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ اس سوچے سمجھے منصوبےکا حصہ ہے جس کے ذریعے عطائیوں، اور جعلی سماجی و مذہبی انفلوئنسرز اور شخصیات کو ہمارے تعلیمی اداروں میں دورے اور نوجوانوں کے ساتھ نشستیں رکھی جاتی ہیں تاکہ وہ بھی نقلی چیزوں کی کاپی بنیں نا کہ وہ بنیں جو ان کو بننا چاہئے۔ اسی لئے محقیقین، مورخین اور سوچنے والوں کو نوجوانوں سے دور رکھا جا رہا ہے۔
اس ساری صورتحال کو دیکھ کر میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ جس طرح گلگت بلتستان جنوب سے آنے والی غیر معیاری اور گٹھیا اشیاء کا گودام بن گیا ہے، اسی طرح باقی ماندہ پاکستان کا غیر معیاری ہیومن ریسورس اور گھٹیا تصورات کا سکریپ یا کباڈ یہاں بیچھا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارا ذہن و معاشرہ بھی کباڈ خانے میں تبدیل ہورہا ہے۔
میری گلگت۔بلتستان کے نوجوانوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے آپ کو جنوب سے آنے والے انسانی اور ذہنی کرونوں اور بونوں سے بچائے۔ ورنہ وہ ساری زندگی کسی اور کی نقل بن کر این سی پی کی زندگی گزارینگے۔
عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ دی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں