تحریر: عزیز علی داد
گلگت بلتستان میں اگر کاروبار سیاحت کا نمونہ، اس کا طریقہ کار یا واردات اور اس کے نتائج دیکھنے ہیں تو کچورا پائین کے قبضہ شدہ جھیل پہ شنگریلا ہوٹل اور اس کے اردگرد بنے تفریحی عمارات کو دیکھنا ہوگا۔ یہ شنگریلہ ہوٹل ہی ہے جس نے آنے والے ریاستی ماڈل، استحصال اور نوآبادیاتی تاریخ کا پروٹو ٹائپ یعنی نقش اولین یا اولین ماڈل کی تشکیل کی۔
نفسیات کی زبان میں نقش اول سے مراد وہ اولین نمونہ ہے جو بعد میں اس طرح کے نمودار ہونے والی شخصیت کے نفسیاتی اور شخصی خدوخال متعین کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اسکندراعظم جہان کشاہی کے عمل کا نقش اولین ہے۔
کل سے گلگت بلتستان کے عوامی ملکیت میں چلنے والے پی ٹی ڈی سی موٹیلز اور گیسٹ ہاوسسز کو گرین ٹوریزم نامی ایک گمنام پراٗیویٹ کمپنی کو دینے پر سوالات اٹھاۓ جارہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں جس طرح کا نظام رائج ہے اس میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ہم اس بات پر حیران ہونے کی بجاۓ نوآبادیاتی نقش اّول کے تصور سے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کچورا پائین کے جھیل کو برگیڈیئر محمد اسلم خان نے مقامی لوگوں سے چھین کر اس پہ شنگریلا کا تفریحی ہوٹل بنایا۔ انھوں نے اس طرح کی کوشش سوست ہنزہ اور فیری میڈوز دیامر میں بھی کی مگر وہاں کے مقامی لوگوں کی مزاحمت سے مکمل قبضہ حاصل نہیں کرسکے۔
کہا جاتا ہے کہ استور سے تعلق رکھنے والے دبنگ قوم پرست پولیس آفیسر امیر حمزہ مرحوم نے بریگیڈیر اسلم کو کچورا جھیل کے قبضے سے روکنے کے لیے گرفتار بھی کیا تھا، مگر اسلم کے ساتھ ریاست کی طاقت تھی سو ریاست کے ملازم کا کچھ نہ چل سکا۔
برگیڈیئر (ریٹائرڈ) اسلم یہ دھونس، دھمکی اور قبضہ اس لیے کرسکا کیونکہ وہ ایک اہم عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کا گلگت بلتستان میں بیرونی حملہ آور نوآبادیاتی قوتوں کے ساتھ قریبی تعلق اور تاریخی کردار رہا ہے۔ وہ ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کے بھائی تھے۔ اسلم خاں اور اصغر خان کے والد رحمت اللہ خان جموں اینڈ کشمیر سٹیٹ فورسز میں برگیڈیئر تھے۔ انھوں نے گلگت اور سکردو کو ڈوگرہ راج کے ماتحت کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اسی طرح ان کے دادا سردار صمد خان موڈوری یاسین کے قلعے پر حملے میں ڈوگرہ کے ساتھ تھے۔ اس قلعے کی فتع کے بعد ڈوگروں بشمول سردار صمد خان نے چن چن کہ یاسین کے ہر نوجوان مرد کو قتل کردیا تھا اور نوجوان لڑکیوں کو اغوا لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کل ۹۰۰ افراد کو اس واقعہ میں قتل کیا گیا۔ اس جنگ کے متعلق رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح صرف عمر رسیدہ لوگوں اور بچوں کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔ حاملہ عورتوں کا پیٹ چاک کرکے نیزوں پہ لٹکایا گیا۔
موڈوری میں سفاکانہ قتل عام کا یہ واقعہ اب بھی مقامی زبانی ادب اور تاریخ میں تاریخی یاداشت کے طور پر کام کرتا ہے۔ چونکہ اس میں سکھ افواج بھی تھے۔ اس لیے مقامی زبان میں بے رحم فرد کو سکھ کہا جاتا ہے۔ موڈوری کے فتح کے بعد ایک انگریز آفیسر کا استور سے گزر ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ ڈوگرہ فوج نے استور کے بازار میں یاسین کی گوری رنگت والی بچیوں اور لڑکیوں کو پنجروں میں رکھ کر بازار میں فروخت کے لیے رکھا ہوا تھا۔ وہ لڑکیاں خوف سے کانپ رہی تھیں۔موڈوری کے لوگوں کے اس قتل عام اور لوٹ مار میں عبدل صمد خان کے ہاتھ یاسین کی ایک نوجوان لڑکی بھی ہاتھ آگئی تھی، جو بعد میں ان کی بیوی بھی بن گئی۔
کہا جاتا ہے کہ یاسین سے اس خاتون کے خاندان کے کچھ نمایاں افراد نے اصغر خان کے گھر میں تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ ان میں سے کچھ سیاست کے میدان میں بھی ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ (ریٹائر ایئر مارشل) اصغر خان نے اصولی سیاست اور نظریات کے دعویدار ہونے کے باوجود اپنے خاندان کا نوآبادیاتی نظام میں کردار اور اپنے بھائی کی ریشہ دوانیوں کا کبھی ذکر نہیں کیا۔
نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی دور کے ان واقعات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کا جو نظام گلگت بلتستان میں رائج ہے وہ عوام کو نقشہ اور زمین سے محو کرنے پر ہی منتج ہوگا۔ باقی ریسٹ ہاوس اور تفریحی مقامات کو کس کے حوالے کرنا محض اس نظام کے ناقص طرز حکمرانی اور بدانتظامی کی علامات ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں فیصلہ ساز عوام کو گھاس ڈالنا تو دور کی بات ہے، ان سے ان کی چراہ گاہ تک چھین لیا جاتا ہے۔ ایک اچھے نظام میں حکومت کو ایسے اثاثوں کی فروخت میں عوام کو شریک کرنا چاہیۓ۔ مگر یہ ساری علمی باتیں ہیں۔
ریاست کا جو نظام گلگت بلتستان میں رائج ہے وہ عوام کو نقشہ اور زمین سے محو کرنے پر ہی منتج ہوگا۔ باقی ریسٹ ہاوس اور تفریحی مقامات کو کس کے حوالے کرنا محض اس نظام کے ناقص طرز حکمرانی اور بدانتظامی کی علامات ہیں
عزیز علی داد
اگر آپ نے اس استعصالی نظام کے نتائج بھانپنے ہیں، تو آج شنگریلا کی صورتحال دیکھیں۔ آج حالت یہ ہے کہ جھیل کو طاقتور لوگوں اور اداروں نے عمارتوں سے گھیر کر اس کا گلہ بند کردیا ہے۔ اس کے حسین منظر کو دیکھنے کے لیے مقامی لوگوں کو اب فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ مستقبل قریب میں ایسے مناظر گلگت بلتستان میں ہر جگہ دیکھنے کوملیں گے جہاں آپ کو اپنی چراہ گاہ، جھیل اور پہاڈ دیکھنے کے لیے فیس دینی اور اجازت لینی ہوگی۔ اس سارے عمل میں صمد خان کا کردار ہمارے سیاسی نمائندے اور سہولت کار ادا کر رہے ہیں۔
آج اقبال کا کشمیر اور کشمیریوں کا گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت پہ کہا گیا شعر گلگت بلتستان پر صحیح صادق آرہا ہے:
دھقان وکشت وجوئےدخیابان فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند!
ترجمہ: کِسان‘ مرغزار‘ ندیاں اور خوبصورت کھیتیاں اور باغات تک کو فروخت کردیا،
پوری کی پوری قوم کو فروخت اور وہ بھی بہت سستے داموں فروخت کر دیا۔
فروخت وہ ہوتے ہیں جن کی کچھ قیمت ہو۔ کشمیریوں کی کچھ قیمت بھی تھی کہ سستے فروخت ہوگۓ۔ ہم گلگت بلتستان والوں نے مفت ہی بکنا اور جھکنا ہے۔ ہم ریاست کے کارندوں کو شانٹی اور ٹوپی پہنائین گے اور ریاست ہمیں ٹوپی۔
جان علی کی بات یاد آتی ہے:
میئ سارگن گلیت تھیئ کھچی حآل بِلن
تو کھش درینو نومیچ انتقال بِلن۔