Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان میں خود فراموشی (دوسری قسط)

گلگتأبلتستان میں ذہنی کرونا

عزیز علی داد


گلگت بلتستان میں خود فراموشی کے حوالے سے سلسلہ وار مضامین کی پہلی قسط میں ان عوامل اور وجوہات کی وضاحت کی گئی تھی جو اس خطے میں خود فراموشی کا سبب بنتے ہیں۔ کچھ قارئین نے مشورہ دیا کہ بجائے اختصار کے، تفصیل اور ٹھوس مثالیں پیش کی جائیں۔ اس مضمون میں، قارئین کی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے، گلگت بلتستان کے سیاسی تناظر میں ان معروضی عوامل کا جائزہ لیا جائے گا جو ایک خاص قسم کی موضوعیت کو جنم دیتے ہیں اور یہی موضوعیت کس طرح ایک منفرد قسم کی نفسیات پیدا کرتی ہے۔ یہ سماجی نفسیات پھر ایک ایسی زبان تخلیق کرتی ہے جو لوگوں کو دنیا کی تفہیم کے لیے بنیادی سانچہ فراہم کرتی ہے۔ یہ سانچہ مخصوص حالات کے اندر تشکیل پاتا ہے۔ مختصراً، ہماری سماجی نفسیات، رویے اور زبان ہمارے معروض سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں صرف گلگت بلتستان کے معروضی حالات میں سماجی نفسیات کی تشکیل کا جائزہ لیا جائے گا۔

گلگت بلتستان کے لوگ جن معروضی حالات میں رہ رہے ہیں، ان کو علم بشریات کی زبان میں "ذات کی گمنامی” کہا جا سکتا ہے، یعنی لاکھوں لوگ ہیں جن کے پاس جسمانی چہرے تو ہیں مگر سماجی و سیاسی چہرہ نہیں ہے۔ انسان بغیر شناخت کے سماجی و سیاسی زندگی جی نہیں سکتا۔ شناخت ایک خالصتاً انسانی معاملہ ہے جو حیوان کو درپیش نہیں ہوتا۔ اگر اس "ہونے” اور "نہ ہونے” کی کشمکش کو سلجھایا نہیں گیا تو انسان شیکسپئر کے کردار ہیملٹ کے "جو ہے یا نہیں ہے” کے معمے میں پھنس کر پاگل ہو جاتا ہے۔ غالب کو بھی اس "ہونے نہ ہونے” کی بحث نے ہی ڈبویا تھا۔ ہست و نیست و شناخت کا سوال انسانی سماج میں بھی ابھرتا ہے، اور اگر یہ الجھن دیر تک لاینحل رہتی ہے تو سماج کو پاگل پن میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انسانی سماج کے دیوانہ پن کے سوتے معروضی حالات سے ہی پھوٹتے ہیں۔

ارسطو انسان کو سماجی حیوان کا نام اس لیے دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے حیاتیاتی چہرے پر ایک سماجی شناخت قائم کرتا یا کرتی ہے۔ یہی شناخت ہے جس کی بنیاد پر عمرانی معاہدے اور سماجی اداروں کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے موجودہ نظام کو جس کلیئے پر قائم کیا گیا ہے، اس کا مقصد ہی لوگوں کو گمنامی میں رکھنا ہے۔ اس لیے گلگت بلتستان میں کسی عمرانی معاہدے کا وجود نظر نہیں آتا۔ ایسا معاشرہ جو بغیر عمرانی معاہدے کے وجود رکھتا ہے، وہ اپنا آپ بننے کے علاوہ سب کچھ بننے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے جس ادارے کو آج اسمبلی کہا جاتا ہے، اس نے انیس سو ستر کی دہائی سے اب تک کتنے نام اور حلیے بدل لیے ہیں۔ یہ ادارہ ہر چیز بن رہا ہے سوائے بااختیار اسمبلی کے۔ چونکہ گمنام سماج کا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ ہر قسم کا نقاب اوڑھنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ سماج ایسی نفسیاتی بیماریوں اور سماجی رویوں کو جنم دیتا ہے جو کسی نارمل سماج کا خاصہ نہیں ہوتے۔ مختصر الفاظ میں، ایسا سماج اپنی سماجی و سیاسی شناخت کے ساتھ ساتھ اپنا عقل و شعور کھو کر ایک ایسا بلا بن جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے ہی بچوں کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایک طرح کی نفسیاتی آدم خوری ہوتی ہے، اور گلگت بلتستان کے لیے آدم خوری کوئی نئی چیز نہیں ہے۔

چونکہ گلگت بلتستان کا قومی سوال یکم نومبر کی آزادی اور اس کے فوراً بعد پاکستان میں شمولیت کے فیصلے سے شروع ہوتا ہے، اسی لیے اس وقت کے رہنماؤں کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لینا لازمی ہے۔ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بانیوں کے پاس ڈوگروں سے آزادی کا تصور تھا، مگر اس آزادی کے بعد کیا کرنا تھا، اس کا ان کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ "کیا کرنا” سے مطلب یہ کہ اگر ریاست یا پاکستان کا حصہ بننا تھا تو اس کے خدوخال، حقوق اور اختیارات کیا ہوں گے۔ کس طرح سماج ہوگا؟ بلکہ سماجی سوال تو ان میں سرے سے غائب تھا۔ چونکہ جنگ آزادی کے سارے رہنما فوجی تھے، اس لیے ان کے پاس سیاسی و سماجی جوابات یا حل نہیں تھا، صرف فوجی حل ہی تھا۔

آزادی کی ایسی کیفیت جس میں سماج کو پتہ نہیں ہوتا کہ آزادی سے کیا کرنا ہے، بہت خطرناک ہوتی ہے۔ معروف جرمن فلسفی ایرک فرام نے جدید زمانے میں تشدد کی نفسیات پر گرانقدر کتابیں لکھی ہیں۔ وہ جدید زمانے میں یورپ کے عالمی اور دیگر جنگوں کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ یورپ کو کلیسا اور بادشاہت کی استبدادیت سے نجات حاصل کرنے کی وجہ معلوم تھی، مگر اس آزادی سے کیا کرنا تھا اس کے متعلق غافل تھے۔ نپولن، ہٹلر، لیوپارڈ، مسولینی، اسٹالن وغیرہ اسی مخمصے کی پیداوار ہیں۔

بغیر بصیرت کی آزادی ہمیں بلاؤں کے ہاتھوں کے حوالے کرتی ہے۔ آج گلگت بلتستان کے اوپر جو گزر رہی ہے وہ ان بے بصیرت رہنماؤں کی بدولت ہے جنھوں نے پرانی غلامی کے طوق سے نجات حاصل کر کے ایک دوسری غلامی میں قید کر لیا۔ یہ صرف گارڈز کی ہی تبدیلی تھی۔ اب ستر دھائیوں بعد صورتحال یہ ہے کہ قیدی بھی ہم ہی ہیں اور جیل کی رکھوالی پر معمور گارڈز بھی ہم ہی ہیں۔

عزیز علی داد

اس کی وجہ سے ہی کہا جا سکتا ہے کہ بغیر بصیرت کی آزادی ہمیں بلاؤں کے ہاتھوں کے حوالے کرتی ہے۔ آج گلگت بلتستان کے اوپر جو گزر رہی ہے وہ ان بے بصیرت رہنماؤں کی بدولت ہے جنھوں نے پرانی غلامی کے طوق سے نجات حاصل کر کے ایک دوسری غلامی میں قید کر لیا۔ یہ صرف گارڈز کی ہی تبدیلی تھی۔ اب ستر دھائیوں بعد صورتحال یہ ہے کہ قیدی بھی ہم ہی ہیں اور جیل کی رکھوالی پر معمور گارڈز بھی ہم ہی ہیں۔

حضرت عیسیٰ نے اپنے ہمسائے سے محبت کرنے کو کہا تھا۔ اب یہاں گلگت بلتستان میں ایسی نفسیات و اخلاقیات نے جنم لیا ہے جو ہمیں قید کرنے والے گارڈز سے محبت کروا رہی ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں گلگت بلتستان کی بے شناخت وجودی کیفیت نے محکومی کی ایسی نفسیات تشکیل دی ہے جو ہماری زندگی کے حتیٰ کہ موضوعی کیفیات تک بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔

ہم طاقت کے بڑے بڑے مظاہر کی بجائے روزمرہ زندگی کے تجربات و واقعات پر توجہ مرکوز کر کے طاقت کے محرکات اور اثرات آپ کے سامنے لانے کی کوشش کریں گے۔ گلگت بلتستان میں اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہماری محبت میں بھی طاقت داخل ہو گئی ہے۔ حالانکہ محبت ایک انتہائی موضوعی اور ذاتی عمل ہوتا ہے، لیکن طاقت نے اس کو بھی کرپٹ کر دیا ہے، اور مطلق طاقت نے مکمل کرپٹ کر دیا ہے۔ ذرا اس شینا شعر کو غور سے پڑھئے:

"میئے ہیئیے ایوانئیئ تو وزیر اعظم ہنے،
مئیے گا نوم لکھار جیک بیئے کابینائیئے وزیرور نے۔”

ترجمہ: تم میرے دل کے ایوان کی وزیر اعظم ہو،
کیا ہوگا اگر تم میرا نام اپنی کابینہ کے وزیروں میں لکھوا دو۔

یہ اشعار بطور شینا شاعری کے نمونے کے طور پر باقاعدہ طور پر انیس سو ننانوے میں اکیڈمی ادبیات سے شینا زبان و ادب پر شائع ایک کتاب میں شامل ہیں۔ آپ یہاں باآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ محبوب کا دل لیلیٰ کی طرح خالص نہیں رہا۔ اب طاقت ہمارے اندر اتنی در آئی ہے کہ دل کے نہاں خانوں تک بھی قبضہ کر لیا ہے۔ پہلے عاشق اپنے محبوب کے دل کی جنت میں پہنچنا چاہتا تھا، مگر اب دل کے ایوان میں وزیر بننا چاہتا ہے۔ وہ دن قصہ پارینہ ہوگئے جب عشاق محبوب سے التجا کرتے تھے کہ:

"مئیے نوم گہ ہنا کون تھئیے یارو مجھا”
(پتہ نہیں میرا نام بھی تمھارے چاہنے والوں میں ہے کہ نہیں) ۔

جب عشاق کا یہ حال ہے تو گلگت بلتستان کے سیاستدانوں سے کیا گلہ کہ وہ ایوانوں کی نشستوں، وزارتوں اور مشیروں کے عہدوں کے بھوکے ہیں۔ بدبخت طاقت کی پوجا نے ہم سے عشق کرنے کی صلاحیت تک بھی چھین لی ہے۔ اب ہم تو اچھی طرح عشق بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ اور جس سماج میں عشق کرنے کی صلاحیت نہ ہو، وہ صرف نفرت کو ہی اپنے اندر پروان چڑھا سکتا ہے۔ ہم نفرت کے مظاہر کا اپنے سماج میں روزمرہ کی زندگی میں سامنا کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی گلیاں اور دل و جان و روح محبت کے لیے ترس گئے ہیں۔ اب گلی میں کسی کے ساتھ غلطی سے ٹکر ہو جاتی ہے تو معذرت کی بجائے "مالئی جے” سننے کو ملتی ہے۔

گلگت بلتستان کے معروضی حالات نے ایک نئی نفسیات کی تشکیل کی ہے۔ ان حالات نے نہ صرف نئی نفسیاتی بیماریوں اور کیفیات کو جنم دیا ہے، بلکہ یہ نفسیات ایک نئی زبان اور حقیقت کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔

عزیز علی داد

جیسے پہلے ذکر کیا گیا ہے، گلگت بلتستان کے معروضی حالات نے ایک نئی نفسیات کی تشکیل کی ہے۔ ان حالات نے نہ صرف نئی نفسیاتی بیماریوں اور کیفیات کو جنم دیا ہے، بلکہ یہ نفسیات ایک نئی زبان اور حقیقت کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔ ان کیفیات اور زبان کا تجزیہ اس مضمون میں پیش کیا جائے گا۔ سب سے پہلے، ہم ان نفسیاتی بیماریوں اور کیفیات کا جائزہ لیں گے۔

یہ بھی پڑیے: گلگت بلتستان میں خود فراموشی (پہلی قسط)

جب ہماری بیرونی دنیا ہماری شناخت کو محدود یا مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو ہم اندرونی اور بیرونی شخصیت کے درمیان تنازع کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں، روح اور چہرہ دو مختلف سمتوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ یہ اندرونی کشمکش ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت کو جنم دیتی ہے، جو سماج کی سطح پر بھی نظر آتی ہے۔ اگر یہ نقاب طویل عرصے تک ہمارے اندر کی سچائی پر غالب رہتا ہے، تو ہماری حقیقی شناخت آہستہ آہستہ غائب ہو جاتی ہے، اور ہم اپنے اوپر مسلط کردہ نقاب کو اپنی پہچان سمجھنے لگتے ہیں۔

یہ بھی پڑہیے: نوآبادیاتی طاقت کا نقش اولین

بے چینی اور تشویش کی یہ کیفیت ایک حد تک سود مند بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ ہمیں اپنی شناخت کی تلاش کے لیے متحرک کرتی ہے۔ لیکن اگر یہ کیفیت حد سے تجاوز کر جائے تو یہ مایوسی یا شدید غم میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو ہمیں ذہنی طور پر اپاہج کر سکتی ہے۔

تشویش میں مبتلا معاشرہ واضح سوچنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور خود فراموشی کے عالم میں ہر اس چیز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے جو اسے بظاہر طاقت یا شناخت فراہم کرتی ہے۔ یہ تمام مستعار شناختیں نقابوں کے سوا کچھ نہیں ہوتیں، جو معاشرے کو اپنی حقیقی شناخت سے دور کرکے ایک مصنوعی تشخص کے حوالے کرتی ہیں۔ معاشرہ اس نقاب کے جال میں اس لیے پھنسا رہتا ہے کہ وہ اپنی وجودی حقیقت کو معروضی طور پر جانچنے کی بجائے اپنی موضوعی احساس کے ذریعے ایک مغالطہ یا مصنوعی حقیقت کی تخلیق کرتا ہے۔ وہ کسی ایسے خیال کو اپنے قریب آنے نہیں دیتا جو اس کی خیالی دنیا کو چیلنج یا ختم کر سکے۔

گلگت بلتستان میں رائج نظام کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ہر سطح پر ہمیں محکوم رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن ہم نے اختیار کا جھوٹا ملمع اس ننگی حقیقت کے اوپر چڑھا رکھا ہے۔ بظاہر ہمارے پاس ایک اسمبلی ہے، جس کے سارے طریقہ کار دنیا کے کسی بھی جمہوری نظام سے مشابہ ہیں، لیکن کیا یہ واقعی اسمبلی ہے؟ نہیں، یہ مشابہہ الفاظ کا ایک ملمع ہے جس کے اندر کچھ نہیں ہے۔

ہم اگلی قسط میں ان عوامل اور محرکات کا جائزہ لیں گے جو سماج میں یاسیت، بیگانگی اور خودکشی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ آپ کی آرا اور سماج کی مثالیں ہماری سماجی نفسیات کے محرکات کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔


عزیزعلی داد نے  لندن اسکول آف اکنامکس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر ان کے مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہ چکے ہیں۔

گلگت بلتستان میں خود فراموشی



جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے