صفی اللہ بیگ
ہنزہ میں محکمہ برقیات کے پورے نظام کی نجکاری کے لیے حکومت گلگت بلتستان اور IPS کے درمیان ایک متنازعہ معاہدے پر سوشل میڈیا پر گرم بحث جاری ہے۔ تاہم، ان بحثوں اور تجزیوں میں اکثر مستند معلومات اور حقائق کی بجائے ذاتی آراء، کاروباری مفادات، یا اس کثیر القومی کمپنی کی مالی و سماجی طاقت جیسے عوامل زیادہ غالب نظر آتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ہم ہنزہ میں بجلی کی نجکاری کے تین بنیادی اور اہم اثرات اور نتائج کو ٹھوس معلومات اوردلایٔل کی بنیاد پر دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
معاشی اثرات
نجکاری کے معاشی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم IPS کا محکمہ برقیات کو 30 سال کے لیے مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بجلی کی بہتری کے لیے منصوبہ بندی پر غور کریں۔ IPS کی حالیہ پریس ریلیز کے مطابق، وہ ہنزہ میں کل 20 ملین ڈالر (5.6 ارب روپے) کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ اس سرمایہ کاری میں IPS کو پیداوار میں اضافہ، ترسیل اور تقسیم کے نظام میں بہتری، اور موجودہ طریقہ کار میں بہتری لانی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ IPS موجودہ دو سولر پروجیکٹس کے ساتھ مل کر، اگلے 5 سال میں زیادہ سے زیادہ 2 میگاواٹ پن بجلی کی پیداوار بڑھا سکتی ہے۔ دوسری جانب، محکمہ برقیات کے موجودہ پیداواری یونٹس پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد عوام کو یہ باور کرایا جائے گا کہ IPS بجلی کے بحران میں بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ تاہم، اگر ہم مرکزی ہنزہ میں بجلی کی موجودہ طلب پر نظر ڈالیں تو مرکزی ہنزہ میں صرف 10 بڑے ہوٹلز کی بجلی کی ضرورت 5 میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ لہذا، بجلی کی نجکاری اور IPS کی کاروباری حکمت عملی سے ہنزہ میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے امکانات کم نظر آتے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ بجلی کی نجکاری سے بجلی کے بحران میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
بجلی کی نجکاری کے کاروباری پہلو
بجلی کی نجکاری کے بعد بجلی کے مکمل نظام کو کاروباری خطوط پر استوار کیا جائے گا تاکہ یہ کاروبار جلد از جلد منافع کمانے کی حالت میں آ سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں زیادہ بجلی استعمال کرنے والے علاقے، کاروبار، اور صارفین کو ترجیح دی جائے۔ یعنی، اس کاروباری حکمت عملی کے تحت بجلی کی طلب کو ہمیشہ سپلائی سے زیادہ رکھنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی تاکہ سپلائی میں کمی کے ذریعے طلب بڑھا کر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، بجلی کی قیمت یا بل کی ادائیگی ایڈوانس میں وصول کرنے کے لیے پری پیڈ میٹرز نصب کیے جائیں گے تاکہ ملٹی نیشنل کمپنی کو اپنے کاروباری پارٹنرز اور بڑے عالمی مالیاتی اداروں، جیسے IFC اور جرمن DEG بینک سے لی گئی 5.6 ارب روپے کی رقم اور اس کا سود بروقت ادا کیا جا سکے اور کمپنی مقررہ وقت پر منافع دینا شروع کرے۔
نجکاری کے بعد کمپنی دن میں تقریباً 8 سے 10 گھنٹے، زیادہ سے زیادہ 2 کلو واٹ فی گھنٹہ کم نرخ پر بجلی استعمال کرنے والے ہزاروں گھریلو صارفین کی بجائے، دن میں کم از کم 18 سے 20 گھنٹے، 100 کلو واٹ سے زیادہ اور مہنگے نرخ پر بجلی استعمال کرنے والے چند درجن کاروباری صارفین کو بجلی فراہم کرنے کو ترجیح دے گی۔ کاروبار کو مؤثر اور منافع بخش بنانے کے لیے بجلی کی ماہانہ آمدنی کے بجائے روزانہ اور ایڈوانس میں آمدنی وصول کرنے کا نظام نافذ کیا جائے گا، یعنی پری پیڈ میٹرز کے ذریعے بجلی قرض پر دینے اور بقایا جات کے خطرات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اسی طرح، محکمہ برقیات کے سرکاری ملازمین کی موجودہ تعداد میں نمایاں کمی کی جائے گی اور ملازمین کے لیے ٹھیکیدار ی نظام متعارف کرایا جائے گا، جس کے نتیجے میں ضلع ہنزہ میں سرکاری ملازمتوں کا خاتمہ اور جو موجود ہونگے وہ ہمیشہ غیر یقینی صورتحال کے شکار رہیں گے اور غیر محفوظ ہو جائیں گے۔
ہنزہ میں بجلی کی نجکاری سے کاروباری حلقوں کو وقتی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے ڈیزل کے اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی، مگر ہنزہ کی 90 فیصد آبادی کو مہنگی بجلی کے بل کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ اس طرح، عوام نہ صرف اپنے بنیادی حق سے محروم ہوں گے بلکہ مہنگی بجلی صرف قبل از وقت ادائیگی کے بعد ہی دستیاب ہوگی۔ ایڈوانس ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں وہ بجلی سے محروم ہو جائیں گے۔ عوام کو 5.6 ارب روپے اور اس کا سود کم از کم 50 فیصد آنے والے سالوں میں ادا کرنا پڑے گا۔ بجلی کی نجکاری اور IPS کے مکمل کنٹرول کے بعد عوام کی حالت بندھے ہوئے صارفین کی سی ہو جائے گی، جن کے پاس بجلی تک رسائی اور استعمال کا قانونی اختیار نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ کمپنی کے رحم و کرم پر رہیں گے اور کسی بھی شکایت یا نا انصافی کی صورت میں مقامی عدالت میں قانونی چارہ جوئی کا حق بھی حاصل نہیں ہوگا۔
لمبے عرصے کےلیٔے لیز پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی نجکاری نوآبادیاتی سیاسی اور اجارہ دار سرمایہ داری کا مؤثر ہتھیار رہی ہے۔ اس لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں نجکاری کے معاہدوں میں اختلافات کو ملکی عدالتوں کے بجائے بین الاقوامی عدالتوں کے ذریعے حل کرنے کی شرائط شامل کرتی ہیں تاکہ اجارہ دار کمپنیاں مقامی وسائل کا زیادہ عرصے تک استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ موجودہ معاہدہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنی کے تمام مفادات کو تحفظ دینے کا ضامن نظر آتا ہے۔ اس لیے بجلی کی پیداوار، ترسیل، تقسیم، اور استعمال پر مکمل اجارہ داری کے ساتھ لمبے عرصے کا یہ معاہدہ، IPS کے بااثر عالمی شراکت داروں اور عالمی عدالت کی طاقت کے بل بوتے پر، معاہدے کی ابتدائی مدت یعنی 30 سال میں توسیع کرکے ہنزہ کے قدرتی وسائل کا بھرپور استعمال اور عملی طور پر قبضے کے واضح امکانات اور خطرات موجود ہیں۔
محکمہ برقیات کا ہنزہ میں ۲۰۱۷ میں بجلی کی طلب کے اعداد و شمار
سماجی اثرات
عالمی مالیاتی سرمایہ دنیا بھر میں غیر یکساں اور غیر مساوی سماجی ترقی کو فروغ دیتے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کو منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرنے سے دولت فوراً عوام سے اشرافیہ کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نچلے اور محنت کش طبقہ مسلسل ذاتی اور اجتماعی اثاثوں اور بنیادی حقوق سے محروم ہوتے جاتے ہیں، اور سماج میں مالی غربت کے نئے مناظر ابھرنے لگتے ہیں۔
ہنزہ جیسے پہاڑی ضلعے میں 90 فیصد سے زیادہ آبادی اب بھی کم آمدنی پر انحصار کرتی ہے، جو دوسرے بنیادی سہولتوں، جیسے تعلیم، صحت، اور دیگر ضروریات کے حصول کے لیے اپنی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ خرچ کرتی ہے۔ ایسے میں مہنگی بجلی کا ایڈوانس ادائیگی کے ذریعے حصول، عوام کی اکثریت کو غربت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتا ہے، اور کم عرصے میں بڑھتی ہوئی مالی غربت ہنزہ کی آبادی کی اکثریت کو افلاس کا شکار بنا سکتی ہے۔
مثال کے طور پر، نجکاری کے اس خفیہ معاہدے پر سوشل میڈیا پر گفتگو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہنزہ کا ایک چھوٹا اور اقلیتی گروہ ہر حال میں اس معاہدے پر عمل درآمد چاہتا ہے تاکہ انہیں ڈیزل کی 84 روپے فی یونٹ مہنگی بجلی سے چھٹکارا مل سکے۔ یہ گروہ اپنے کاروباری مفادات اور سماجی طاقت کو برقرار اور بہتر کرنے کے لیے عوام کے قدرتی وسائل پر اجتماعی حق سے دستبردار ہونے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ مزید انتظار بھی نہیں کرنا چاہتے۔ تاکہ اس خفیہ معاہدے کی تفصیلات عوام تک پہنچنے کے نتیجے میں عوام اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اور ممکنہ معاشی و سماجی جبر کے خلاف احتجاج اور مزاحمت پر نہ اتر آئیں۔
یاد رہے کہ اس خفیہ معاہدے کی اہم تفصیلات، IPS کی قانونی و تنظیمی حیثیت، اس کے طاقتور عالمی کاروباری شراکت دار، اور دیگر ممالک میں بجلی کے کاروبار کے حوالے سے ہنزہ کی اکثریت عوام کو نہ صرف لاعلم رکھا گیا ہے بلکہ ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس لیے عوام کی اکثریت کو ابھی بھی اس بات پر یقین کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ IPS” ایک غیر کاروباری ادارہ ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ IPS کے محکمہ برقیات پر مکمل کنٹرول سے نہ صرف ہنزہ روشن ہوگا بلکہ معاشی و سماجی ترقی بھی ہوگی” ۔ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔کیونکہ IPS ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے طور پر افریقہ کے ملک کینیا کے شہر نیروبی میں رجسٹرڈ ہے، جس میں 51 فیصد حصص آغاخان فنڈ برائے معاشی ترقی اور باقی 49 فیصد حصص ورلڈ بینک کی سرمایہ کار کمپنی IFC، جرمنی کا ترقیاتی بینک KfW کی سرمایہ کار کمپنی DEG، برطانیہ کی سرمایہ کار کمپنی CDC، اور IPS کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور اعلیٰ عہدیداروں کے ہیں۔ IPS بطور ملٹی نیشنل کمپنی پاکستان میں لاگو Companies Act 2017 کے بیشتر قوانین سے مستثنی ہے۔ اس لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نوآبادیاتی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے، IPS ہر ملک کے لیے ایک الگ ذیلی کمپنی بناتی ہے تاکہ وہ اپنے بڑے پارٹنرز کی شناخت، سرمایہ کاری کا طریقہ کار اور معلومات کو عوام سے پوشیدہ رکھ سکے اور منافع پر مکمل اجارہ داری قائم رکھ سکے، اورمقامی سطح پر جوابدہی کے عمل کو مؤثر طریقے سے روکا جا سکے۔
اس ضمن میں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر IPS واقعی ہنزہ میں بجلی کی بہتری اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی تو حال ہی میں التت اور ناصر آباد میں شمسی توانایٔی کے منصوبوں کے افتتاح کے لیے آنے والے پرنس رحیم آغاخان کی سربراہی میں وفد ، جس میں IPS گلوبل کے بورڈ کے ڈائریکٹر سلطان علی آلانا، اسٹیفانو، غالب غلام، لطف قاسم اور دیگر شامل تھے، ہنزہ کے عوامی اور مقامی نمائندوں سے مختصر ملاقاتیں کرتا، ان کے بجلی اور دیگر بنیادی مسائل پر گفتگو کرتا اور انہیں سنتا۔ مگر ایسا کرنے کے بجائے، اس اعلیٰ سطح کے وفد کے اختتام پر IPS نے اپنے ویب سائٹ پر ایک پریس ریلیز جاری کرنا مناسب سمجھا۔
مثلا، نجکاری کے اس خفیہ معاہدے پر سوشل میڈیا پر گفتگو اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ ہنزہ کا ایک چھوٹا اور اقلیتی گروہ ہر حال میں اس معاہدے پر عمل درآمد چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے ان کو ڈیزل کی 84 روپے فی یونٹ مہنگی بجلی سے چھٹکارا مل سکے۔ یہ گروہ اپنے کاروباری مفادات اور سماجی طاقت کو برقرار اور بہتر کرنے کے لیے عوام کا فطری وسایل پر اجتماعی حق سے دستبردار ہونے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ مزید انتظار بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ اس خفیہ معاہدے کے تفصیلات عوام تک پہنچنے کے نتیجے میں عوام اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اورممکنہ معاشی و سماجی جبر کے خلاف احتجاج اور مزاحمت پر نہ اتر آیں۔
کیونکہ IPS ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے طور پر افریقہ کے ملک کینیا کے شہر نیروبی میں رجسٹرڈ ہے جس میں 51 فیصدی شیرز آغاخان فنڈ براے اکنامک ڈیویلوپمنٹ اور باقی 49 فیصد شیرز ورلڈ بینک کا سرمایہ کار کمپنی IFC، جرمنی کا ترقیاتی بینک KfW کا سرمایہ کار کمپنی DEG ، برطانیہ کا سرمایہ کارکمپنی CDC اور IPS کے بورڈ آف ڈایریکٹرز اور اعلی عہدیداروں کے ہیں۔ IPS بحثیت ملٹی نیشنل کمپنی پاکستان میں لاگو Companies Act 2017 کے بیشتر قوانین سے مثتثنی ہے۔ اس لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نوآبادیاتی روایات کو برقرار رکھتے ہوے IPS ہر ملک کے لیے ایک الک سبسیڈری کمپنی بناتی ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنے بڑے پارٹنرز کی شناخت، سرمایہ کاری کا طریقہ کار اور معلومات کو عوام سے پوشیدہ رکھ کر منافع پر مکمل اجارہ داری رکھ سکے اورمقامی سطح پر جوابدہی کے عمل کو موثر طریقے سے روکا جاسکے۔
اس ضمن میں یہ بات یہاں اہم ہے کہ اگر IPS واقعی ہنزہ میں بجلی کی بہتری اور عوام کو سہولیات کی فراہمی میں دلچسپی رکھتی تو حال ہی میں التت اور ناصر آباد میں سولر پاور پروجیکٹس کی افتتاح کے لیے آنے والے وفد جس کی سربراہی پرنس رحیم آغاخان کررہے تھے جس میں IPS گلوبل کے بورڈ کے ڈایریکٹر سلطان علی آلانہ، اسٹیفانو، غالب غلام، لطف قاسم و دیگر شامل تھے۔ ہنزہ کے عوامی اور مقامی نمایندوں سے مختصر ملاقاتیں کرتے اور ان کے بجلی سمیت دیگر بنیادی مسایل پر ان سے گفتگو کرتے اور ان کو سنتے۔ مگر ایسا کرنے کے بجاے اس اعلی سطح کے وفد کے اختتام پر IPS نے اپنے ویب سایٹ پر ایک پریس ریلیز جاری کرنا مناسب سمجھا۔
نجکاری کے سیاسی مضمرات
چین اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہنزہ میں بجلی کی نجکاری کو ایک مقامی مسئلے کے طور پر دیکھنے کے بجائے، اس کے دیگر اہم پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً، ہنزہ اور گلگت بلتستان عالمی سطح پر تنازعہ کشمیر کا حصہ ہیں، اس لیے ہنزہ سمیت پورے گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی، گلگت بلتستان کے انتظامی نگران کی حیثیت سے، حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ، ریاست پاکستان کو گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود اور فطری وسائل کا دفاع اور تحفظ بھی کرنا ہے۔
مجوزہ معاہدے کا آرٹیکل ۱ گرانٹ کنسیشن کا نقل
پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کی حکومت کے ذریعے ہنزہ میں بجلی کی نجکاری کے لیے کیے گئے خفیہ معاہدے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں، مقامی عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور اس خطے کے فطری وسائل کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے حوالے کیا جا رہا ہے، جو کہ حکومت پاکستان کی گلگت بلتستان سے متعلق ذمہ داریوں سے انحراف ہے۔ مثال کے طور پر، اس معاہدے کے دستیاب مسودے کے مطابق، ہنزہ میں بجلی پیدا کرنے کے لیے تمام فطری وسائل پر اس کمپنی کو بلا شرکت غیر ےخصوصی اختیار دینا، شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔
مجوزہ معاہدے کی شق 1.1 اور 1.2 سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت گلگت بلتستان، ہنزہ کے عوام اور ان کے نمائندوں سے مشاورت کیے بغیر، پورے ضلعے کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے حوالے کر رہی ہے اور ضلعے کے اہم فطری وسائل بھی اس کے سپرد کر چکی ہے۔ اس طرح، آئندہ تیس سالوں تک ہنزہ کے عوام اس اجارہ دار کمپنی کے ہاتھوں بجلی کے لیے یرغمال بن سکتے ہیں۔ اس مجوزہ معاہدے میں حکومت اور کمپنی کے درمیان تنازعے کے حل کا طریقہ کار بھی متنازعہ ہے، کیونکہ اس معاہدے کے مطابق، کسی بھی قسم کا تنازعہ مقامی یا ملکی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا، بلکہ اس کا آخری حل لندن بین الاقوامی عدالتِ کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔
گلگت بلتستان کی متنازع حیثیت کی وجہ سے بین الاقوامی ادارے گلگت بلتستان میں براہ راست ترقیاتی کام یا سرمایہ کاری سے اجتناب کرتے آرہے ہیں۔ مگر اس معاہدے اور IPS کے ذیلی کمپنی کے ذریعے دراصل ورلڈ بینک، KfW اور CDC کے وساطت سے اہم مغربی ممالک امریکہ، جرمنی اور برطانیہ گلگت بلتستان میں کاروبار کرنے اور اثاثے بناتے نظر آتے ہیں۔ اس معاہدے کے ذریعے گلگت بلتستان میں ان مغربی ممالک کے مفادات کی موجودگی اس کے متنازعہ حثیت اورعلاقای اہمیت کو متاثر کرسکتی ہیں۔ جو آگے چل کر نیٔے تنازعات کو بھی جنم دے سکتا ہے۔
صفی اللہ بیگ سیاسی، ترقیاتی، ثقافتی، صنفی، سیاحت، ورثہ، ماحولیات، ایکالوجی اور توانائی کے شعبوں میں وسیع تجر بہ رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پہ ماحولیات، نیولبرل ترقی کے اثرات اور گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی مسایٔل پر لکھتے رہتے ہیں اور یوٹیوب چینلز پر مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں۔