عزیز علی داد
میرے مضامین کے سلسلے کی پچھلی قسط میں پہاڑ کے سرے پر کھڑے سماج کی مثال استعمال کی گئی تھی تاکہ معاشرے کی ذہنی و وجودی کیفیت کو استعاراتی زبان میں بیان کیا جا سکے۔ قارئین نے تجویز دی کہ اگلی قسط میں اس پر انفرادی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے محرکات پر روشنی ڈالی جائے تاکہ سماجی نفسیات کی تشکیل کی بہتر تفہیم ہوسکے۔ اس مضمون میں ہم گلگت بلتستان کی سماجی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کے بعد یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح سماجی و ثقافتی ساختیں ہماری سماجی و انفرادی نفسیات کو متاثر کرتی ہیں۔
گلگت بلتستان کے سماجی لاشعور کے تجزیے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ثقافتی ذہن کی ساخت کو سمجھیں جو ایک خاص قسم کی فکر کے خدوخال متعین کرتا ہے۔ اگر تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو گلگت بلتستان کے سماج کی نفسیات کا اس کے سماجی ساخت کے ساتھ بہت قریبی تعلق نظر آتا ہے۔ ہر سماج کے باطن میں ایک بنیادی تصور کار فرما ہوتا ہے جو ایک نقش اولین کے طور پر کام کرتا ہے۔ اور اسی نقش کے دھاگے سے سماجی ڈھانچہ، معاشی نظام، اقدار، ثقافت، رسومات اور خیالات بنائے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں یہ نقش اولین تصور اجتماعی ہے جس میں فرد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی اجتماعی تصور کی بنیاد پر ہی گلگت بلتستان کا روایتی عمرانی معاہدہ وجود میں آیا ہے۔ چونکہ یہ عمرانی معاہدہ صدیوں سے ہمارے سماجی انتظام اور ریاستی انصرام کو آگاہ کرتا رہا ہے، اس لیے اس کے اثرات اب تک ہماری سماجی ساخت اور نفسیات میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں ہمارے تناظر میں یہ اجتماعی تصور کیا ہے۔
کسی بھی سماج کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بنیادی سماجی یونٹ گھرانہ ہے۔ گھر کے تصور سے اپنے آپ کو وابستہ کرکے فرد اپنی شناخت کی بنیاد رکھتا ہے، ورنہ وہ باہر کی اجنبی دنیا کی تفہیم اور مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ اس عہد طفلی کی جبلت ہے جہاں انسان اپنے ماں کے بطن کی طرح سماج میں تحفظ و آرام کا خواہاں رہتا ہے۔ گھر وہ پہلا پڑاؤ ہے جہاں پر فرد کے پر و بال اگتے ہیں اور وہ سماج میں داخل ہونے کے قابل بنتا ہے۔ سماج میں وہ ماں کے بطن کی طرح تحفظ تلاش کرتا ہے۔ اب سوال یہ درپیش ہوتا ہے کہ سماج میں بہت سارے اور مختلف افراد موجود ہوتے ہیں۔ یہ افراد کیسے ایک دوسرے کے ساتھ تفاعل کریں اور زندگی کے دیگر معاملات اور ذمہ داریاں نبھائیں؟ افراد کے مابین معاملات تب تک نہیں طے پائیں گے جب تک معاشرے کے لوگ ایک نظام اور اجتماعی طرز فکر کو تشکیل نہیں دیں گے۔ عمرانی معاہدہ اسی کلی ضرورت کے تحت وجود میں آیا ہے جس میں فرد اپنی ذاتی شناخت کو سماجی شناخت کی کلیات میں ضم کر دیتا ہے۔
گلگت بلتستان میں فرد سے آگے گھر ایک بنیادی یونٹ ہے۔ فرد کی طرح اس کو بھی دوسرے گھروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے اپنی شناخت اور سماجی معاملات کے لئے خاندان کا سہارا لیا گیا۔ پھر خاندان کی شناخت قبیلے سے قائم ہوتی ہے۔ پھر قبیلے کا ایک سردار ہوتا ہے جو سب کی کلی پہچان ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ماسوائے دیامر کے باقی علاقوں میں حکمرانی کا تصور اسی عمرانی معاہدے و سماجی انتظامات کی پیداوار ہے۔
علم بشریات کے مطابق ہر قبیلے کا ایک جد امجد ہوتا ہے جو ہر دور کے قبائلی سردار کے لیے قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ زبانی روایات کے حامل سماجوں میں اس قانونی و تاریخی جواز کو زبانی روایات، لوک کہانیوں، یادداشت اور رزمیہ ادب وغیرہ کے ذریعے محفوظ رکھ کر سند کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر قبیلے کا جد امجد ہمیشہ بہادر ہوتا ہے اور بہادری کا اولین واقعہ آنے والے زمانے میں قبیلے کو شناخت کے ساتھ ساتھ سماج میں ایک خاص رتبہ بھی عطا کرتا ہے۔ بہادری کا نقش اولین یا واقعہ ہمارے روایتی رزمیہ گیتوں کے ذریعے لوگوں کو بتایا جاتا ہے تاکہ قبیلے کے لوگ ان صفات و خصوصیات کو یاد رکھیں جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں یا الگ پہچان عطا کرتے ہیں۔ ہنزہ میں شینا زبان میں وزیر خاندان کے جد امجد وزیر تھراہ بیگ کا گانا "الا وزیر تھراہ تو سے ہنی رو موگری مریتا” قلی کچ کا خاندانی گیت یا وزیر موکو کے متعلق ہنزہ و نگر اور گلگت میں مشہور رزمیہ گیت اسی قبائلی سماجی تشکیل کی دلالت کرتا ہے۔
یہ سارے عوامل مل کر سماج میں ایک حفظ مراتب تشکیل دیتے ہیں، جو عمرانی معاہدے کے لیے بنیادی اجزاء مہیا کرتے ہیں۔ یہ سماجی و عمرانی ترتیب دیامر میں قبائلی سردار تک آکر موقوف ہوجاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سردار/نمبر دار، سکا یا جسٹیرو ٹوٹم پول کے سب سے اوپر ہوتا ہے۔ یہ سردار پھر دوسرے قبائلی سرداروں کے ساتھ مل کر قبائلی طرز حکمرانی کے لیے قبائلی شوریٰ بناتے ہیں جس میں باہمی مشاورت ہوتی ہے۔ اس طرز حکومت میں قبائلی سرداروں کے اوپر کوئی بادشاہ/میر/راجہ یا سر نہیں ہوتا۔ اسی لیے چلاس، تانگیر، داریل اور کوہستان کو "acephalous” یعنی بغیر سر کا جسم یعنی بغیر حکمران کا سماج کہا جاتا ہے۔
دیامر سے باہر باقی گلگت بلتستان میں قبائلی سرداروں کے اوپر وزیر اور میر کے اضافی مراتب ہوتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ اضافی مراتب ہمسائے میں موجود ایرانی و تورانی اثرات کے زیر اثر علاقے میں بعد میں رائج ہوئے تھے۔ اپنی اصلی حالت میں ہنزہ، غذر، چترال میں سماج بنیادی طور پر قبائلی سرداروں کے انتظام و انصرام میں رہا ہے۔ اسی لیے سکا یا ترانگفہ، وزیر اور میر کی نسبت قدیم جانا جاتا ہے جن کے تاریخی شواہد اور مآخذ چین کے تانگ حکمرانی اور وسطی ایشیاء خانہ بدوشوں کے ساکا حکمرانی کے دور تک جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا طویل تجزیہ اس لیے پیش کیا گیا کہ ہمیں عمرانی معاہدے اور سماجی ڈھانچے کے خدوخال واضح ہوں۔ جب یہ واضح ہو، تو سماجی نفسیات کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے کیونکہ کہ یہ سماجی ڈھانچے صدیوں سے ہمارے سوچ کی ساخت و شخصیت کی پرداخت کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری موجودہ سوچ صدیوں سے موجود سماجی ڈھانچوں کی کوکھ میں جنم لیتی ہے اور اسی سماجی تناظر میں پنپتی ہے۔ آنے والی سطور میں کوشش ہوگی کہ اس سماجی ذہن کے سماج اور انفرادی شخصیت پر کیا اثرات پڑتے ہیں کا تفصیلی جائزہ لیں۔
یہ بھی پڑیۓ:
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ اول)
۔ گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ دویٔم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ سویمٔ)
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے سماج کی بنیاد اجتماعی پہچان پر ہے۔ اس تصور میں اہمیت گروہ، قبیلے یا کلی شناخت کی ہوتی ہے۔ اس میں اکیلے فرد کو اپنی شناخت بنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کلی تصور یا شناخت کے برعکس فرد کا اپنا انفرادی تصور یا شناخت پوری سماجی ڈھانچے اور سوچ کے خلاف گردانا جاتا ہے اور قابل تعزیر اور بعض اوقات واجب القتل سمجھا جاتا ہے۔ یہی گروہی و اجتماعی رویہ ہمارے ثقافتی رویوں کو بناتا ہے۔
اب، اگر ہم اس رویے کو عورت کے متعلق معاشرتی تصورات سے جوڑیں تو ہمیں تاریخی اور موجودہ دور میں یہی رجحانات نظر آتے ہیں۔ قبائلی معاشرت میں ہر فرد اپنے قبیلے کی شناخت کا حامل ہوتا ہے۔ قبائلی نظام میں عورت کی اپنی علیحدہ شناخت نہیں ہوتی بلکہ وہ پورے قبیلے کی جائیداد سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے خاندان یا قبیلے کے اصولوں سے ہٹ کر کوئی عمل کرتی ہے تو اس کا یہ انفرادی فعل نہیں بلکہ پورے قبیلے کا عمل سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبائلی اخلاقیات عورت کے گرد گھومتی ہیں۔ اسی لیے روایتی قبائلی نظام میں عورت کو خود مختار رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کی کسی بھی حرکت کو قبیلے کی عزت کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے، اور اسی لیے عورت کے معاملے میں غیرت کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مرد کسی دوسرے قبیلے یا علاقے سے عورت کو اغوا کر لیتا ہے تو اس کی بہادری کی تعریف میں رزمیہ گیت اور دھنیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ اگر عورت کسی کے ساتھ بھاگ جائے تو یا تو اسے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا میر/راجے کے حرم میں اس کا انجام ہوتا ہے۔
بروشسکی زبان میں قبیلے کی عورت کو "چھلاثزن” کہا جاتا ہے، یعنی قبیلے کی خاتون جس کی عزت اور حفاظت کی ذمہ داری قبیلے کے ہر فرد پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی عورت کسی غیر سے محبت کر بیٹھے تو وہ اور اس کا محبوب قتل کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے مظاہر آج بھی گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہنزہ کا ایک مشہور "شارشتہ” (نوحہ) ‘لولو’ اس ظلم کی داستان ہے جہاں ایک عورت کے محبوب کا سر قلم کیا گیا تھا کیونکہ اس نے ایک دوسری طاقتور عورت سے محبت کرنے کی جرات کی تھی۔ اس نوحے میں عورت ذات کا طاقت سے نفرت کا واضح اظہار نظر آتا ہے کیونکہ اس میں خاتون ‘ترنگفہ’ (قبائلی اعلیٰ سردار) کے گھر پر آگ لگنے کی بددعا دیتی ہے، کیونکہ اسی گھر میں اس کے محبوب کا کفن تیار ہو رہا ہوتا ہے۔ اس گانے کا ہر لفظ غم و الم اور نسوانی جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار
ترݣفَݳ کُڎے تݵشݵ غُلُمُلو نا۔
وݳ اُنݺ کَپَن ڎَپݳئبانا
وݴ اُنݺ کَپَن ڎَپَناسَر
اَغݸیَݣے بُرکݺ کَم نا لئی
"ترنگفہ کے گھر آگ لگے،
جہاں اس کے محبوب کا کفن تیار ہو رہا ہے۔”
ترنگفہ ہنزہ کے سماجی اور حکومتی نظام میں ایک طاقتور عہدہ ہوتا ہے۔ یہاں عورت غم سے نڈھال ہوکر طاقت سے نفرت کا برملا اظہار کرتی ہے اور اس طرح بغاوت کا علم بلند کرتی ہے۔ ایسے سماجی رویے گلگت بلتستان میں آج بھی موجود ہیں۔ یہاں کی ادبی دنیا میں آج بھی ایسی درد و الم سے بھری کہانیاں موجود ہیں، مگر ادب اور دانشوری پر مردوں کی اجارہ داری کی وجہ سے عورت کے احساسات اور جذبات سامنے نہیں آ پاتے۔ جس دن عورت ہمارے معاشرے میں اپنے خیالات، خدشات، تجربات، اور ارمان بیان کرنے کے قابل بن جائے گی، اس دن ہمیں اپنی نفسیات میں موجود ایک نامعلوم براعظم کی دریافت ہوگی۔ مگر ابھی تک عورت کے خیالات و جذبات کا براعظم ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ آج کل جو دانشوری ہو رہی ہے اور جو ادب تخلیق پا رہا ہے، وہ ادھورا ہے، کیونکہ اس میں صرف مرد کی آنکھ دیکھ رہی ہے، جبکہ عورت کی آنکھ کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
یہاں یہ کہنا مقصود نہیں کہ ہمارا معاشرہ صرف عورت کی نفسیات پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس سماجی نفسیات کا مرد بھی بری طرح شکار ہے۔ مثال کے طور پر، انتقام کی روایت اس علاقے میں بہت پرانی ہے۔ اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ سماجی رسومات بنائی گئی ہیں۔ دشمن سے قتل کا بدلہ لینے کے لیے پورا خاندان اور قبیلہ متحرک ہو کر اس قتل میں حصہ لیتے ہیں۔ اگر وہ فرد جس پر انتقام لینے کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ قتل نہ کرے تو وہ سماج میں جی نہیں سکتا۔ اسی لیے انتقام کے اس عمل کے لیے اصول اور رسومات ہیں۔ مثال کے طور پر اگر خاندان کا کوئی فرد قتل ہوتا ہے، تو اس کے رشتہ داروں میں جو سب سے پہلے قتل ہونے والے کی لاش کے پاس پہنچتا ہے، وہ اپنے ہاتھ کو خون سے تر کر کے اپنے پیشانی پر ملتا ہے اور قسم کھاتا ہے (سگان دوک) کہ وہ قتل کا بدلہ لے گا۔ اگر وہ قاتل کے قتل میں ہچکچاہٹ دکھائے یا قتل نہ کر سکے تو مردوں کے حلقے میں اسے عورتوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے مرد دوست اس سے واسطہ ختم کر لیتے ہیں، کیونکہ ایسے بے غیرت مرد کی وجہ سے مردانگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
۔ گلگت بلتستان میں حیوانی ،معاہدہ
چونکہ عورتیں بھی اسی سماجی ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں، وہ بھی انتقام کے لیے دباؤ ڈالنے میں متحرک رہتی ہیں۔ اگر انتقام لینے والا شخص بدلہ لینے میں دیر کرے تو اس کی بیوی یا بیویاں اس سے سونے سے انکار کر دیتی ہیں۔ بیوی اپنے شوہر سے اس لیے ناراض ہوتی ہے کہ گاؤں کی خواتین اس کے شوہر کو نامرد کہتی ہیں۔ اگر انتقام لینے والا غیر شادی شدہ ہو تو کوئی بھی اپنی بیٹی اسے بیاہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سماجی دباؤ کے نتیجے میں فرد کو قتل کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قتل کا اقدام فرد کی برائی یا شیطانیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ سماجی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کوہستان کے لوگوں میں باقاعدہ انتقام کی روایت پر Kaiser Lincoln نے 1991 میں ایک بہترین کتاب "Friends by Day, Enemy by Night: Organised Vengeance in a Kohistan Community” لکھی ہے۔ ہمارے سماجی زندگی اور تاریخ میں مردوں اور عورتوں کی دی گئی مندرجہ بالا مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عوامل کس طرح گروہی اور قبائلی نفسیات کو تشکیل دیتے ہیں۔
اگلی قسط میں، ہم سماجی نفسیات کے فرد پر اثرات اور اس کے مضمرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ آپ کی جانب سے اپنے تجربات اور مثالوں کی روشنی میں اس مطالعے کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ دی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں