تحریر: عزیزعلی داد
معروف جرمن فلسفی فریڈرک نطشے اپنے افکار کو بیان کرنے کے لیے پرندوں، حشرات، جانوروں اور دیگر جاندار چیزوں کا حوالہ دیتا ہے۔ اسی لیے نطشے کی تحریروں میں ان کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ نطشے اپنے فکری سفر میں ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جہاں دنیا کی لاتعداد حقائق انسان کو جسمانی طور پر عطا کی گئی دو آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ نطشے کے لیے دو آنکھیں کم پڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہ جسم اپنی حدود تک پہنچ جاتا کیونکہ حقیقت ہمارے حواس سے تجاوز کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نطشے شہد کی مکھی کی طرح دو سے زیادہ آنکھوں کی آرزو ظاہر کرتا ہے۔
متذکرہ بالا نطشائی فلسفہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقت ہمیشہ ہماری سوچ سے زیادہ ہی ہوتی ہے مگر حقیقت کے اس سمندر کو اہنے گلاس کے اندر سمونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بے انتہا حقیقت کی زیادہ تفہیم تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے ذہنی آفاق کو کشادہ کریں۔ اس کے بعد ہماری سوچ حقیقت کے بحر و بر، ارض و سماء اور کونیات و کائنات کی ایک جھلک پا سکتی ہے۔
مگر ہمارے سماج کی ذہنی ساخت ہی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے کیونکہ ہم اپنے بصری و ذہنی آفاق کو مزید کشادہ کرنے کی بجائے، پہلے سے دی ہوئی دو آنکھوں میں سے یا تو ایک کو پھوڑ کر ایک ہی آنکھ سے چیزوں کو دیکھنے لگتے ہیں یا دونوں کو ہی پھوڑ کر عقلی طور پر اندھے ہوجاتے ہیں۔ یہ کلیہ مذہبی، لبرل، ملحد، سیکولر، قوم پرست وغیرہم و ہر قسم اور ہر فکر کے حامل لوگوں پر صادق آتا ہے۔
اسی یک رخی بصارت اور اندھا پن کی وجہ سے ہمارے ملک میں مکالمہ یا ڈسکورس کی جگہ مناظرہ چھایا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ذہن تیرگی میں تیر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے بیان کو بیانیہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور تو اور ایک نظر سے معمور لوگ اپنا ایک الگ نظریہ پیش کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔
فلسفے کی روح سے رائے عامہ ہمیشہ فلسفیانہ فکر کی دشمن ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں آہنی عامیانہ رائے کو لوگ علم سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یوں بیانیہ، ڈسکورس اور علمیات جیسے علمی معنوں سے بھرپور الفاظ ہمارے ہاں اپنا اصل کھو کر نقل میں داخل ہو جاتے ہیں۔ نقل کے سرچشموں سے بنائے گئے ایسے فرد کا ذہن ایک نقلی یا عطائی علم ہی پیدا کر سکتا ہے اصلی نہیں کیونکہ ایسے شخص کے پاس شہد کی مکھی کی طرح نہ علم کے پر ہیں کہ وہ پرواز کر سکے، نہ اتنی آنکھیں ہیں کہ حقیقت کی گوناگوں جلوؤں کا مشاہدہ کرسکے اور نہ ہی اس کے پاس پھولوں کا وہ رس سے جس سے علم کا شہد پیدا کر سکے۔
نتیجتا وہ مکھی کی طرح کبھی کسی یوٹیوبر کی ویڈیو پہ بیٹھتا ہے، تو کبھی کسی مناظرے میں، کبھی ٹاک شو تو کبھی کسی بلاگ میں تو کبھی کسی وی لاگ میں۔ بد قسمتی سے ہمارے سماج میں تو اس طرح کے ذرائع ہی علم کے سرچشمے بن گئے ہیں۔
یہاں پر مقصد ابلاغ کے ان ذرائع کو مسترد کرنا نہیں ہے، بلکہ اس چیز کا ادراک کرانا ہے کہ یہ جاننا بہت لازمی ہے کہ کون کس پس منظر سے نکل کر پیش منظر میں آپ کے سامنے آیا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں عموما پس منظر غائب ہونے کی وجہ سے سامنے پیش کردہ منظر ہی ہماری آنکھوں اور ذہنوں میں چھا جاتا ہے۔
اگر ڈاکٹر پرویز ہود بائی طبیعیات، ڈاکٹر منظور احمد فلسفے، ڈاکٹر مبارک علی تاریخ اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر ادب پہ بات کرتے ہیں تو اس کے پیچھے کئی دھائیوں کا مطالعہ، تحقیق اور فکر شامل ہے۔ اگر آپ نے ان علوم کے متعلق جاننا ہے، تو ایسے ہی پس منظر رکھنے والے لوگوں سے علمی استعفادہ حاصل کریں۔
اگر ایک ایسے شخص، مقرر یا شوشل میڈیا بلاگر سے متاثر ہیں جس کے پیچھے تحقیق و تصنیف نہیں ہیں، تو آپ علم کشید کرنے کے لیے کسی پھول نہیں بلکہ گندگی کے ایک ڈھیر پہ بیٹھے ہوئے ہیں جہاں پر صرف گندگی کی مکھی ہی بیٹھ سکتی ہے۔ گند کی مکھی امراض پھیلاتی ہے، اور شہد کی مکھی جسمانی صحت کے لیے بہترین ہے۔ اسی لیے مکھی کو بیماری کا سبب اور شہد کو صحت افزا قرار دیا گیا ہے۔ اس سے سماج جسم کے لیے شہد طلب کرتے ہیں اور ذہن کے لیے گند۔ اس سے سماجی گند پھیلنا یقینی ہے۔
سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے کی بہتات کے زمانے میں ابھی آپ نے خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کو شہد کی مکھی بننا ہے یا گندگی کی مکھی۔ اپنے ذہن کے صحن پھول اگائیں گے تو شہد کی مکھیاں آپ کے گھر کے دامن میں بسیرا بنائیں گے اور اگر ذہن میں کچرا بھر دیں گے تو گندی مکھیاں ہی بھر جائیں گی۔
مصنف کے بارے میں:
عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں