Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان میں حیوانی معاہدہ


از: عزیزعلی داد


معروف جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر ریاست کا تشدد پہ اجارہ داری کو جدید حکومتی نظام کا بنیادی اصول اور ستون قرار دیتا ہے۔ اس تصور کے ییچھے بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اگر ہر فرد اپنے طور پر تشتدد کا ارتکاب کرے گا تو معاشرے قانون کی حکمرانی سے نکل کر حیوانی نراجیت کا شکار ہوگا۔ اسی لیے سماج کو حیوانی جبلتوں اور نراجیت سے بچانے کے لیے انفرادی تشدد کی بیخ کنی لازمی ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ ریاست کو تشدد کے ارتکاب کرنے کا لامحدود اختیار ہے۔ بلکہ ریاست کے اس اختیار کو ایک ادارہ جاتی انتظام و انصرام کے تحت چیک اینڈ بیلنس میں رکھا جاتا ہے۔

ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ جدید ریاست کی طاقت ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے جو ریاست کی سائنس سے یا تو مکمل نابلد ہیں یا طاقت میں آنے کے بعد اس کے استعمال میں بے لگام ہو جاتے ہیں۔ اس کی واضح مثال 13 سالہ فلک نور کے اغوا اور اٹھارہ سالہ انارہ کا قتل ہے۔ فلک نور کے اغوا کیس میں ایک چیز واضح ہے وہ یہ کہ وہ قانونی لحاظ سے شادی کے لئے کم عمر ہے۔ مگر کیا کیجئے گلگت بلتستان کے معاشرے کا جس میں ہر معاملے کو فروعی، علاقائی یا لسانی رنگ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر علاقے کے لوگوں کو دوسرے لوگ کو یا تو بے غیرت نظر آتے ہیں یا ان کو اخلاقی طور پر کرپٹ تصور کیا جاتا ہے۔

پینٹنگ میں دکھایا گیا ہے کہ جنگل کے قانون میں لوگ کیسے ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں۔


اب مسلکی اور علاقائی تعصب ہم میں اتنا سرائیت کر گیا ہے کہ ہم ہر واقعے کو انسانی پہلوؤں سے دیکھنے کی بجائے اپنے تعصبی عینکوں سے دیکھتے ہیں۔ یہی رویہ فلک نور کے کیس میں عیاں ہے۔ اس کیس کے دو پہلو ہیں: ایک سماجی اور دوسرا ریاستی۔ دونوں پہلو ریاست اور سماج کے منہدم ہونے کے علامات دکھا رہے ہیں۔

گلگت بلتستان میں مختلف تعصبات کی وجہ سے ہم نے انسان کو انسان کے طور پر دیکھنے کی صلاحیت کھو دی ہے۔ فلک نور کا کیس لے لیں۔ وہ ایک غریب اور کمزور گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور گلگت کے معاشرے میں غریب اور کمزور ہونا ہی سب سے بڑا گناہ ہے۔ گلگت بلتستان والے ہمیشہ کمزور طبقے پر ہی شیر بنتے ہیں مگر طاقت ور کے تلوے چاٹتے ہیں۔ شینا میں صنفی طور پر ایک بے حس محاورہ ہے کہ "اتولی رویئی سے تومے کھائئی” یعنی کمزور چڑیل اپنوں کو ہی کھا جاتی ہے”۔ ہم میں وہ جرات نہیں کہ طاقت ور کے سامنے حق بات کہہ سکیں۔ اسی لیے طاقت کے تلوے چاٹتے ہیں اور کمزور کو پیروں تلے روندتے ہیں۔

فلک نور کے اغوا کاروں کی جسارت دیکھئے کہ اغوا کرنے کے بعد وہ فلک نور کے بیانات سوشل میڈیا پر تواتر سے شیئر کر رہے ہیں لیکن کسی ریاستی ادارے میں اتنی ہمت نہیں کہ دو مہینے گزرنے کے باوجود کوئی کاروائی کرسکیں۔ پھر آج وزیر داخلہ شمس لون اور حکومتی ترجمان فیض اللہ فراق کی پریس کانفرنس دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ ریاست کی بجاۓ اغوا کاروں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ریاست کی تحلیل ہونے اور سماج کے ٹوٹ پھوٹنے کے نشانیاں ہیں۔

فلک نور کے ساتھ جو ہوا وہ کل کسی کی بھی بیٹی اور بہن کے ساتھ ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اوپر سے جس طرح کے اخلاقیات کی سماج میں ترویج کی گئی ہے اس کا منطقی نتیجہ ایک حیوانی معاشرے کے تشکیل میں نکل رہا ہے۔

فرقہ واریت کے زیر اثر ہمارے سماج میں دوسرے فرقے والوں کو غیر انسان بنانے کے لئے ایک نئی زبان کی تشکیل کی گئی ہے اور یہی زبان ہمارے رویے اور اعمال پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ شینا میں ایک محاورہ رائج ہے ” کافریئے کشثو گا حلال ہن – یعنی کافر کا پیاز بھی حلال ہے”۔ اب کافر کا پیاز حلال ہوسکتا ہے تو کافر کا گوشت وہ بھی چھوٹا گوشت تو ہماری مرغوب غذا بن جاتی ہے۔ یہ سوچ گلگت بلتستان میں لاتعداد معصوموں کی جسمانی آبروریزی اور استحصال کا سبب بنی ہے۔ اگر کوئی ان کہانیوں کو سامنے لاۓ تو ہم دنیا کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

گلگت بلتستان میں مسلکی سوچ کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ پچھلی صدی کے آخری دو دھائیوں میں پہلے گلگت کے خاص علاقوں کو ٹارگٹ کرکے شدت پسند بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں ہم نے گلگت کی گلیوں میں کشت وخون کا کھیل دیکھا ہے۔ ہم اس آسمانی نمائندوں کے خونی کھیل میں کھلونے بن گئے۔ اب پچھلے پندرہ سالوں سے گلگت بلتستان کےسب سے پر امن گجر کمیونٹی کو ہتھیاروں اور شدت پسند سوچ سے مسلح کیا جا رہا ہے۔ فلک نور کے اغوا کیس میں کہا جاتا ہے کہ اس کمیونٹی کے کچھ افراد شامل ہیں۔ اب اس کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاۓ گا جیسے کہ نلتر کے واقعے میں ہوا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نامزد مجرمان کا قانون کی روشنی میں تفتیش کی جاۓ۔ مگر ریاست کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔

فلک نور کے اغوا کاروں کی جسارت دیکھئے کہ اغوا کرنے کے بعد ملزمان فلک نور کے بیانات سوشل میڈیا پر تواتر سے شیئر کر رہے ہیں لیکن کسی ریاستی ادارے میں اتنی ہمت نہیں کہ دو مہینے گزرنے کے باوجود کوئی کاروائی کرسکیں۔ پھر آج وزیر داخلہ شمس لون اور حکومتی ترجمان فیض اللہ فراق کی پریس کانفرنس دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ ریاست کی بجاۓ اغوا کاروں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ریاست کی تحلیل ہونے اور سماج کے ٹوٹ پھوٹنے کی نشانیاں ہیں۔ اوپر سے ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہوا ہے کہ ایک قبائلی اور ماقبل جدیدیت کی ذہنیت کے ہاتھوں جدید ریاستی طاقت اور مشینری ہاتھ میں آگئی ہے۔ ایسی ذہنیت بالآخر سماج کے ہر فرد کو باعزت شہری بنانے کی بجاۓ حیوان بنا کے رکھ دے گی جہاں پہ جنگل کا قانون ہوگا اور ہر بندہ دوسرے کے لئے درندہ ہوگا۔

کتنے المیے کی بات ہے اکیسویں صدی میں ہم ایک جدید عمرانی معاہدہ بنانے کی بجاۓ ایک حیوانی معاہدہ تشکیل کر رہے ہیں جہاں جس کے جتنے نوکیلے دانت اور پنجے ہوں گے وہ اتنا ہی گوشت نوچنے میں آزاد ہوگا۔ یہاں پر بھیڑیا آزاد ہے اور بھیڑ کو باندھا گیا ہے۔

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں