Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان میں خود فراموشی (پہلی قسط)

عزیز علی داد

عزیز علی داد



انسان کی ایجادات میں سب سے بہترین ایجاد زبان ہے جو ہمیں دوسرے افراد، سماج اور کائنات کی تفہیم میں مدد دیتی ہے۔ چونکہ معروضی اور موضوعی دنیا لامحدود ہے اس لیے زبان ہر وقت اس وسعت کو سمیٹنے کی تک و دو میں رہتی ہے۔ زبان کی یہی سعی اس میں وسعت اور تبدیلیاں لانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ حقیقت کی لامحدودیت ہی ہے جس نے انسان کو کثیر النوع زبانیں اور ابلاغ کے وسیلے ایجاد کرنے پر مجبور کیا۔ یہاں زبان سے مراد صرف انسان کی بولنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع تصور ہے جس میں فنون لطیفہ کے ساتھ ساتھ انتہائی تجریدی تصورات اور حتیٰ کہ ریاضیات اور طبیعیات کے گنجلگ فارمولے بھی شامل ہیں کیونکہ یہ فارمولے ہمیں کائنات کے اسرار و روز کا ابلاغ کرتے ہیں۔

انسانی فکر کی پوری تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ حقیقت ہمیشہ ہمارے زبان اور فہم کی گرفت سے تجاوز کر جاتی ہے۔ علم نام ہی انجانے چیزوں اور واقعات کو جاننے کا نام ہے۔ اسی عمل سے ہی انسان میں جستجو کی حس پیدا ہوتی ہے جو بعد میں تلاش اور دریافت کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ مگر آج کے دور میں ابلاغ کی انتہائی ترقی کے باوجود انسان اب جان پہچان والی دلفریب چیزوں میں کھو کر دماغی طور پر مشکل کاموں سے دور بھاگ رہا ہے۔ ابلاغی وسیلوں کی بھرمار  ہمیں جستجو اور تحیر جیسے اہم صلاحیتوں سے محروم کر رہا ہے۔ یوں ہم ایک پھیکی حقیقت اور ذہن اور روح کو پژ مردہ کرنے والے ابلاغی مشین میں کھو رہے ہیں۔

یہ تحیر کی کھوکھ ہی ہے جس سے علم جنم لیتا ہے۔ اسی لئے تو سقراط نے کہا تھا کہ علم کی ابتدا حیرت سے ہی ہوتی ہے۔ اس تحریر میں ہم کوشش کرینگے کہ ہم اپنے سماج اور نظام تعیلم میں ان عوامل، طریقوں اور عادتوں کو دکھائیں جو تجسس اور تحیر کی موت کا سبب بنتے ہیں۔

تجسس اور تحیر کی  موت کا سبب بنیادی طور پر وہ تناقضات ہیں جو جدید دور نے ور خاص طور پر ہمارے نظام حکومت اور معاشرت نے جنم جنم دیئے ہیں۔ اب تک علم کے متعلق رومانوی تصور یہ رہا ہے کہ علم انسان کو اوجھل اور  عیاں جسمانی و فکری زنجیروں سے آزاد کرتا ہے۔ اس میں بڑی حد تک حقیقت بھی ہے۔ اسی لیے دنیا کے دانشوروں نے فکری و علمی آزادی کی حمایت کی ہے۔ مگر آج کے جدید یا مابعد الجدید دور نے ایک تناقض کو جنم دیا ہے۔ وہ یہ کہ علم تعیلم کے زیر اثر آکر علم کھو رہا ہے۔ علم کی آزادی لازمی ہے مگر جب تعیلم خود ریاست نظریات کی غلام بن جائے تو علم پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل علم وہ ہے جو سوال پیدا کرتا ہے۔ ہماری تعلیمی رسگاہیں صرف ایسے جواب پیدا کررہے ہیں جن پہ سوال کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کو فکری طور پر پیدا ہونے کا حق ہی نہیں ہے۔ سو علم کی جگہ تعیقنات کی ایک دنیا پیدا کی جاتی ہے جس کا تحقیق اور علم سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا ہے۔

 تعیلم کے جدید نظام پر تنقید کا مقصد ریاست کی ان ساختیات کو عیاں کرنا ہے جو ہم میں خود فریبی اور خود فراموشی پیدا کررہے ہیں  ابتدائے آفرینش سے اب تک کسی بھی حکومت کے پاس ذہنی کنٹرول کا ایسا ہتھیار ہاتھ نہیں لگا تھا جو جدید ریاست کو سکول کی صورت میں ملا ہے۔ یہی سے بچے کو ایک ایسے نظری سانچے میں ڈھالا جاتا ہے جس سے وہ اپنی اردگرد کی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے۔ سکول وہ فیکٹری ہے جس میں متفرق صلاحیتوں کے حامل بچوں کو ایک ہی نظری سانچے میں ڈالتے ہیں۔ اور یہی نظری سانچہ ہی مستقبل میں انسان کے فہم، عمل اور کردار کو متعین کرتا ہے۔ ایسے ذہن کے سامنے اگر م کوئی ایسا عنصر آجائے، جو اس کے فکری ساخت کے ڈسکورس سے باہر ہو، تو اسے منفی القابات یا نام دیکر مسترد کردیتا ہے یا نظام سے بیدخل کیا جاتا ہے۔ یوں درسگاہوں میں اپنے اردگرد کے معروض سے کٹے اور اپنے موضوعی احساسات سے عاری ایسے روبوٹ تیار کئے جاتے ہیں جو اپنے آپ کی ہی نفی کرتے ہیں۔  اپنی اردگرد کی حقیقت سے کٹے ہوئے بچے کی مثال کو گلگت بلتستان میں اس عمل کے تجزیے سے واضع کرتے ہیں۔

گلگت بلتستان کی جو ثقافت ہے وہ معروض میں موجود جغرافیائی و پہاڑوں کے ساتھ انسانی تفاعل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ اسی  سے سماج کا اپنا ایک رہن سہن اور فکری سانچہ بنا ہوا ہے۔ اسی فکری سانچے نے ایک خاص دیومالا، ادب اور مذہب کو جنم دیا ہے۔ مگر سکولوں میں ہمارے بچوں کے ذہنوں کے اندر دنیا جہاں کے سارے شخصیتوں، افکار اور ثقافتوں کو ٹھونسا جاتا ہے، مگر مقامی ثقافت کے متعلق مجال ہے کچھ بتائیں۔ یوں اپنے اردگرد اور ثقافت سے بے خبر ایک ایسی پود پیدا کرتے ہیں جو شیکشپئر یا غالب کے اشعار فرفر زبانی بتا سکتے ہیں۔ ہمارا ادیب آپ کو لکھنؤ و دلی کا وہ سماجی و ثقافتی پس منظر بتا سکتا ہے جس نے ان اردو کے ادبی روایات اور مزاج کی تشکیل کی مگر جب ہمارے دیومالائی ادب پہ بات نہیں کرسکتے۔ مجھے کچھ اردو مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ شاعری بیترین تھی مگر جس طریقے کا رکھ رکھاؤ, ادب و آداب و تسلیمات بجا لائے جارہے تھے وہ اٹھارویں صدی کے لکھنؤ کی یاد دلا رہے تھے۔ ساتھ بیثھے ایک ادیب نے شکایت کی کہ میں بے حس بیٹھا ہوں اور رسپانس نہیں دے رہے ہوں۔ میں نے بھی کچھ ادبی رکھ رکھاؤ اپنانے کی کوشش کی مگر شین ہارڈ ویئر میں لکھنوی سوفٹ ویئر انسٹال نہیں ہوا کیونکہ شین چہرے اور لکھنؤی خیالات اور ان سے پیدا شدہ جزبات سے لگا نہیں کھا رہے تھے۔ یہی صورتحال تعلیم کے میدان میں بھی ہے. ہم سوائے اپنے دنیا جہان کی باتیں بتا سکتے ہیں۔ خود فراموشی کا یہ عمل اس لیے ہوا ہے کہ علم کا گھر یعنی تعلیم پہ ریاست کا قبضہ ہوا ہے۔ ایسے قابض جگہ سے خود دشمنی، ثقافت کش سوچ اور بالآخر خود فراموشی ہی جنم لے سکتی ہے۔

طاقت سے مرعوب سماج ایسی زبان تخلیق کرتی ہے جو اپنوں کو مسترد اور نفی کرتی ہے اور ظالم کو سراہتی ہے ۔ یہ سماج میں مکالمے کی بجائے فساد اور تفریق ہی پیدا کرتی ہے۔
عزیز علی داد

مذکورہ بالا مسائل کو مزید گھمبیر بنانے کے لئے  مذہب بھی میدان میں کود گیا ہے۔ اب مذہب خود احتسابی، خود شناسی اور خدا شناشی کی بجائے خود فریبی اور خود فراموشی کو جنم دے رہا ہے۔ یوں ہم ہر وہ چیز جو ہماری ثقافت اور تاریخ سے جڑی ہے مسترد کرتے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے دنوں گلگت میں ایک بارگاہ کے چوراہے پہ کارگاہ بدھا یعنی یچھینی کا مجسمہ نصب کیا گیا۔ اس کے بعد مسجدوں سے فتوے جاری ہوئے کہ اس سے ہمارے ایمان کو خطرہ درپیش ہے۔ خواتین سے معزرت کے ساتھ شینا میں ایک محاورہ ہے  "اتولی روئیی سے تومے کھائی” یعنی کمزور چڑیل اپنوں کو ہی کھا جاتی ہے۔ بیچارہ یچھنی بدھا بہت جلد ہمارے مقامی محمود غزنویوں کے ہاتھوں تباہ کردیا جائے گا۔ ہمارے ان غزنویوں میں اتنی سکت نہیں کہ استعصالی نظام کو توڑیں۔ اس کی بجائے یچھینی بدھا کو توڑ کر ہم  جشن  ضرور منائیں گے۔ یچھینی کا بدھا ہماری تاریخ کی ہی پیداوار ہے، مگر جس طرح کا آج کے جدید دور کا نظریاتی اسلام علاقے میں در آیا ہے وہ نا صرف مقامی غیر مسلم تاریخ کو مٹا دے رہا ہے بلکہ مقامی اسلام کی روایات کو بھی ملیامیٹ کررہا ہے۔ یوں ہم اپنے آپ سے بے خبر ایک ایسا سماج بن گئے ہیں جن کے پاس اپنے آپ کو بیان کرنے کے لیے نا اپنی تاریخ ہے نہ اپنی زبان۔ ہمارے پاس صرف طاقت یا رجعت پسندی کی زبان رھ گئی ہے۔ جس سماج میں لوگ طاقت کی زبان کو اپناتے ہیں ان کو طاقت عطا نہیں کی جاتی ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنی زبان نہیں ہوتی۔ ایسے سماج کی تقدیر غلامی ہوتی بے۔ بے زبانی حیوان سے منسوب ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کا طاقت کے اس نظام میں مقام حیوانوں اور غلاموں جیسا ہے۔ اسی لیے ان کو یا تو حیوانوں کی طرح ڈنڈے ہانکا جاتا ہے یا غلاموں کی طرح حکم یا آرڈر کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اسی افسوسناک صورتحال کو ہمارے انقلابی دوست عنایت بیگ نے اپنے  مشہور گانے کے ایک مصرعے میں یوں بیان کیا ہے:

سئے سوچ ، نظر گہ سئے زبان بند ہن گوگا مالئیے شری

کمیک اکو گا چکا، کمک توم کمیئے گا چکا۔

تم لوگوں کی سوچ، نظر اور زبان گائے اور جانوروں کی طرح بند ہے۔

تھوڑی اپنے حالت زار کو بھی دیکھو اور تھوڑی اپنی کمیوں پر نظر ڈالو۔

 گلگت بلتستان میں ہم حیوانوں کی طرح بے زبان ہوگئے ہیں۔ اسی لئے تو دو ہزار نو کے بعد آرڈر پہ آرڈر دئیے جارہے ہیں اور ہم یس سر کہہ رہے ہیں۔ ایک عربی ناول نگار نے الجیریا میں فرانس کی نو آبادیاتی نظام پہ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس کا کالونیل نظام ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں فرانسیسی زبان میں شکریہ ادا کرنا بھی سکھاتا ہے۔ طاقت سے مرعوب سماج ایسی زبان تخلیق کرتی ہے جو اپنوں کو مسترد اور نفی کرتی ہے اور ظالم کو سراہتی ہے ۔ یہ سماج میں مکالمے کی بجائے فساد اور تفریق ہی پیدا کرتی ہے۔ (جاری ہے)


aziz-ali-dad

عزیزعلی داد کا تعلق گلگت-بلتستان سے ہے۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر ان کے مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عزیز برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہ چکے ہیں۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے