گلگت بلتستان میں خود فراموشی: مسخ شدہ ذات (حصہ سوم)
عزیز علی داد
مضمون کی پچھلی قسط میں ہم نے گلگت بلتستان کے سماج میں پائی جانے والی تشویش اور یاسیت کے عوامل کا جائزہ لیا تھا۔ اس تیسرے حصے میں ہم اس نفسیاتی کیفیت سے پیدا ہونے والی ذہنیت اور نتائج پر بات کریں گے۔ ہم طاقت کی تشکیل کردہ زبان اور اس کی پیدا کردہ سماجی بیماریوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
ہمارے سماج نے جس طرح کا نظریہ حیات بنایا ہے اور نظام اپنایا ہے وہ اپنی دوام کے لیے ایسے ڈراؤنے مخلوقات ایجاد کرتا ہے جو اپنا وجود ہی نہیں رکھتے، مگر ہمارے لیے وہ حقیقی ہوتے ہیں۔ اس کیفیت کو مکس سٹرنر Max Stirner سپوک spook کا نام دیتا ہے۔ سپوک وہ سماجی تشکیلات و تصورات ہیں جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں لیکن یہ ہمارے خیالات اور اعمال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگ ہمیں ڈراونی بلا یا بدروح نظر آتے ہیں۔ سٹرنر معاشرے کے بعض اداروں اور مروج اقدار کو سپوک یا خیالی/ڈراونی مخلوق تصور کرتا ہے۔ ایسی مخلوقات تب تک وجود رکھتے ہیں، جب تک ہم ان پہ یقین رکھتے ہیں۔ جس دن ہم ان پہ یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں یہ اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں بعض ادارے اور مروج اقدار و تصورات ان بدروحوں اور ان سے وابستہ خیالات کو دوام بخشنے کے لیے موجود ہیں۔ جس دن ان پہ یقین اٹھ جائیگا، خام خیالات اور بدروحیں بیچنے والے ادارے اور دکانیں اسی دن بند ہو جائینگے۔
یہ خیالی بلاوں پر یقین رکھنے والی ذہنیت ہی ہے جو ہمیں اپنے خونی رشتوں سے جڑے لوگوں کے وجود کو ماننے سےانکار کروادیتی ہے اور کسی دوسرے سماج رائج خیالات اور اور سیارے کی مخلوق کو اپنا سمجھتے ہے۔ یہ بیگانگی کا پہلا عمل ہے جہاں معروضی حالات سے ڈر کر، دوسروں کے تشکیل دیے ہوئے افسانوں پر یقین رکھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے شین اپنے یشکن بھائی سے زیادہ ابو جہل کی نسل ہونے پہ فخر کرتا ہے۔ بسین کا شعیہ جاگیر بسین میں گھر نہیں بنا سکتا، مگر جنوب سے پاکستان کا ایک سینیٹر اپنا محل بنا سکتا ہے۔ کوئی سعودی عرب اور کوئی ایران کو اپنا مانتا ہے مگر ہمسائے میں بیٹھے سنی یا شیعہ یا اسماعیلی کو بھائی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ بلتی تبت سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے مگر ساتھ رہنے والے بروکپا کو اپنا نہیں سمجھتا۔ یاسین کے بروشو کو ہنزہ کا بروشو قبول نہیں۔ تاجک وخی کا بھائی ہوسکتا ہے، مگر گلگت والے اس کے اپنے نہیں ہیں۔ گلگت میں چالیس سال پہلے کا آباد ہزارہ وال گلگتی ہے مگر سو سال پہلے کا آیا ہوا ہنزہ والا گلگتی نہیں ہے۔ میسوڈونیا کے لوگ ہنزہ کے بروشو کے اپنے ہیں مگر گوجالی اپنے نہیں ہیں۔ بقول جان بڈلف چلاسی اپنے پاس پر ہندو، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں کو برداشت کرسکتے ہیں مگر شیعہ کو نہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ ہم اپنے سوا باہر جو بھی ہے ان سب کے ہیں۔
یہ بحی پڑھیۓ
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ اول)
۔ گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ دویٔم)
جو سب کا ہوتا ہے وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ یہ بیگانگی کی آخری صورتحال ہوتی ہے۔ بیگانگی کی کیفیت ایسی نہیں ہوتی کہ اس میں لوگ کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ متسعد ہوتے ہیں مگر شخصی اور سماجی تخریب کے لیے۔ اس حالت میں ہم اپنے گردوپیش، تاریخ اور سماج سے بے اعتنا ہو جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے دل تجاہل کا شکار و دماغ جاہل ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی لمحات ہیں جہاں اندرون ذات کی خلا کو پر کرنے کے لیے باہر سے چیزیں اور بلائیں ہمارے اندر داخل ہوکر ہماری ذات کو ہم سے بیدخل کردیتے ہیں۔ یوں روح بیرون کے تابع ہو جاتی ہے۔ جبکہ روح غلام بن جائے تو جسم کو مطیع کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ نفسیات کی روح سے ایسی شخصیت جس کے اندر کچھ نہ ہو وہ باہر میں دکھاوا زیادہ کرتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب باہر ہمارے اندر جگہ بنائے۔
چونکہ گلگت بلتستان کا سماج اندر سے کمزور اور سہما ہوا ہے، اس لیے باہر کی چیزوں، نظام اور عادات کا غلام ہوگیا ہے۔ اسی لئے تو ہماری شخصیت کو گاڑی، کوٹھی، تنخواہ، عہدہ اور پیسے کے پیمانے سے ماپا اور دیکھا جاتا ہے۔ جتنی بڑی گاڑی ہوگی اتنی مضبوط شخصیت ہوگی۔ اگر عہدہ ہے تو طاقت کا بھرم مارنے کے لیے ہے۔ ایسا عہدہ جس میں بھرم نا ہو فضول ہے۔ اس سماجی نفسیات کو گلگت خومر کے ہر دل عزیز سوین نمبردار انور مرحوم نے بہت خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "بغیر گاڑی کے آفیسر بننے سے گاڑی والے آفیسر کی بیوی بننا بہتر ہے”۔ یہ مختصر سا جملہ گلگت بلتستان کی سماج کی نفسیات کے دریا کو کوزے میں بند کرتا ہے۔ یہاں کہنا کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی عہدہ نا لیں یا آفیسر نہ بنیں۔ اصل مدعا یہ ہے کہ اپنے عہدے کو اپنے آپ یا اپنی ذات پر حاوی مت کریں۔ جب عہدہ ذات پہ حاوی ہوجاتا ہے تو ذات ختم ہوکر بندہ تاحیات نوکر ہی رہتا ہے۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے پاس اپنی ذات کے متعلق بتانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے پاس نوکری کی باتیں رھ جاتی ہے۔ جب افسری کا عہدہ ختم ہونے کے بعد آپ نوکری باتیں کرینگے تو آپ اس وقت لوگ آپ کو آفیسر نہیں نوکر سمجھیں گے۔ جب شخصیت کے اندر کچھ نہیں ہوگا تو گھر کے باہر عہدے کی تختی اور گاڑی کے اوپر نمبر پلیٹ پہ عہدہ لگتا ہے۔ اندر کھوکھلے پن کو گاڑی پر لگے ہوٹر کے شور سے چھپانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اپنے اندر طاقت نہیں ہوتی ہوتی ہے، تو گارڈز رکھ کا طاقت کا بھرم دکھاتے ہیں۔
طاقت پہ مبنی سوچ اور زبان ہمارے گھروں، خاندانوں اور زبان میں سرایت کرچکے ہماری سوچ اور رویوں کو بھی آلودہ کررہے ہیں۔ یاد رکھیئے حقیقت ہماری روزمرہ چیزوں، رویوں اور حرکات میں ہی موجود ہوتی ہے مگر چونکہ یہ ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے ہمہ وقت موجود ہوتی ہے، اس لیے ہم سے اوجھل رہتی ہے۔تو بات ہی ہے کہ اندرونی طور پر کھوکھلے سماج میں یہ چیزیں ہمارے آنکھوں سے سامنے وقوع پذیر ہورہے ہوتے ہیں مگر ہماری اپنی ذات سے غافل ہونے کی وجہ سے اس کی تفہیم نہیں کرپاتے ہیں۔ سماجی رویوں کے متعلق اپنے دعووں کو ہم اپنے گھروں سے مثالوں اور سماجی اعمال سے سے مثالیں دیکر واضع کرنے کی کوشش کرینگے۔ یہ مثالیں میرے محدود تجربوں اور مشاہدات پر مبنی ہیں۔ قارئین اپنے اردگرد اور گھر کے اندر سے بہتر مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیۓ
۔ گلگت بلتستان میں حیوانی ،معاہدہ
ہمارے پڑھے لکھے گھروں کے ماحول اور زبان کا مشاہدہ کریں تو ایک پیٹرن نظر آتا ہے جو متحرک نفسیاتی بیماریوں کی علامات ہیں۔ نوجوانوں کو رہنے دیجئے، بزرگ بھی طاقت کی زبان بولتے ہیں۔ مجھے متعدد دفعہ رشتہ داری اور تعلق داری میں شادیوں اور دگر دعوتوں میں جانا ہوتا ہے۔ جو بات واضع ہوکر مشاہدے میں آئی وہ یہ کہ بزرگ اپنے چھوٹوں کو نام سے پکارنے کی بجائے کرنل، ڈاکٹر انجنئیر، ایڈوکیٹ، جج، سی ایس او، منیجر، آری، ایکسیئن، سیکریٹری اور دیگر عہدوں کے ساتھ صاحب کا لاحقہ لگا کر پکارتے ہیں۔ یہی رویہ سب رشتہ داروں میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ اب ہم بیٹے، بیٹی، چچازاد، ماموں ذات، خالہ ذات، پھپھی ذات نہیں رہے بلکہ عہدہ دار بن گئے ہیں۔ عہدہ ہماری ذات کو کھا گیا ہے۔ انہی عہدوں اور پوزیشنوں کے ساتھ ہم لوگوں سے ساتھ اپنے رویوں کو بناتے ہیں۔ بغیر عہدے کا رشتہ دار ہمارا ہوتا ہی نہیں ہے۔ جس طرح کی زبان اس وقت ہمارے گھروں میں پنپ رہی ہے، اس سے شخصیت کی تعمیر کم اور تخریب زیادہ ہوتی ہے۔ اور ہم اس مسخ شدہ یا خراب شخصیت کو تکمیل شخصیت سمجھ کر معاشرے میں دکھاتے اور اس پر اتراتے پھررہے ہوتے ہیں۔
اس نامکمل اور خراب شخصیت کا اظہار سماجی سپیس میں عیاں ہیں۔ ہم گلگت بلتستان والوں کو بڑے لوگوں یعنی طاقت ور و بااثر افراد کے قریب ہونے پر بڑا فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہاں یہ کہنا نہیں ہے کہ انسان کے تعلقات نہیں ہونے چاہئے، مگر یہ سماجی بیماری تب بن جاتی ہے جب یہ ہماری انفرادی شخصیت پر مکمل حاوی ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں جہاں دیکھتا ہو طاقت کی کارروائیاں اور مہربانیوں نظر آتی ہیں۔ یہ طاقت کی پوجا ہے جو ہمیں اس کے قریب ہونے کے لیے مجبور کر دیتی ہے۔ طاقت کی قربت کے ثبوت کے طور پر ہم اپنے موبائل میں ہر بڑی شخصیت کے ساتھ تصویر محفوظ رکھتے ہیں۔ جب وہ شخصیت کسی عہدے پر ترقی پالے یا نئی پوزیشن پالے تو جھٹ سے تصویر لگا لیتے ہیں تاکہ یہ اپنی جان پہچان ثابت کرکے اپنے آپ کو طاقت کا حصہ ثابت کیا جاسکے۔ اس کے تجزیے کے لیے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنا فیس بک وال چیک کرلیں۔ اگر آپ کے وال پر خالی بڑے لوگ ہی ہیں اور عام لوگوں عنقا ہیں یا کم یا اپنی کوئی چیز کہنے اور دکھانے کی نہیں ہے تو جان لیں کہ آپ طاقت کے جراشیم سے انفکیٹ/متاثر ہوئے یا مرعوب ہوئے ہیں۔ آپ کو صحت یاب ہونے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر علاج کی ضرورت ہیں۔
اب یہ رویہ کسی خاص علاقے، طبقے یا لوگوں تک محدود نہیں رہا ہے۔ اس سے ہر خاص و عام متاثر ہورہے ہیں۔ خود ادب کا میدان کو لے لیں۔ بعض بہت ہی اچھے باصلاحیت لکھاری جوانی میں ہی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب وہ کسی ادیب کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو جھٹ سے اس کی شخصیت و خدمات پہ مضامین لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی بھی اچھا نقاد کسی کے کام کے متلعق نتائج گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بعد پہنچتا ہے۔ اس کا آغاز سوال سے ہوتا ہے۔ مگر ادبی طاقت سے قربت کی خواہش میں جواب سے ہی ادبی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ بلاشبہ ستائش و تنقید کسی بھی ادبی سفر کے حصہ ہوتے ہیں، مگر سفر کا آغاز ہی ہم خوشامد سے کرتے ہیں تو ایک ایسی راہ پر نکل پڑتے ہیں جہاں ہر تخلیقیت کم اور شخصیت پرستی پر زیادہ گزر بسر کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ادب مکالمے اور اختلاف کی بجائے ایک پبلک ریلیشنز میں تبدیل ہو جاتا ہے اور فنکار فنڈ کار بن کر رھ جاتا ہے۔
مندرجہ بالا اوصاف کے حامل معاشرہ بزدل ہوتا ہے اس لیے وہ سچائی سے چھپنے کے لیے اپنے بنائے ہوئے فکری یا سچائی کے خول میں بند رہتا ہے۔ اس سماج سے اگر اس کی جھوٹی حقیقت کا پردہ سرک جائے تو اسے اپنی بھیانک سچائی کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے وہ حقیقت کی روشنی سے چھپنے کے لیے سوائے روشنی کے قریب جانے کے ہر اندھیرے میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ جو کوئی شعور کی شمع جلائے گا، اندھیروں کے تاجر اس کو بجھا دیتے ہیں۔ اسی اندھیرے کی خواہش سماج کے اندر ایسی وباوں، عفریتوں اور بلاوں کو جنم دیتا ہے جو اسے اندر سے کتر کر کھا جاتے ہیں، اور بالآخر دبے ہوئے لاشعور کی قید سے نکل کر ہمارے شعوری کیفیت اور شخصیت کو بھی نگل جاتے ہیں۔ اس عمل کو سماجی خودکشی کا نام دے سکتے ہیں۔
پینٹگ: نقابوں میں گم شدہ ذات
خودکشی سواس یاس/حزن و مایوسی کی پیداوار ہے جو اپنے قابو میں نہیں رہتی۔ یوں ہماری نفسیاتی کیفیت یا بیماری کسی انفرادی سطح یا موضوعیت سے الجھے ذہن سے نہیں بلکہ ہماری معذور کردینے والے معروض سے پیدا ہوتی ہے. معروض کی تشکیل دی ہوئی ذہنیت کیفیت کا مظہر سماج کے ہر فرد میں نظر آتا ہے۔ آجکل گلگت بلتستان میں نوجوانوں میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئے تعداد پہ تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس کے سدباب کے لیے انفرادی سطح پر کاونسلنگ کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ اس انفرادی فرد کے اندر جھانکنے کی عادت سے مجھے اختلاف ہے کیونکہ ہم پٹی وہاں لگانے کی کوشش کررہے ہیں جہاں زخم ہے ہی نہیں۔ اصل اور گہرا زخم گلگت بلتستان کے اجتماعی لاشعور اور شعور پہ لگا ہے۔ وہ زخم علاج نا ہونے کی وجہ سے خراب ہوکر ناسور بن رہا ہے۔ اس لیے سارے سماج کو کاونسلنگ کے لیے نفسیات دان کے صوفے پر لٹانے کی ضرورت ہے۔ اکیلے فرد کی تطہیر نفسی سے کام چل ے والا نہیں۔ خودکشی کسی فرد میں موجود انفرادی نفسیاتی بیماری نہیں بلکہ مروج انتظامی و سیاسی نظام کی ان دیکھی پیداور ہے جو سماجی الجھنوں اور بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں نوجوانوں کی خودکشیاں ایک احتجاج ہے جو افراد کے اندر ہو رہا ہے جس میں فرد اپنے آپ کو مار رہا ہے۔ جب یہ احتجاج موضوع کے اندرون سے نکل معروض کی طرف باہر نکلے گا تو سب کو مار ڈالے گا۔ یہ یاس و حزن کا آخری نتیجہ ہوتا ہے۔
آج گلگت بلتستان یاس اور مایوسی کے اس پہاڑ کی اس آخری دہانے پہ کھڑا ہے جہاں پیچھے مڑنے کا راستہ نہیں اور نیچے گہری کھائی ہے یا دریا۔ انگریزی میں اس کو
Between the devil and deep sea
یعنی شیطان اور سمندر کے درمیان پھنسنا۔ جب پیچھے مڑنے کا راستہ نا ہو تو ایک مایوس سماج کے لیے دریا ہی راستہ نظر آتا ہے۔ اس موجودہ نظام کی وجہ سے گلگت بلتستان کا پورا سماج دریا میں کود رہا ہے۔ اس کو بچانے کے لیے ہمیں فرد، زبان، ثقافت، نظام، نقطہ نظر،رویوں اور اپنی روح کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ کیسے ہوگا؟ اس پہ مزید سوچ ک اگلی قسطوں میں لکھیں گے۔
ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ‘دی نیوز’، ‘فرائڈے ٹائمز’، ‘ہم سب’،’ ہائی ایشیاء ہیرالڈ ‘اور ‘بام جہاں ‘میں سماجی و فکری موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں۔