تحریر صفی اللہ بیگ
دریائے سندھ پر چولستان کو آباد کرنے اور کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے ایک نجی کمپنی کے منافع کی خاطر نئی نہریں نکالنے کے خلاف جدوجہد ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اسے ملک گیر تحریک کی شکل دے کر اس منصوبے کا خاتمہ کرنا پاکستان، خصوصاً سندھ کے عوام کے لیے نہایت اہم ہے۔
مگر سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پختونخوا کے عوام کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ دریا سندھ پنجاب سے نہیں نکلتابلکہ تبت کے پہاڑوں سے شروع ہو کر لداخ سے ہوتے ہوئے متنازعہ گلگت بلتستان کے بڑے گلیشیرز سے پانی حاصل کر کے ایک عظیم دریا کی شکل اختیار کرتا ہے اور پاکستان میں خوراک کی پیداوار کا ضامن بنتا ہے۔ تاہم، ریاست پاکستان کے دیگر گھمبیر حالات، معاشی بدحالی اور ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات کی روشنی میں صرف نئی نہریں نکالنے پر پابندی دریا سندھ کو محفوظ کرنے کے لیے دیرپا حل نہیں ہے۔ بلکہ دریا سندھ کو ایک اہم فطری اور ماحولیاتی اثاثے کے طور پر بچانے اور اسے محفوظ (protected) قرار دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر دریا سندھ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے اور بچانے کا واحد حل متنازعہ گلگت بلتستان پر پاکستان کا ماورائے آئین 77 سالہ نوآبادیاتی انتظامی کنٹرول کا خاتمہ ہے۔
کیونکہ پاکستان کا ماورائے آئین متنازعہ گلگت بلتستان پر 77 سالہ نوآبادیاتی کنٹرول میں حکمران اشرافیہ نے گلگت بلتستان کے گلیشیرز اور فطری وسائل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اور عوام کو نہ صرف ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے، بلکہ پاکستان کے غیر آئینی انتظامی کنٹرول میں عوام کو فیصلہ سازی سے بھی مکمل طور پر بے دخل کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ دریا سندھ اور اسے پانی فراہم کرنے والے گلیشیرز اور مقامی ندی نالوں کو بچانے کا دیرپا اور واحد حل متنازعہ گلگت بلتستان پر پاکستان کا مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام کا مکمل خاتمہ اور اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر موجود قراردادوں کی روشنی میں متنازعہ گلگت بلتستان میں خود مختار لوکل اتھارٹی اور آئین ساز اسمبلی کا قیام ضروری ہے۔ اس لیے سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کو دریا سندھ اور پاکستان میں انسانی تہذیب کو بچانے کے لیے متنازعہ گلگت بلتستان سے پاکستان کے نوآبادیاتی کنٹرول کے خاتمے کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ تاکہ گلگت بلتستان کے گلیشیرز، دریا، پہاڑ اور دریا سندھ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا جا سکے۔
کیونکہ اب پاکستان متنازعہ گلگت بلتستان میں بغیر کسی قانونی معاہدے کے 105 کلومیٹر لمبی اور 81 ملین ایکڑ فٹ پانی کی جھیل بنا کر 4,500 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیم بنا رہا ہے۔ یعنی دریا سندھ کا صاف اور بہتا ہوا زرخیز پانی 105 کلومیٹر جھیل میں مردہ پانی کے ذخیرے میں تبدیل کیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں دیامر کے 35 ہزار افراد ہمیشہ کے لیے بے گھر ہوں گے۔ اور 50,000 کے قریب بدھ مت کے زمانے کے پتھروں پر کندہ کیے گئے نقوش اور تحریریں ہمیشہ کے لیے دریا برد ہو جائیں گی۔ اگر دیامر ڈیم کی اونچائی (272 میٹر) میں 50 میٹر کی کمی کر دی جاتی تو 17,000 افراد بے گھر ہونے سے بچ جاتے اور کم از کم 10,000 تاریخی پتھروں پر کندہ نقوش بھی زیرِ آب نہیں آتے۔ مگر پاکستان کے حکمران اشرافیہ کو نہ گلگت بلتستان کے عوام کی فکر ہے، نہ ہی دیامر کے متاثرین کے بے گھر ہونے سے کوئی سروکار ہے، اور نہ ہی انہیں تاریخی ورثے کی تباہی سے کوئی غرض ہے۔ بلکہ ان فطرت اور عوام دشمن حکمرانوں کو صرف اپنے مفادات ہی عزیز ہیں۔
پاکستان نے 2010 کے زرداری دورِ حکومت میں CCI سے متنازعہ گلگت بلتستان کے ساتھ بغیر کسی قانونی معاہدے کے دیامر ڈیم کا منصوبہ منظور کرایا۔ اور آج دیامر کے ہزاروں متاثرین پچھلے 22 دنوں سے معاوضے کی ادائیگی اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے دھرنے پر ہیں۔ اس ڈیم کے لیے دیامر گلگت بلتستان کا 34 ہزار ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے، جبکہ خیبر پختونخوا سے صرف 1,452 ایکڑ زمین لی گئی ہے۔ مگر 96 فیصد ڈیم متنازعہ گلگت بلتستان میں ہونے کے باوجود نہ تو متاثرین کو معاوضہ دیا گیا ہے، نہ ہی متنازعہ گلگت بلتستان کو جھیل کی رائلٹی، بجلی کی تقسیم اور بجلی کی آمدنی میں حصہ دینے کے لیے کوئی قانونی معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اور نہ ہی ڈیم کی تعمیر میں درکار 15 ہزار ملازمتوں میں دیامر اور متنازعہ گلگت بلتستان کو مناسب حصہ دیا جا رہا ہے۔
ماحولیاتی اور جغرافیائی طور پر نہایت حساس دیامر میں 105 کلومیٹر پانی کی جھیل اور 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ کرنے کا مقصد صرف اور صرف پنجاب کے بالادست حکمران اشرافیہ کے زرعی و معاشی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اس ڈیم اور اس میں پانی کے ذخیرے سے سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو معاشی فوائد نہیں مل سکتے۔ مگر پاکستان کی بقا دریا سندھ کو محفوظ رکھنے میں ہے، نہ کہ پنجاب کے بالادست طبقے اور حکمران اشرافیہ کی تجوریاں بھرنے میں۔
صفی اللہ بیگ ثقافتی ماہر، سیاسی و ماحولیاتی کارکن ہیں وہ ان موزوعات پر سوشل میڈیا میں لکھتے ہیں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم پہ تبصرہ کرتے ہیں۔
