مطالبات پر حکومتی خاموشی سے تناؤ میں اضافہ لانگ مارچ کی دھمکی
شیر نادر شاہی
بیوروچیف بام جہاں، ہائی ایشیاء ہیرالڈ
چیلاس : گلگت ۔بلتستان کے ضلع دیامیر میں متاثرین دیامیر ڈیم کے زیر اہتمام "حقوق دو، ڈیم بناو تحریک” دوسرے ہفتے میں داخل ہوگیا ہے۔ چلاس زیرو پوائنٹ پر شاہراہ قراقرم سے متصل گراونڈ میں دیامیر بھر سے ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین گزشتہ سات دنوں سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔






عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئر مین احسان علی ایڈووکیٹ، نے ہفتے کے روز دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیامر کے عوام خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے اتحاد سے فرقہ واریت اور ریاستی سازشوں کو دفن کیا ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ” یہ احتجاج صرف دیامیر تک محدود نہیں رہے گا۔ اگر مطالبات کو منظور نہیں کیا گیا تو ہم پورے گلگت بلتستان میں تحریک کو پھیلائیں گے۔”
درین اثنا ،عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کی ایک وفد نے صدر کامریڈ بابا جان کی سربراہی میں دیامیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے چیلاس کا دورہ کیا۔
احتجاجی دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بابا جان نے کہا کہ یہ "ڈیم ہماری زمینوں، آباؤ اجداد کی قبروں، اور قدیم آثار کو ڈبو کر اسلام آباد کو روشن کرنے کی کوشش ہے۔ ہم ایسی ترقی کو مسترد کرتے ہیں جو عوام کو بے گھر کرے”۔
بابا جان، جو عطا آباد کے سانحہ کے متاثرین کے حق میں آواز اٹھانے پر 10 سال جیل میں رہ چکے ہیں، نے زور دے کر کہا کہ ریاست جبر کے ذریعے ہماری آواز دبانا چاہتی ہے، لیکن یہ تحریک اب طوفان بن چکی ہے۔انہوں نے پرجوش نعروں کے ذریعے لوگوں کو گرمایا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان ۷۷ سالوں سے ہمارے ساتھ نوآبادیاتی سلوک روا رکھی ہے اور ہمارے قدرتی وسائل پر قابض ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو اکھاڑ پھینکیں اور آزادی حاصیل کریں۔
اس دوران بامِ جہاں کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کامریڈ بابا جان کا کہنا تھا کہ ” حکومت ڈیم متاثرین کے مطالبات کو حل کرنے کے بجائے خواب غفلت کی نیند سورہی ہے، یہ صرف دیامیر کے عوام کی تحریک نہیں ہے بلکہ پورے گلگت بلتستان کی ہے۔
احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے رہنماوں محبوب ولی، غلام عباس ایڈوکیٹ، شیرنادر شاہی، نصرت حسین، حاجی نائب خان اور اصغر شاہ نے کہا کہ ہم گلگت سے دیامیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے یہاں آئے ہیں۔ ہم اس تحریک کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ڈیم متاثرین کے تمام بنیادی مطالبات فی الفور تسلیم کریں ۔
انہوں نے واپڈا پر زور دیا کہ وہ 18 ہزار ایکڑ اراضی کے غیرمنصفانہ معاوضے اور "چولھا سپورٹ پیکیج” جیسے وعدے فوری پورے کرے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے رابطہ سکرٹری نصرت حسین نے اس موقع پر بام جہاں کو بتایا کہ حکومت دیامیر کے عوام کی 18 ہزار ایکڑ اراضی مفت میں حاصل کرنا چاہتی ہے، ڈیم متاثرین کو حکومت نے بہت کم ادائیگیاں کی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابرہے۔ حکومت متاثرین کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر فی الفور عمل درامد کرے




متاثرین دیامیر ڈیم کے بنیادی مطالبات کے حوالے سے بام جہاں سے بات کرتے ہوئے دیامیر یوتھ موومنٹ کے صدر و آرگنائزر دھرنا شبیر احمد قریشی نے کہا ہے کہ "حقوق دو ڈیم بناو تحریک” نے 31 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے جس کے تحت ہمارا مطالبہ ہے کہ دیامیر بھاشاڈیم کی اسی فیصد رائیلٹی گلگت بلتستان کے عوام کو دی جائے۔
اس ڈیم کی زد میں ہمارےگھر اور زرعی اراضیات تباہ ہورہی ہیں ان کے بدلے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہمیں پیسے دیئے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے 2015 میں متاثرین سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو زرعی اراضیات کے بدلے اراضی اور گھر بنا کر دینگے جس پر ابھی تک عملدرامد نہیں ہوسکا ہے۔ ہمار مطالبہ ہے کہ ریاست پاکستان ڈیم متاثرین کے 31 نکاتی ایجنڈے کو فی الفور تسلیم کرتے ہوئے مطالبات منظور کرے بصورت دیگر دھرنا جاری رہے گا۔
گلگت بلتستان میں تناؤ اور احتجاجی تحریک کی شدت
گلگت بلتستان میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ احتجاج کمیٹی کے رہنماوں نے وفاقی حکومت کو ان کی مطالبات ماننے کی دھمکی دیتے ہوئے ڈیم سائٹ تک لانگ مارچ کااعلان کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر وزیراعظم کی زیرقیادت وزارتی کمیٹی نے ڈیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے معاوضے، آبادکاری، نوکریوں کے باقاعدہ اجرا، اور متاثرہ کمیونٹیز کے نمائندوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے جیسے مطالبات پر فوری عملدرآمد نہ کیا تو وہ پورے دیامر کو جام کر دیں گے۔
عوامی دباؤ اور معطل سرگرمیاں
سینکڑوں احتجاجی جن کے ہاتھوں میں "ہماری زمین، ہمارے حقوق”، "مقامی نوجوانوں کو نوکریاں دو” جیسے بینر تھے، نے علاقے کی شہری اور تجارتی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے۔ 29 ارب ڈالر کے اس ڈیم کے گرد تناؤ بڑھ رہا ہے جہاں نسلی زمینوں، وسائل، اور وفاقی وعدوں کے عدم پورا ہونے کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ تجزیہ کار انسانی، ماحولیاتی، اور ثقافتی تباہی کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں۔
احتجاجی رہنماوں کا کہنا ہے کہ یہ جدوجہد صرف معاوضے تک محدود نہیں، بلکہ "استعماری تسلط سے آزادی” کی جنگ ہے۔
متاثرین دیامیر ڈیم کے بنیادی مطالبات کے حوالے سے بام جہاں سے بات کرتے ہوئے دیامیر یوتھ موومنٹ کے صدر و آرگنائزر دھرنا شبیر احمد قریشی نے کہا ہے کہ "حقوق دو ڈیم بناو تحریک” نے 31 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے جس کے تحت ہمارا مطالبہ ہے کہ دیامیر بھاشاڈیم کی اسی فیصد رائیلٹی گلگت بلتستان کے عوام کو دی جائے۔
اس ڈیم کی زد میں ہمارےگھر اور زرعی اراضیات تباہ ہورہی ہیں ان کے بدلے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہمیں پیسے دیئے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے 2015 میں متاثرین سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو زرعی اراضیات کے بدلے اراضی اور گھر بنا کر دینگے جس پر ابھی تک عملدرامد نہیں ہوسکا ہے۔
ہمار مطالبہ ہے کہ ریاست پاکستان ڈیم متاثرین کے 31 نکاتی ایجنڈے کو فی الفور تسلیم کرتے ہوئے مطالبات منظور کرے بصورت دیگر دھرنا جاری رہے گا۔
ہنزہ-نگر میں یکجہتی
ہنزہ کے شہر علی آباد میں تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، تاجر اور ہوٹل ایسوسی ایشنز نے متاثرین کے حق میں ریلی نکالی۔ شرکاءکا کہنا تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے پورا گلگت بلتستان متاثر ہوگا۔ ہم دیامیر کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نگر شینبر میں بھی قراقرم نیشنل موومینٹ کے کارکنوں اور عوام نے حقوق دو ڈیم بناو تحریک کے حق میں اور دیگر تعلیمءی و صحت کے مسائل کے حوالے سے مظاہرہ کیا ۔
31 نکاتی مطالبات اور حکومتی ردعمل
تحریک کے رہنماوں نے 31 نکاتی چارٹر پر فوری عمل کا مطالبہ کیا ہے جس میں زمینوں کا معاوضہ، بے گھر خاندانوں کے لیے نئی آبادیاں، مقامی نوجوانوں کے لیے 40% کوٹہ، اور ڈیم سے حاصل ہونے والی آمدنی میں گلگت بلتستان کا حصہ شامل ہے۔ وزیر کشمیر امیر مقیم نے احتجاجیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ واپڈا نے دو ہفتوں میں پانی کی سپلائی منصوبے کے ٹینڈر جاری کرنے کا وعدہ کیا۔
لانگ مارچ کی دھمکی اور حکومتی خاموشی
احتجاجی رہنماوں اور مقامی حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہونے پر احتجاجیوں نے وفاقی وزرا کو چلاس میں طلب کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت "زمینی حقائق سے کٹی ہوئی” ہے۔ واپڈا کا دعویٰ ہے کہ 91% زمین مالکان کو معاوضہ دیا جا چکا ہے، لیکن احتجاجی اسے "جھوٹ” قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق معاوضہ نہیں دیا گیا۔ ایک قبائلی بزرگ نے کہا: "وہ ہمیں پتھریلی زمینیں دے کر ہماری زرخیز زمینیں چھین رہے ہیں۔”
احتجاجی رہنماؤں نے اپنی حتمی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو وہ ڈیم سائٹ تک لانگ مارچ کریں گے۔
حکومتی ردعمل اور واپڈا کے دعوے
وزیر اعظم شہباز شریف نے امیر مقیم کی سربراہی میں 6 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو متاثرین کے مسائل حل کرے گی، تاہم احتجاجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ "زبانی وعدوں سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تحریری معاہدے چاہیں۔” واپڈا کا موقف ہے کہ 91% معاوضے ادا کر دیے گئے ہیں، جبکہ متاثرین اسے جھوٹا بیانیہ قرار دے رہے ہیں۔
ثقافتی ورثے اور ماحولیات کو خطرات
ماحولیاتی کارکن صفی اللہ بیگ نے بامِ جہاں کو بتایا: "یہ ڈیم زلزلہ خیز علاقے میں بن رہا ہے جہاں 200 مربع کلومیٹر کا ذخیرہ پانی لینڈ سلائڈنگ اور ماحولیات اور قدیم ثقافتی ورثہ پتھریلی نقوش کو تباہ کر دے گا۔ حکومت نے 9 ماڈل گاؤں بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن حقیقت میں کچھ نہیں ہوا۔” ڈان اخبار کے اداریے پر ردعمل دیتے ہوئے بیگ نے کہا: "میڈیا ریاستی مفادات کا پرچارک بن کر ترقی کے نام پر مقامی لوگوں کے استحصال کو چھپا رہا ہےان کا مؤقف ہے کہ ڈیم سے ملنے والی بجلی اور پانی کا فائدہ گلگت بلتستان کو نہیں دیا جائے گا۔