عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام اتحاد چوک گلگت میں لوڈشیڈنگ، آن لائن لیزز کا اجراء، لینڈریفارمز ایکٹ اور دیگر مسائل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ مقررین نے خودمختار آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کردیا۔
بیوروچیف، بام جہاں
گلگت: طویل لوڈ شیڈنگ، غیر قانونی آن لائین لیزز کا اجراء، لینڈ ریفارمز ایکٹ، ڈاکٹروں کو مستقل نہ کرنے اور دیگر مسائل کے حل کے لئے عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام اتحاد چوک گلگت کے مقام پر اتوار کے روز احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف سیاسی و قومی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ کارکنوں ا ور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
احتجاجی جلسہ کے مقررین اور شرکاء نے ایک قرارداد کے ذریعے بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور بجلی کی مسلسل بندش کی مذمت کی، جو مقامی باشندوں کے لیے مسلسل مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے آبادی پر معاشی بوجھ کو کم کرنے کے لیے گندم سمیت ضروری اشیاء پر سبسڈی کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا۔
مظاہرے نے مقامی زمینوں اور وسائل پر غیر قانونی تجاوزات کے بارے میں خدشات کو مزید اجاگر کیا۔ مظاہرین نے دیامر بھاشا ڈیم جیسے بڑے منصوبوں سے بے گھر یا متاثر ہونے والے افراد کے لیے منصفانہ معاوضے کا مطالبہ کیا۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فیسوں کو معقول بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ تعلیم تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
شرکاء نے ان پالیسیوں کی مذمت کی جو مقامی تاجروں کو محدود کرتی ہیں اور نوجوانوں کو سوست بندرگاہ کے ذریعے تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتی ہیں، حکام پر زور دیا کہ وہ فوری اصلاحی اقدامات کریں۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ا یکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے چیئرمین احسان علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی بھی ختم ہونے کو ہے لیکن ان ظالم حکمرانوں نے ہمیں اس نہج تک پہنچایا ہے کہ ہمیں چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ کے لئے بھی احتجاجی دھرنا دینا پڑتا ہے۔
یہ اس نظام اور حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے اس وقت ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہوگئی ہے۔ جو نوجوان آن لائن کام کرکے روزگار کماتے تھے ان کو بجلی نہ دکر حکمرانوں نے بے روز گار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ چھ سو سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کو نوکری سے نکال دیا گیاہے ۔جبکہ پنشینئرز کے پنشن ک میں کٹوتی کی جارہی ہے۔
ایسے حالات میں عوامی ایکشن کمیٹی شدید مزاحمت کرے گی اور حکمرانوں کو چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کہ پی ایم ڈی سی کے رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کی پہاڑوں میں پانچ سو ارب روپے کا سونا اور کھربوں کے معدنیات موجود ہیں اور یہ غاصب حکمران ان پہاڑوں سے لیزز کے ذریعے عوام سے پوچھے بغیر معدنیات کی لوٹ کھسوٹ میں لگے ہیں اور آن لائن لیزز جاری کررہے ہیں جو کہ اس خطے کے عوام کو ہر گز قبول نہیں ہے۔ ہم حکمرانوں کو بتانا چاہتے کہ کہ وہ اپنی روش کو ترک کرے بصورت دیگر ان کے گریباں پکڑ کر ان کو گھسیٹیں گے۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کے بانی رہنما و صدر عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان بابا جان نے کہا ہے کہ آج ہم جن مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں اور احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں ان کا جڑ یہ فرسودہ معاشی و سیاسی نظام ہے۔ اس نظام کی بدولت اشرافیہ حکمران طبقہ ہمارے پہاڑ بیچ رہے ہیں۔ انہوں نے عوام اور نوجواںوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ متحد ہو کر جدوجہد نہیں کریں گے تو آپ کے زمینوں پہ قبضہ ہوگا، آپ کے بچے بے روزگار ہوں گے اور آپ معاشی مسائل میں دھنستے جائیں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ان تمام مسائل سے چھٹکارہ چاہتے ہو تو ان نظام کو لپیٹنے کے لئے ایک ہوجاو ورنہ مسائل حل نہیں ہونگے۔
انہوں نے آن لائن لیزز کے اجراء کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکمرانوں کی طرف سے ہمارے وسائل کی بندر بانٹ اور لوٹنے کے ہر حربے کے خلاف ہے۔ ہم ہر قسم کی لیزز دینے کے خلاف ہے۔
با با جان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے اور گلگت بلتستان پہلے سے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ حکمران ہمارے پہاڑوں کو پارہ پارہ کرکے سونے اور معدنیات کے ذخائر لوٹ کر لے جائیں گے جس کے بدلے میں گلگت بلتستان کے عوام موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ہونگے اور یہاں سیلاب آئیں گے جس سے ہر طرف تباہی ہوگی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے غلام عباس ، محبوب ولی، ایڈوکیٹ غلام عباس ، نصر حسین , جہانزیب انقلابی، اصغر شاہ، ٹی جے محمودی، و دیگر مقررین نے مطالبہ کیا کہ حکومت اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے۔ گلگت بلتستان کی زمینیں یہاں کے عوام کی ملکیت ہیں ان پر لینڈریفارمز ایکٹ کے نام پر قبضہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے کیونکہ یہ خطے متنازعہ خطہ ہے۔
مقررین نے اقوام متحدہ کے قراردادوں کی روشنی میں گلگت بلتستان میں خودمختار آئین ساز اسمبلی کے قیام کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی کمی ہے اس کے باوجود بھی حکومت ڈاکٹرز کو مستقل نہیں کررہی اور ان کو بے روزگار کررہی ہے جوکہ ان کے ساتھ ظلم ہے۔
مقررین نے لیڈی ہیلتھ ورکرزکو نوکری سے نکالنے کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بجٹ کا بہانہ بنا کر لیڈی ہیلتھ ورکرز بے روزگار کررہی اگر بجٹ کا مسئلہ ہے تو حکمران اپنی شاہ خرچیاں کم کریں۔



اس حوالے سے "بامِ جہاں” سے بات کرتے ہوئے لینڈ ریفارمز ایکٹ کے حوالے سے معروف قانون دان نفیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکمران طبقہ لینڈ ریفارمز ایکٹ کے ذریعے گلگت بلتستان کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے ریاست گلگت بلتستان میں غیرمقامی افراد کو بسانا چاہتی ہے۔
نفیس ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ” گلگت بلتستان میں ہمارے اپنے قدیمی کسٹمری قوانین موجود ہیں اگر حکومت زمینوں کو تحفظ دینا چاہتی ہے تو ان کسمٹری قوانین کو مضبوط کرے بصورت دیگر اس اسمبلی کے ذریعے زمینوں پر قبضے کی کوشش کا نتیجہ خطرناک نکل سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "یہاں”گلگت۔بلتستان میں پہاڑ کی چوٹی سے لے کر لب دریا تک تمام زمینیں عوام کی مشترکہ ملکیت ہیں کسی اور کی نہیں ہے۔”








بامِ جہاں سے خصوصی بات کرتے ہوئے صدرعوامی ورکرزپارٹی گلگت بلتستان باباجان نے حکومت کی طرف سے آئن لائن لیزز کے اجراء کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام سے پوچھے بغیر اسلام آباد میں بیٹھ کر ہمارے پہاڑوں میں دفن معدنی وسائل کی بندر بانٹ اور لیزز کی غیر قانونی اجراء کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے حالانکہ ان پہاڑوں کے مالک ہم ہیں. ہم نہیں چاہتے ہیں کہ لیزز کے نام سے ہمارے پہاڑ تباہ ہو۔
بابا جان کا کہنا تھا کہ ” لیزز کے نام سے ہمارے پہاڑوں کو تباہ کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان اور کشمیر سمیت پورے ملک میں ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہونے کے خدشات ہیں جو نسل انسانی کی بقاء کے لئے خطرہ ہے۔
بابا جان نے حکومت کو متنبع کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت فی الفور لیزز کااجراء بند کرے اور گلگت میں موجود لیزز کا دفتر ختم کیا جائے بصورت دیگر اس احتجاجی مظاہرے کو پورے گلگت بلتستان میں پھیلائیں گے۔