بیورو رپورٹ، بام جہاں
گلگت: عوامی ایکشن کمیٹی گلگت-بلتستان کے چیئرمین احسان علی ایڈوکیٹ نے گلگت بلتستان میں جاری ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ” گلگت بلتستان بلوچستان نہیں کہ جسے چاہیں لاپتہ کریں، اور عوام کسی صورت میں ایسی دہشت گردی کو قبول نہیں کریں گے”۔
بدھ کے روز میڈیا کو جاری ایک بیان میں احسان ایڈوکیٹ نے کہا کہ بلتستان کے علماء کرام کو جبری طور پر لاپتہ کرنا ریاستی دہشت گردی ہے۔ انہوں نے بلتستان کی عوام، خاص طور پر خواتین، کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے لاپتہ علماء کے لیے آواز اٹھائی اور دھرنے پر بیٹھ گئیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر تمام لاپتہ افراد کو رہا نہ کیا گیا تو پورے گلگت بلتستان اور پاکستان بھر میں احتجاج کی کال دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کا قانون کے مطابق ٹرائل ہونا چاہیے، لیکن ماورائے قانون اغواکاری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
ڈیم متاثرین کے احتجاج کی حمایت کا اعادہ
احسان ایڈوکیٹ نے عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے دیامر ڈیم متاثرین کے احتجاج کی مکمل حمایت کا اعا دہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دیامر کے عوام گزشتہ تین ہفتوں سے اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر ہے، لیکن حکمرانوں کی طرف سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ جب پورے گلگت بلتستان سے دیامر کی طرف مارچ کی کال دی گئی تو حکمرانوں میں کھلبلی مچ گئی اور مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، لیکن تاحال عوام کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے۔ انہوں نے حکومت اور واپڈا پر الزام لگایا کہ وہ عوام کو مذاکرات کے نام پر ٹرخانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
احسان ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہزاروں عوام سخت موسمی حالات میں روزے کی حالت میں سڑکوں پر ہیں، اور انہیں مزید امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر دیامر کے علماء نے حکم دیا تو پورا گلگت بلتستان دیامر کا رخ کرے گا، اور حکمرانوں کو عوام کا سمندر بہا لے جائے گا۔
احسان ایڈوکیٹ نے دیامر کے علماء اور ڈیم کمیٹی کی قیادت میں مولانا حضرت اللہ کی جانب سے ڈیم پر کام روکنے کے اقدام کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی اس اقدام کی مکمل حمایت کرتی ہے اور عوام کے حقوق کے لیے ہر ممکن جدوجہد جاری رکھے گی۔
"عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کی عوام کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ریاستی جبر،، جبری گمشدگی کے واقعات، اور عوام کے حقوق کی پامالی کے خلاف ہر سطح پر جدوجہد جاری رکھے گی۔”
دیامر ڈیم کے متاثرین نے چلاس میں اپنے بنیادی حقوق کے لیے تین ہفتہ طویل احتجاجی دھرنا شروع کیا ہے۔ یہ احتجاج ڈیم کے منصوبے سے متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ، دوبارہ آبادکاری، اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے مطالبات پر مرکوز ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور واپڈا نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے، اور انہیں انصاف نہیں دیا گیا۔
احتجاج کے دوران، متاثرین نے سڑکوں پر بیٹھ کر اپنے مطالبات کا اظہار کیا، جبکہ بچے بھی اس احتجاج میں پیش پیش رہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں نہ صرف مالی نقصان کا سامنا ہے، بلکہ ان کی زمینیں اور گھر بھی ڈیم کے منصوبے کی نذر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ان کے مطالبات پر توجہ دے اور انصاف فراہم کرے۔
سوست بارڈر پر قبضہ اور تاجروں کے خلاف پلان
احسان ایڈوکیٹ نے سوست بارڈر پر مقامی تاجروں کے خلاف سختیوں اور مشکلات کو بھی نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سوست بارڈر پر این ایل سی کا قبضہ ہو چکا ہے، اور مقامی تاجروں کو بارڈر سے بے دخل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام گلگت بلتستان کی عوام اور نوجوانوں کو بیروزگار کرنے کی کوشش ہے، جو کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ گلگت بلتستان ٹیکس فری زون ہے، اور یہ بارڈر گلگت بلتستان کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی تمام سیاسی جماعتوں، تاجروں کی انجمنوں ، پاک چین راہداری تجارت سے منسلک افراد کے ساتھ مل کر بھرپور عوامی طاقت سے اس ظلم کا جواب دے گی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے، دیامر ڈیم متاثرین کے مطالبات تسلیم کیے جائیں، اور سوست بارڈر پر مقامی تاجروں کے حقوق کی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔