پریس ریلیز
عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) نے دیامر کے لوگوں کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم کی وجہ سے بے گھر ہونے، معاوضے کی عدم ادائیگی اور ماحولیاتی تباہی کے خلاف چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کے ساتھ اپنی غیر متزلزل یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی نے گلگت بلتستان (جی بی) کے ساتھ پاکستانی ریاست کے نوآبادیاتی پالیسیوں کو مکمل تبدیل کرنےکی اپیل کی ہے۔

ایک بیان میں، اے ڈبلیو پی کے جنرل سیکرٹری بخشل تھلہو نے زور دے کر کہا کہ جی بی کے بیس لاکھ سے زائد باشندے 78 سال سے "کشمیر تنازع” کے بہانے ایک غیر یقینی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گلگت۔بلتستان کا پاکستانی آئین میں تو ذکر تک نہیں ہے، جبکہ ریاست نے اس کے وسائل کا منظم استحصال کیا ہے۔ وہاں ایسی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی ہیں جو صرف سول و فوجی نوکر شاہی اور اشرافیہ طبقہ کے سامنے جوابدہ ہیں، اور چراگاہوں، اجتماعی زمینوں اور گلیشیئرز کو فوجی کنٹرول میں لے لیا ہے جو کہ دریائے سندھ کے نظام کی زندگی ہیں۔
تھلہو نے شمشال، چپورسن، غذر، دیامر اور بلتستان کی دیگر وادیوں میں اینٹیمنی، پلیسر گولڈ اور دیگر نایاب معدنیات کی کان کنی کے لیے غیر منتخب بیوروکریٹس کی جانب سے جاری کیے گئے حالیہ غیر قانونی لیزوں پر بھی سخت تنقید کی۔ انہوں نے سوست ڈرائی پورٹ پر نیشنل لوجسٹک سیل (این ایل سی) کے قبضے پر بھی تنقید کی، جس نے خطے کے استحصال کو مزید بڑھا دیا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ گلت۔بلتستان کے وسائل کی بے دریغ لوٹ اور اسے صرف ایک سیاحتی مقام میں تبدیل کرنا نہ صرف یہاں کے لوگوں کے ساتھ روا رکھے گئے نوآبادیاتی جبر کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مقامی ماحولیات اور دریائے سندھ کے وسیع تر ماحولیاتی نظام کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔
انہوں نے تمام جمہوری اور ترقی پسند قوتوں سے اپیل کی کہ وہ گلگت ۔بلتستان میں پاکستانی ریاست کی نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف متحد ہوں۔ انہوں نے ماحولیاتی تباہی اور قومی جبر کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر اس وقت جب سندھ کے لوگ چولستان اور دیگر بالائی علاقوں میں نہروں کی تعمیر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اے ڈبلیو پی نے جی بی اور دیگر محکوم لوگوں کے ساتھ انصاف، ماحولیاتی تحفظ اور خود ارادیت کی جدوجہد میں کھڑے رہنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔