رپورٹ: ذیشان احمد استوری
اسٹاف رپورٹر، بام جہاں
اسلام آباد: قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات نے جمعرات کے روز ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس احتجاج کا مقصد گلگت بلتستان میں ریاستی و غیر مقامی عناصر کی جانب سے قدرتی وسائل، پہاڑوں، دریاؤں، چراگاہوں، سیاحتی مقامات، اور پاک-چین سرحدی تجارت پر بڑھتے ہوئے قبضے کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔
یہ مظاہرہ ایسے وقت پر ہوا ہے جب حال ہی میں اسلام آباد میں دو روزہ معدنیات کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں گلگت بلتستان کو "معدنی خزانے سے مالا مال خطہ” قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو وہاں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی۔ مظاہرین کے مطابق، اس کانفرنس میں خطے کے اصل وارث یعنی وہاں کے عوام کو شامل ہی نہیں کیا گیا، اور ان کی مرضی کے بغیر وسائل کو بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔



طلباء کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کوئی "نوآبادیاتی جاگیر” نہیں بلکہ ایک تاریخی خطہ ہے جس کے باسی صدیوں سے اپنی سرزمین، پہاڑوں اور قدرتی وسائل کی حفاظت کرتے آئے ہیں۔ "ہمارے آبا و اجداد نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف قربانیاں دیں، اور آج ہم انہی قربانیوں کے وارث ہیں”، ایک طالبعلم نے احتجاجی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
طلباء رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ پاکستان کے پاس گلگت بلتستان میں مداخلت کا کوئی آئینی یا قانونی جواز موجود نہیں کیونکہ یہ خطہ تاحال ایک متنازعہ علاقہ ہے، جس کی حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت واضح طور پر طے شدہ نہیں۔ اس کے باوجود وہاں کے وسائل کو غیر مقامی کمپنیوں اور ریاستی اداروں کے ذریعے لیز پر دینا، مقامی آبادی کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
بے اختیار اسمبلی اور نمائندگی کا بحران
گلگت۔بلتستان طلباء کونسل کے سابق چیئرمین تنویر بلاور نے گلگت بلتستان اسمبلی کو "بے اختیار ادارہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ایسے نمائندے جو حقیقی اختیار نہ رکھتے ہوں، ریاستی اشرافیہ کے مہرے بن کر فیصلے کر رہے ہیں۔ ہم ان فیصلوں کو نہ مانتے ہیں اور نہ ہی ان نمائندوں کو تسلیم کرتے ہیں”۔
طلباء کونسل کے جنرل سیکریٹری شہباز نے احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے وسائل کو فروخت کر کے آئی ایم جیسے سامراجی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کرنا سراسر ناانصافی ہے، خاص طور پر جب خطے میں بنیادی سہولیات جیسے میڈیکل یونیورسٹی، انجینئرنگ کالج یا معیاری اسپتال تک میسر نہیں۔ "اگر پاکستانی ریاستی اشرافیہ نے یہ قرضے اپنے مفادات کے لیے لیے ہیں تو ہم اپنی سرزمین کیوں گروی رکھیں؟” انہوں نے سوال اٹھایا۔
وائس چیئرمین مبشر شمشالی نے کہا کہ "جو آئین ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، اس کا ہم پر اطلاق نہ صرف غیر آئینی بلکہ غیر اخلاقی ہے۔” اس بیان کے ذریعے انہوں نے گلگت بلتستان کے عوام کی قانونی شناخت کے بحران کو اجاگر کیا جو گزشتہ تقریبا اسی دہائیوں سے جاری ہے۔
طلباء کونسل کے چیئرمین مہتشم نے احتجاج کا اختتام ایک جذباتی تقریر اور اعلان کے ساتھ کیا۔
"یہ پہاڑ آپ کے لیے محض زمین ہوں گے، مگر یہ ہمارے آباؤ اجداد کا مسکن ہے۔ ان میں چھپے خزانے ہماری اجتماعی میراث ہیں۔ ہم انہیں کسی سرمایہ دار یا قابض قوت کے ہاتھوں فروخت نہیں ہونے دیں گے۔”
انہوں نے اعلان کیا کہ یہ تحریک اب صرف ایک احتجاج تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ملک گیر سطح پر ایک متحرک سیاسی مہم کے طور پر چلائی جائے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام غیر قانونی مائننگ معاہدے، لیزز، اور وسائل سے متعلق قوانین کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
یہ احتجاج محض طلباء کی ایک وقتی ناراضگی نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں کئی دہائیوں سے جاری سیاسی، آئینی، اور اقتصادی استحصال کے خلاف ایک واضح عوامی ردعمل ہے۔