بام جہاں خصوصی رپورٹ
گذشتہ دنوں پاکستان اور چین نے گلگت بلتستان میں قیمتی معدنیات، خصوصاً لیتھیئم کی تلاش کے لیے تعاون پر مبنی ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے جیولوجیکل سروے کے اداروں کے درمیان طے پایا ہے۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک مشترکہ فیلڈ سروے، جیوکیمیکل نمونوں کی جانچ، تکنیکی تربیت، اور ماہرین کے تبادلے جیسے اقدامات پر تعاون کریں گے تاکہ پاکستان میں معدنیات کی تلاش اور استفادے کے عمل کو مؤثر اور جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔
یہ معاہدہ اسلام آباد میں پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 کے دوران گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان کی موجودگی میں دستخط کیا گیا۔ تاہم، اس معاہدے پر گلگت بلتستان کی تمام مقامی ترقی پسند، قوم پرست سیاسی جماعتوں، علماء، سماجی کارکنوں، اور ماہرینِ ماحولیات نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور حکومتِ پاکستان اور اسٹبلشمنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی مزاحمت کی جائے گی کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام اور ان کے حقیقی نمائندوں سے پوچھے بغیر ان کے قدرتی وسائل کی بندر بانٹ ایک غیر آئینی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔


مقامی ردعمل
گلگت بلتستان کے مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور کاروباری انجمنوں پر مشتمل سب سے بڑی پلیٹ فارم "عوامی ایکشن کمیٹی” نے اس معاہدے کو گلگت بلتستان کے قدرتی وسائل پر قبضے کی ایک اور کوشش قرار دیا۔
اس سلسلے میں گلگت۔بلتستان کے مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں اور کاروباری انجمنوں پر مشتمل سب سے بڑی اور متحرک پلیٹ فارم ‘عوامی ایکش کمیٹی’ اور اس میں ایک بڑی بایا ں بازو کی جماعت عوامی ورکرز پارٹی گلگت۔بلتستان نے اس فیصلے کو گلگت۔بلتستان کے قدرتی وسائل پر قبضے کی ایک اور کوشیش قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس پر عملدرآمد کی کوشیش کی گئی تو وہ اس کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائیں گے۔
انہوں نے ایک غیر جمہوری اور بے اخیتار وزیر اعلی حاجی گلبر خان سے مطالبی کیا کہ وہ فورا استعفی دیں بصورت دیگر ان کی حکومت کے خلاف عوام تحریک چلانے کا اعلان کیا جائے گا،
عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ "گلگت بلتستان کے ترقی پسند اور وطن دوست سیاسی کارکنوں پر اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ موجودہ ماورا آئین اسمبلی عوام کی نمائندگی اور خطے کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی نوآبادیاتی نظام اور اس کے مقاصد کے لیے سہولت کاری کرنے کے خاطر قائم کی گئی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے اس اعلان کے بعد کہ پاکستان گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے اربوں کھربوں کمانا چاہتا ہے۔ گلگت بلتستان کے ترقی پسند اور وطن دوست کارکنوں کو اس سیاسی حکمت عملی پر سوچنا اور غور کرنا ہوگا۔
ایکشن کمیٹی نے مزید کہا کہ موجودہ اسمبلی کے تمام اراکین وزیر اعظم کے اس بیان کے خلاف اور مسلم ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف و دیگر پارٹیوں سے فوری طور پر استعفٰی دے دیں۔ اور اقوام متحدہ کے قرار دادوں کے مطابق آیٰین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لا کر ” خود مختار لوکل اتھارٹی ” قائم کرنے کا مطالبہ عوامی سطح پر کیا جاے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس معاہدے پر عملدرآمد کی کوشش کی گئی تو وہ اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ اس کمیٹی کا کہنا تھا کہ موجودہ ماورا آئین اسمبلی عوام کی نمائندگی اور خطے کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے نوآبادیاتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی
عوامی ورکرز پارٹی نے اس معاہدے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کا یہ اعلان کہ "پاکستان گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے اربوں ڈالر کمانا چاہتا ہے”، ایک کھلی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان کا تنازع کشمیر کا حصہ ہے اور اس خطے کی قدرتی وسائل کو پاکستان کے حکمرانوں کے مفادات کے لیے بیچنا ایک غیر قانونی عمل ہے۔
پارٹی یہ واضع کرنا چاہتی ہے کہ متنازعہ گلگت بلتستان نہ پاکستان کا آئینی حصہ ہے اور نہ ہی پاکستان کا فتح کیا ہوا خطہ ہے۔ بلکہ یہ خطہ تنازع کشمیر کا جز ہے جس کا حل ہونا ابھی باقی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمران اشرافیہ نے خطے پر پچھلے آٹھ دہائیوں سے بدترین نوآبادیاتی نظام مسلط کیا ہوا ہے جس میں عوام بنیادی انسانی حقوق سمیت بنیادی سہولیات صحت، تعلیم، بجلی، پانی اور روزگار سے محروم ہیں۔ پاکستان کے ریاستی ادارے نہ صرف مالی وسائل پر قابض ہیں بلکہ تجارت، سیاحت، روزگار، ملازمتوں پر بھی قبضہ کرکے مقامی آبادی کا معاشی قتل عام بھی کر رہے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کے اس غیر قانونی بیان کا نوٹس لے اور گلگت بلتستان میں ایک خودمختار لوکل اتھارٹی کے قیام کے لیے اقدامات اٹھائے تاکہ اس خطے کی قدرتی وسائل کو پاکستان کے حکمرانوں کی لوٹ مار سے بچایا جا سکے۔
ان کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان کی وزیر خارجہ کا امریکہ کے اپنے ہم منصب سے معدنیات سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کرنے کا بیان اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ پاکستان کا حکمران اشرافیہ متنازعہ گلگت بلتستان کے وسائل اور اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل جغرافیہ عالمی سامراج کے حوالے کرکے دونوں ہاتھوں سے ڈالر کمانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ امریکہ متنازعہ گلگت بلتستان کو چین کے خلاف مور چہ کے طور پر استعمال کر سکے اور اپنی جنگی عزائم کی تکمیل کر سکے۔ پاکستان متنازعہ گلگت بلتستان کے حوالے سے یہ موقوف بین الاقو امی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پارٹی کے مرکزی رہنما اور ماحولیات کے کارکن، صفی اللہ بیگ نے اس بات پر زور دیا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر متنازعہ خطہ ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کی ماو رائے آئین اسمبلی عوام کی نمائندگی اور خطے کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی نوآبادیاتی نظام اور اس کے مقاصد کے حصول میں سہولت کاری کی خاطر قائم کی گئی ہے۔
اربوں ڈالر غبن کرکے پاکستان کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے والے پاکستان کے حکمران اشرافیہ اب اسٹبلشمنٹ کی قیادت میں بلوچستان، پختوں خواہ کے علاوہ متنازعہ گلگت بلتستان اور کشمیر کی فطری دولت پر قبضہ کرکے ایک بار پھر ڈالر کمانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
متنازعہ گلگت کو1947 میں پاکستان کی نوآبادیاتی فوج نے ڈوگرہ سے آزاد نہیں کرایا ہے نہ یہ خطہ پاکستان نے کسی جنگ میں فتح کیا ہے۔
نوجوانوں کو بھی وزیر اعظم کے اس بیان کو اقوام متحدہ تک پہنچانے اور اس منصوبے کو روکنے کی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا”۔
ایک ممتاز شیعہ عالم دین شیخ حسن جعفری نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے ۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ریاستی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ "(ہمارے) پہاڑ صرف پتھر نہیں، یہ ہماری شناخت، ہماری تاریخ، ہماری غیرت کے نشان ہیں۔ (گلگت بلتستان) کے معدنی وسائل پر حق جتانے سے پہلے ریاست ہمیں شناخت، حقوق اور مکمل خود مختاری دے۔”
انہوں نے گلگت۔بلتستان کے عوام کو خبردار کیا کہ وہ اپنے خاک کی امانت داری سے غافل نہ ہوں۔ .
حقوق خلق پارٹی کے رہنماء ضیغم عباس نے اپنے ایکس ٹویٹر پلیٹ فارم پہ تبصرہ کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ "ایک ریاست جو کرایہ پر چلنےوالی سیاسی معیشت اور صفر خود مختاری کی حامل ہو، ہمیشہ اپنے آپ کچھ بیچنے کے لیے گاہکوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ 50 کی دہائی میں انہوں نے اپنی جغرافیائی حیثیت SEATO اور CENTO کو بیچ دی۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے پشتون زمینوں پر جنگ لڑ کر جہاد سے جڑے ڈالر کمائے۔ اب وہ گلگت اور کشمیر کے پہاڑوں کو بیچنے کے لیے بولی لگانے والوں کی تلاش میں ہیں۔کوئی وژن نہیں کہ صنعتی ترقی کیسے کی جائے، وسائل اور سرمایہ کی پرواز پر کیسے قابو پایا جائے۔ صرف ایک فوری حل: سب کچھ بیچ دو”۔
گلگت بلتستان نیشنل ورکرز فرنٹ کے رہنما عنایت بیگ نے بھی اس معاہدے کی مخالفت کی اور کہا کہ "اس وقت گلگت بلتستان کی سرزمین اور وسائل ریاستی غفلت کا شکار نہیں بلکہ ایک منظم سرمایہ دارانہ منصوبہ بندی کے تحت لوٹے جا رہے ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ حکومت "گرین ٹورزم” اور "گرین پاکستان انیشیٹو” جیسے خوشنما نعروں کی آڑ میں گلگت بلتستان کی زمین، پانی، جنگلات اور معدنیات کو عالمی سرمایہ داری کے حوالے کر رہی ہے، جس سے مقامی آبادی کو بے دخل کیا جا رہا ہے یا کم اجرت پر مزدور بنا دیا جائے گا۔
نیشنل ورکرز فرنٹ کے رہنما بشارت حسین مہدوی نے ایک بیان میں لکھا ہے کہ "پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 کے تحت گلگت بلتستان اور کشمیر کے عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے کریں۔ اس لحاظ سے، جب تک گلگت بلتستان کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کرتے، پاکستان کو اس خطے کی زمینوں اور معدنیات سے استفادہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔”
قانونی اور اخلاقی تقاضے
بین الاقوامی قوانین کے تحت، خصوصی طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں، اس خطے کی قدرتی وسائل کو پاکستان یا کسی بھی غیر ملکی طاقت کے حوالے کرنے کا عمل غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ، گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے قدرتی وسائل پر مکمل اختیار حاصل ہے اور ان کی مرضی کے بغیر ان وسائل کا استعمال کسی صورت جائز نہیں۔
پاکستان کے حکمران طبقے کا گلگت بلتستان کی قدرتی وسائل کو بین الاقوامی سرمایہ داری کے حوالے کرنے کا اقدام مقامی لوگوں کے حقوق کی پامالی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کی روشنی میں یہ عمل نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ خطے کے عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ مقامی سیاسی جماعتوں، کارکنوں، اور عوامی تنظیموں نے اس معاہدے کی شدید مخالفت کی ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے قدرتی وسائل پر مکمل اختیار حاصل ہو اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔