تحریر: عزیزعلی داد
گلگت بلتستان میں خود فراموشی کے ضمن میں لکھے گئے پچھلے مضامین میں ہم نے سماج کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جو خود فراموشی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مباحث کو نظری بحث بنانے سے اجتناب کیا گیا۔ آج کے اس مضمون میں ہم سماجی و سیاسی لاشعور سے متعلق نظری مباحث کا گلگت بلتستان کے تناظر میں جائزہ لینگے تاکہ اگلے قسطوں میں گلگت بلتستان میں سیاسی و سماجی لاشعور کو دریافت کرسکیں۔ یہاں پہ زور لاشعور پر ہے نہ کہ بے شعوری پر۔ بے شعوری لاشعوری سے ہی جنم لیتی ہے۔
پینٹنگ از انتونی بروڈوسکی۔ اس پینٹنگ میں اندھا ایڈیپس اپنے بیٹی اینٹی گون کے ہاتھوں کے سہارے چل رہا ہے۔
جدید زمانے میں لاشعور کے اندھیرے پر جدید نفسیات کے بانیوں سگمنڈ فرائیڈ اور کارل یونگ نے اپنی تحقیقات اور تحریروں کے ذریعے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہمیں لاشعور میں پنہاں شعور کی محرکات کا پتہ چلا ہے۔ نفسیات کے متلعق ان حضرات کے تصورات نے جدید علم نفسیات کے مباحث کے بنیادی خدوخال فراہم کئے۔ سگمنڈ فرائیڈ لاشعور کے تصورات کو عہد طفلی کے تجربات میں تلاش کرتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ لاشعور ہمارے شعور سے مخفی رہتا ہے، مگر اس اخفاء کے باوجود ہمارے شعور پر ہمہ وقت اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ یوں فرائیڈ لاشعور کے شرچشمے انفرادی نفسیات، تجربات اور کیفیات میں تلاش کرتا ہے۔ اس لئے فرائیڈ کے ہاں نفسیاتی عارضے کی وجوہات فرد میں ہی ملتے ہیں نہ کہ سماج میں۔ ان کے ہاں سماج فرد کی ایک کبیر نقش نظر آتا ہے۔
فرائیڈ کے برعکس جرمن فلسفی ایرک فرام کا سماجی لاشعور کا تصور بہت جاندار ہے کیونکہ یہ فرد میں ظاہر ہونے والی نفسیاتی بیماریوں کو سماجی ڈھانچوں میں تلاش کرتا ہے۔ فرام کا کہنا ہے کہ یہ بیمار سماجی ڈھانچے ہی ہیں جو بیمار فرد کو جنم دیتے ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ فرد نہیں سماج بیمار ہوتا ہے۔ اس لئے فرد سے پہلے سماجی بیماری کی تشخیص اور علاج ناگزیر ہوجاتا ہے۔ فرام کا سیاسی و سماجی نفسیات پہ کام بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ فرائیڈ کو یکسر مسترد نہیں کرتا ہے بلکہ وہ فرائیڈ کی تحلیل نفسی کو کارل مارکس کے بیگانگی کے تصور کے ساتھ ملا کر سماج کی نفسیاتی تشخیص کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم ایرک فرام کے نظریات سے بلاواسطہ استفادہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے سماجی لاشعور کو دریافت اور اس کی علامات کو سماج میں تلاش کرنے کی سعی کرینگے۔ طوالت کی وجہ سے اس مضمون میں صرف نظری پہلوؤں پر ہی بات ہوگی۔
مضمون کے موضوع میں داخل ہونے سے پہلے حفظ ماتقدم کے طور پر ایک تبہیہ جاری مناسب ہوگا۔ لاشعور کا سامنا کرنا کوئی پرمسرت و سرشاری سے بھرپور تجربہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ وجود میں زلزلہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے انفرادی اور سماجی اقدار کی عمارت کے ڈہ جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہماری آنکھیں لاشعور کی حقیقت کی تاب نہیں لاکر پھوٹ بھی جاتی ہیں۔ اور اگر ہم اس صدمے کو سہہ گئے تو پھر ایک نئی حقیقت، فرد اور سماج کی تعمیر ممکن ہوجاتی ہے۔ ورنہ لاشعور وہ بلیک ہول ہے جو ہر چیز کو نگل جاتا ہے۔ گلگت بلتستان اس وقت لاشعور کے تاریک یا اندھے کنویں میں اپنا وجود رکھتا ہے۔
سگمنڈ فرائیڈ نے لاشعور کو اجاگر کرنے کے لئے یونانی دیومالا اور ادب سے استفادہ کیا خاص طور پر ایڈیپس کی کہانی سے۔ اس کہانی میں ایڈیپس کا اپنے سفر کے دوران ایک دوسرے علاقے کے بادشاہ جس کا نام لے لایوس تھا کے قافلے سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے اور وہ طیش میں آکر بادشاہ کو قتل کردیتا ہے۔ بعد میں وہ اس نئی مملکت میں ایک عفریت کے پہیلیوں کو جواب دینے میں کامیاب ہوکر اس ریاست کا سب سے ذہین اور بہادر سورما قرار پاتا ہے۔ اس لئے ایڈیپس کو بادشاہت کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ وہ مقتول بادشاہ کی بیوہ یکوسٹا سے بھی شادی کرلیتا ہے۔ ایڈیپس بظاہر شعوری سطح پر خوش و خوشحال اور مضبوط نظر آرہا ہوتا ہے، مگر اپنی حقیقت سے مکمل طور پر لاشعور ہوتا ہے۔ کچھ اتفاقات اور حادثات کی وجہ سے آخر میں ایڈیپس کو اس بات کی آگاہی ہوجاتی ہے کہ جس بادشاہ کو اس نے قتل کیا تھا وہ دراصل اس کا باپ تھا اور اس کی بیوی اس کی اپنی ماں ہی ہے۔ یہ حقیقت اس ذہین اور فطین و بہادر ایڈیپس پر بجلی کی طرح گرتی ہے۔ اس میں اپنی حقیقت کو دیکھنے اور سہنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی دونوں آنکھیں نوچ کر اپنے آپ کو اندھا کردیتا ہے۔ ایڈیپس کی وجودی کیفیت عجیب سی ہوتی ہے کہ جب اس کے پاس آنکھیں تھیں تو حقیقت سے اندھا تھا، اور جب حقیقت پاتا ہے تو آنکھیں نہیں ہوتی ہیں۔ دوسری طرف یکوسٹا اپنے ہی بیٹے سے بیاہ میں ہونے کی حقیقت پا کر اپنے آپ کو سولی پہ چڑھا دیتی ہے۔ یوں لاشعور کا یہ علم دانا و بہادر اور شہنشاہ کو ملکہ کو بھی نگل جاتا ہے۔ دو ہزار پانچ سو سال قبل مسیح لکھ گئے مشہور ڈرامہ "ایڈیپس ریکس” اسی کہانی پہ مبنی ہے جسے یونانی ڈرامہ نگار سوفوکلیز نے قلمبند کیا۔ اس ڈرامے کے اختتام میں ہم اندھے ایڈیپس کو اپنی موت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ڈرامے کے پس منظر میں کورس اسی دوران یہ گیت گارہا ہوتا ہے۔:
"اب ہم تادم مرگ اس بات کو ذہن نشین کرلیں گے کہ ہم کسی شخص کو اس وقت تک پرمسرت قرار نہیں دینگے جب تک وہ مر کر اپنی مصیبتوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرتا۔”
اس بصیرت افروز ڈرامے سے فرائیڈ نے نفسیات کے اپنے تصورات کو تشکیل دینے میں مدد لی۔ اس ڈرامے نے کچھ سوالات میرے ذہن میں بھی جنم دیئے ہیں۔ قارئین ان سوالوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ وہ سوال مندرجہ ذیل ہیں:
– کیا گلگت بلتستان والے کچھ گندم کے دانوں، این سی پی گاڑیوں، پاکستانی اسلام، تعلیم اور جعلی طرز حکمرانی میں پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں؟
– کیا وہ زمینوں کو فروخت کرکے، خوبصورت نظاروں کو غیروں کے قبضے میں دیکر، معدنیات اور پہاڑوں کو غیروں کو لیز کروا کر اپنی دھرتی ماں کے ساتھ وہی زنا اور گناہ تو نہیں کر رہیں ہیں، جس طرح ایڈیپس نے اپنی ماں کے ساتھ کیا تھا؟
– کیا آنکھیں رکھنے کے باوجود گلگت بلتستان والے اپنی حقیقت سے اسی طرح اندھے ہیں جس طرح ایڈیپس اندھا تھا؟
– کیوں گلگت بلتستان والے خواندہ ہونے کے باوجود نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکتے ہیں؟
– گلگت بلتستان میں کیوں مذہب گناہوں سے نجات دلانے کی بجائے گناہ کا ذریعہ بن گیا؟
اب ان سوالوں کا جواب اپنے اس سماجی ذہن کو ٹٹولنے سے ہی نکلے گا۔ اگرچہ جواب بھیانک ہوسکتے ہیں۔ کیا ہم میں اتنی سکت ہے کہ ہم ان جوابات کو سہہ سکیں؟ مجھے ڈر ہے کہ یکوسٹا کی طرح ہم میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ اپنے آپ کو اپنے گناہوں کی پاداش میں سولی پہ چڑھائیں۔ مجھے خدشہ یہ ہے کہ یہ سماج ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے والوں کو ہی سولی پہ چڑھائےگا، کیونکہ لاشعور اور خود فراموشی میں ڈوبا سماج ہر اس شخص سے نفرت کرتا ہے جو اسے جگانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیٔے
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ اول)
۔ گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ دویٔم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ سویمٔ)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: سماجی ساخت اورنفسیات (حصہ چہارم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: تاریخ کا قتل (حصہ پنجم)
گلگت۔بلتستان میں خود فراموشی: عمرانی معاہدے کی تشکیل قدیم (حصہ ششم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: بھیانک خوبصورتی (حصہ ہفتم)
گلگت۔بلتستان میں خود فراموشی: مذہبی خوف صورتی (حصہ ہشتم)
سماجی لاشعور اس وقت جنم لیتا ہے جب فرد باہر کے سماج کے زیر اثر نفسیات، ریاستی نظام اور سماجی ڈھانچوں کو اپنا اندر سمو لیتا ہے تاکہ سماجی توازن برقرار رکھے۔ مگر سماج کو اندر سمونے کے چکر میں اپنے آپ کو ہی جلاوطن کرلیتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ہر فرد اپنے معروض اور وطن سے روحانی جلاوطنی کا شکار ہیں۔ یہ فرد ایک کل کا ایک ایسا پرزہ بن گیا ہے جو جسم رکھتے ہوئے بھی اپنی شناخت نہیں رکھتا۔ گمنامی اور خود فراموشی کا مارا یہ فرد کبھی فرقے میں پناہ لیتا ہے، کبھی قبیلے میں، کبھی زبان میں، کبھی کسی فوجی اور سول افسر میں تو کہیں لینڈ کروزر و فورچونر میں تو کبھی اپنی کوٹھی میں۔ اس کا لاشعور اسے ہر قسم کی بیساکھی کا محتاج بنا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بیساکھیوں پہ کھڑے لوگ رہبر بن کر لوگوں کو چلنا سکھا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہر فرد کی شخصیت کو ختم کرکے سماج میں ضم کرنے کے عمل کو سخت طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے۔ اسی لئے گلگت بلتستان میں ایک ایسا نظریاتی، ثقافتی،اخلاقی و مذہبی ڈھانچہ اور سماجی رویہ تشکیل دیا گیا ہے جو فرد کو لاشعور کا شعور حاصل میں مانع ہوتا ہے۔ شعور لاشعور سے جتنا بےخبر ہوگا، سماج اپنے آپ کو اتنا ہی صحت مند اور فرد اپنے آپ کو سماج سے ہم آہنگ تصور کر یگا۔ یہ صورتحال ہم آہنگی کا منظر کم اور بے ہنگامی کا منظر زیادہ پیش کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے گلگت بلتستان ایک ایسے پاگل خانے میں تبدیل ہوا ہے جہاں پر پاگلوں کا علاج کرنے والے خود ہی پاگل پنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔
چونکہ ہم ڈرپوک ہیں، اس لئے گلگت بلتستان میں لاشعوری کے عالم میں تضادات کو اخفاء میں رکھا جاتا ہے۔ آج جو کچھ تعلیم یا اقدار کے نام پر ڈکٹیٹ کیا جاتا ہے اس سے لاعلمی اور منافقت اخلاقیات کی ہی ترویج ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے خواندگی ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کا سماج لاعلم ہے۔ ہمارا نصاب روشنی پھیلانے کی بجائے ہمارے بچوں میں تاریکی انڈیل رہا ہے۔ مذہب اور اس کا منبر نفرت کا بیج بو رہا ہے اور یہاں کا مرد عورت سوزی میں مصروف ہے۔ اس وجہ سے خود فراموشی اور لاشعوری نے جنم لیا ہے۔ لاشعوری کا شکار سماج نہ صرف اپنے اندر کی شخصیت سے بےخبر ہوتا ہے بلکہ اس کے معروض کی نوعیت سے بھی مکمل بےخبر ہوتا ہے۔ سیاسی لاشعوری کو دوام بخشنے کے لئے گلگت بلتستان کے معروض میں ایک خاص قسم کا سیاسی، سماجی انتظامی اور ابلاغی نظام وضع کیا گیا ہے جس کے ذریعے ایسا مذہب تیار کیا گیا ہے جس کے پاس روح نہیں ہے، نصاب میں علم نہیں ہیں، اقدار میں اخلاقیات نہیں، ایمان ہے ایمانداری نہیں، باہر سجدہ ہے دل میں خدا نہیں، سیاست جس کے پاس اختیار نہیں لیکن طاقت کا پورا بھرم ہے، جو سلامتی کا درس دیتے ہیں ان کے ہاتھوں کوئی سلامت نہیں، ریاست محب وطن ہونے کا درس دیتی ہے مگر مقامی لوگوں کو شہری ماننے کو تیار نہیں ہے، اقدار ایسے کہ جس میں انسان کی قدر نہیں ہے، عورت سے پیدا ہوتے ہیں، لیکن عورت کے وجود سے ڈر لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھیٔے:
گلگت بلتستان میں حیوانی ،معاہدہ
فرائیڈ کا کہنا ہے کہ اگر ہم لاشعور کے خیالات کو دباتے ہیں تو وہ اپنے اظہار کے لئے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔ گلگت بلتستان میں سماجی لاشعور میں پیوستہ چیزوں پر بات نہ کرنے کی وجہ سے ایک تحتی یا سب کلچر پیدا ہوا ہے جس میں ہمارے لاشعور میں پیوست خوفناک خیالات و حرکات امڈ کر سامنے آرہے ہیں۔ اس لئے اس موضوع پر بات کرنا یا اس کے متعلق شعور پیدا کرنا آپ کو کوئے یار کی بجائے سوئے دار کی طرف لے جانے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس لئے تو گلگت بلتستان کے سماج میں سوچنے کے عمل پر پابندی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جن خیالوں کو ہم اپنے شعور سے سے نکال دیتے ہیں، وہ جاتے کہاں ہیں؟ اس کا جواب ہے وہ سماج کے ہر اس گوشے میں گھس جاتے ہیں جن کے وجود سے ہم انکاری ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم ان گمنام گوشوں کو طشت ازبام کرنے کی کوشش کرینگے۔ شاید اس طرح سے اپنی وجودی کیفیت کا کچھ شعور حاصل ہو۔
ہم اپنی موجودہ وجودی صورتحال کو تب تک نہیں بدل سکتے جب تک ہم سماج اور ریاست کے ساتھ اپنے ناجائز رشتے میں ہونے کا شعور حاصل نہیں کرتے۔ آج ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں اور خود فراموشی کی حالت میں اپنی دھرتی ماں کے ساتھ کے ایڈیپس کی طرح گناہگار تعلق میں رکھتے ہوئے اس سرزمین کے ساتھ اجتماعی آبرو ریزی کررہے ہیں۔ کیا ہم میں اب بھی اپنے لاشعور کے اندر جھانکنے کی جرات ہے؟ اگلی قسط میں اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ‘دی نیوز’، ‘فرائڈے ٹائمز’، ‘ہم سب’،’ ہائی ایشیاء ہیرالڈ ‘اور ‘بام جہاں ‘میں سماجی و فکری موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں۔