گلگت۔بلتستان میں خود فراموشی: مذہبی خوف صورتی (حصہ ہشتم)
عزیز علی داد
انسان کا اپنے معروض سے کشمکش روز اول سے جاری ہے۔ تاریخ میں انسان کا زیادہ تر وقت فطرت کے ساتھ جنگ کرنے میں گزرا ہے کیونکہ فطرت سے ہی انسان کو خطرات لاحق ہوتے تھے۔ مگر جدید سائنسی تہذیب نے جہاں انسانوں کو فطرت کو مغلوب اور تبدیل کرنے کے اہل بنایا، وہاں جدید دور میں ایسا سیاسی و سماجی نظام ایستادہ کیا گیا ہے جو انسان کو مغلوب بنا رہا ہے۔ یوں جدید یا مابعد الجدیدیت کے دور کے انسان کی جنگ فطرت سے نہیں ہے بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے اداروں، ادارہ جاتی تصورات اور انتظامات سے ہے۔ جدید ادارے اپنی ہییت کے لحاظ سے معروضی وجود رکھتے ہیں۔ یوں معروض میں موجود یہ مضبوط ادارے لوگوں کو باہر سے کنٹرول کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جب جدیدیت کی ساری ساخت اور مقصد ہی معروض پر کنٹرول کا ہے، تو لامحالہ طور ایسے معروض میں وجود رکھنے والے ہر ادارے، سماج، ثقافت اور آدرش کا اس سے متاثر ہونا لازمی امر ہے۔ ایسے معروض کے خدوخال ان معاشروں میں زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں جو نوآبادیاتی نظام کے ماتحت ہوں۔ اس لئے نوآبادیاتی معروض کے ساتھ تفاعل میں سماج میں جو حقیقت جنم لیتی ہے وہ خوبصورتی کی بجائے خوف صورتی کو جنم دیتی ہے۔ آج کے اس مضمون میں ہم گلگت بلتستان کے سماج میں اس خوف صورتی سے جنم لینے والے خوفناک حقیقتوں سے پردہ کشائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کے مضمون میں مذہب کے ہاتھوں ثقافت پر تسلط اور اس کے ثقافت پر اثرات کا جائزہ لینگے۔
عہد حاضر میں گلگت بلتستان کے سماج میں موجود اداروں میں ریاست کے بعد سب سے اہم ادارہ مذہب ہے۔ تاریخی طور پر مذہب کا گلگت بلتستان کے سماج میں اتنا اہم کردار نہیں رہا ہے۔ اس میں استثناء تبت کی حکمرانی کے دور کا ہے جب بدھ مت مذہب کو پھیلانے کے لئے یہاں کے مقامی مذہب بون مت کا تلوار کے زور پہ قلع قمع کیا گیا۔ وگرنہ گلگت بلتستان کے مقامی مائیکرو یا چھوٹی راجگیوں میں مذہب یا فرقے کا کردار بالکل نہیں تھا۔ مذہب کو سماج اور ریاست کے مرکزی دھارے میں لانے کے کام کا آغاز کالونیل دور کے ڈوگرہ راج میں ہوا۔ ڈوگرہ فوج میں مسلمان آفیسروں مشتمل ایک فورس تھی جسے کشمیر مسلم آفیسر فورس کہا جاتا تھا۔ اس فورس نے بلتستان اور گلگت کے دیگر علاقوں کو مطیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لداخ اور بعد میں بلتستان پر ڈوگرہ فوج کشی کی سربراہی گوجرنوالہ کے ایک سید کرنل نتھو شاہ کررہے تھے۔ جب ڈوگرے بلتستان اور گلگت آئے تو ان کو یہ دیکھ کے حیرت ہوئی کہ یہاں کہ مقامی لوگ برائے نام مسلمان ہیں کیونکہ ان کو نہ نماز کا اچھی طرح سے علم ہے، اور نہ ہی صوم اور دیگر ارکان دین کی پابندی کرتے ہیں۔ وضو سے مکمل ناواقف ہیں۔ زیادہ تر تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، مگر ان کے خیالات مقامی روحوں کے مت کے تصورات سے زیادہ متاثر ہیں اور اکثریتی لوگ مقامی دیو مالا اور دیویوں پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
گلگت کے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ بڈلف اٹھارہ سو اکیاسی میں استور میں مسلمانوں کی طرف سے اپنے مردوں کو جلانے کی رسم کے مروج ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر کتابوں میں بہت سی مقامی رسومات کا ذکر ملتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شادی کا ادارہ بھی اپنی موجودہ حالت میں موجود نہیں تھا۔ زیادہ دور نہیں انیس سو پچاس کی دھائی کی بات ہے جب جرمن ایکسپیڈیشن کے دوران محقیقن نے حراموش، بگروٹ اور بعد میں داریل کی وادیوں میں لوگوں کا دیویوں کو پوجنے اور روحوں کے مت سے منسلک رسومات کا ذکر کیا ہے۔
جب ڈوگرہ فوج کے مسلمان آفیسروں نے مسلمانوں کی بے مسلمانی دیکھی تو انھوں نے مقامی آبادی کو خالص مسلمانیت سے روشناس کروانے کے ایک منصوبے پرعمل شروع کیا۔ اس منصوبے کے تحت کشمیر سے علماء اور صوفیا کو سکردو اور گلگت لا کر آباد کیا گیا، جنھوں نے مقامی لوگوں کو اسلام کے متعلق آگاہی کے ساتھ "انسان بنانے” کی تربیت دی۔ اس سلسلے میں بہت سے مشہور قصے کہانیاں ہیں جو باہر سے نئے آنے والے اسلام کا مقامی تصورات کے ساتھ تصادم کی نشاندھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ داریل سے ایک مولوی کو تربیت کے لئے گلگت لایا گیا۔ ان کو ایک سال اسلام کی تربیت دی گئی کہ کس طرح نماز پڑھائی جاتی ہے اور امامت کی جاتی ہے، وضو کیسے کیا جاتا ہے اور تدفین کا کیا طریقہ کار ہے۔ واپسی پہ داریل کے لوگ نئے آنے والے اسلام کے متعلق متجسس تھے۔ انھوں نے مولانا سے پوچھا کہ کہ سنا ہے کہ نیا اسلام بہت مشکل ہے۔ مولانا نے کہا میں بھی یہی سمجھتا تھا مگر نیا اسلام بہت ہی سہل ہے کیونکہ اس اسلام میں آگے مولانا امامت کرتا ہے اور باقی جماعت اس کے پیچھے پاؤں پسار کے استراحت فرماتی ہے۔ میں نے ان الفاظ کو خالص داریلی شینا سے بدل کر قابل قبول اردو میں پیش کیا ہے ورنہ داریلی شینا اس کی ادائیگی کا اپنا الگ ہی مزا ہے۔
ڈوگروں کا مقامی آبادی کو نئے اسلام سے روشناس کروانے کا یہ عمل جدید دور کا وہ نقطہ ہے جہاں سے مذہبی خالصیت یا پاکیزگی کا تصور ابھرتا ہے۔ یہی سے لوگوں کو اپنے پرانے لباس، جوتے جن کو تھوٹے کہتے ہیں، ٹوپی، کھانا، شادی اور موت سے وابستہ رسومات، لباس، تصورات، سماجی ڈھانچے اور دیگر ثقافتی اقدار اور خیالات غیر خالص نظر آنے لگیں کیونکہ ان سے ان کا مزہبی عقیدہ آلودہ ہوجاتا تھا۔ اسی اثنا میں بیسویں صدی کے اوائل میں کچھ مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ نجف، دیوبند اور بمبئی کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان بننے تک گلگت بلتستان سے کافی لوگ باہر کے ان دینی مراکز میں تربیت پاکر واپس پہنچ جاتے ہیں اور نئے مذہبی بیانئے متعارف کرواتے ہیں۔ اس موضوع پر جرمن محقیقن نے تاریخی اور ادارہ جاتی دستاویزات کے ساتھ بہت اچھی تحقیق کی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ریاست نے مقامی ثقافتی بنیادوں پرمبنی سیاست کو روکنے کے لئے مذہبی رہنماؤں کا ساتھ دیا۔ اسی لئے وہ مقامی سیاسی قیادت جو ثقافتی شناخت پہ یقین رکھتے تھے، کو سماج کی سیادت سے روکنے کے لئے نئے مذہبی رہنماؤں کی طرف دار ہوگئی۔ گلگت کے قوم پرست قائد جوہرعلی کے ساتھ ریاست نے مذہب کے ہاتھوں کیا سلوک کیا اس کا سب کو پتہ ہے۔ جوہرعلی کو اخلاقی طور پر کرپٹ ثابت کرنے کے لئے مسجد و منبر اور ریاستی مشینری بھرپور طریقے سے استعمال کی گئی۔ آخر میں جوہر اپنے لوگوں اور گھر سے بھی بیگانہ ہوگئے۔
نوآبادیاتی نظام کے غلام سماج میں ہر فرزانہ بالآخر دیوانہ ہوجاتا ہے۔ یوں مذہب اور ریاست کے گھڑ جوڈ سے ثقافت کو دیوار سے لگا کر زندگی کے ہر شعبے میں مذہبی جنونیت، پاکیزیت اور فرقہ وارانہ خیالات کو داخل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے گلگت۔ بلتستان کی ثقافت خوبصورت ہونے کی بجائے خوف صورت بنتی چلی گئی۔ وہ مذہب جو آدم کے امن کا پیام لیکر آیا تھا، گلگت بلتستان میں آکر آدم خور بن کر اپنے ہی بچوں کو نگلنے لگا۔
مندرجہ ذیل سطور میں ہم سماج کے اندر مروج چھپی کچھ خوفناک حقیقتوں کو عیاں کرنے کی کوشش کرینگے۔
کسی بھی سماج یا ریاست کو مثالی طور پر چلانے کے لئے اس ریاست کے مختلف حصوں کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط طریقے سےکام کرنا لازمی ناگزیر ہوتا ہے۔ افلاطون کی کتاب "مثالی ریاست” اختیارات اور فرائض کی تقسیم کے اس بنیادی فلسفے کی وضاحت ہے۔ افلاطون کا کہنا ہے کہ اگر ریاست کا کوئی ایک حصہ دوسرے حصے پہ غالب ہوجائے یا دوسرے کے کام میں مداخلت کرے تو وہ ریاست نراجیت کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتی ہے۔
اگر ہم گلگت بلتستان میں ریاست، ثقافت اور مذہب کے درمیان تفاعل پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں ریاست اور مذہب ثقافت پر غالب ہوگئے ہیں۔ یوں علاقہ اپنی روح کے ساتھ شناخت بھی کھو رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گلگت بلتستان میں تاریخی طور پر مذاہب تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ پہلے مذہب مقامی ثقافت میں ڈھل کر آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ روحوں کا مت ہو یا بدھ مت یا اسلام میں سنی، شیعہ، اسماعیلی یا نور بخشی، لباس، ٹوپی, رسومات اور کھانے، معشیت اور زراعت و گلہ بانی کے اصول وہی رہے۔ اگر گوشت کھانا تھا تو پالتو جانوروں کو اسی طریقے سے پال پوس کر ذبح کیا جاتا تھا یا مشترکہ زمینوں اورقدرتی وسائل کو استعمال اسی طرح کیا جاتا تھا جو روایتی طور پہ مروج تھے۔ اب تو گلگت۔ بلتستان والوں کو گوشت اپنے فرقے کے قصائی کے پاس ڈھونڈنا پڑتا ہے کیونکہ غیر کا ذبح کیا ہوا جانور جسم و روح کو ناپاک کردیتا ہے۔ ریسٹورانٹ کے اوپر ایسے جلی حروف میں لکھا جاتا ہے کہ یہاں حلال کھانے ملتے ہیں جیسے باقی لوگ حرام ذبح کا گوشت کھا رہے ہوں۔
ثقافت وہ عمل ہے جو لوگوں کو ایک معنیاتی کائنات یا کل میں پروتا ہے جہاں ہر فرد اور اس کا عمل اس کلی تصور کے اندر ہی معنی رکھتا ہے۔ اس ثقافتی کل سے باہر یہ عمل لایعنی ہوتا ہے۔ اسی طرح مذہب کسی سماج میں معنی تب ہی پیدا کرنے کے قابل بن جاتا ہے جب وہ مقامی ثقافت کی معنیات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ وگرنہ مذہب ایک اجنبی تصور بن جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کے پاس اس وقت ایک لایعنی مذہب ہے۔
آج جس طرح کا مذہبی بیانیہ گلگت بلتستان میں رائج ہے وہ لوگوں کو جہاں اپنی ثقافت سے اجنبی بنا رہا ہے وہاں پر اس نے ایک نئی ثقافتی خوف صورتی جنم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیٔے
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ اول)
۔ گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ دویٔم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی (حصہ سویمٔ)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: سماجی ساخت اورنفسیات (حصہ چہارم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: تاریخ کا قتل (حصہ پنجم)
گلگت۔بلتستان میں خود فراموشی: عمرانی معاہدے کی تشکیل قدیم (حصہ ششم)
گلگت بلتستان میں خود فراموشی: بھیانک خوبصورتی (حصہ ہفتم)
اگرچہ ہم گلگت بلتستان میں ثقافت کو لاحق خطروں کے متعلق بہت باتیں کرتے ہیں مگر یہ کیا خطرات ہیں بتا نہیں سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ثقافت کو خطرہ سماج میں معنی کھو جانے سے درپیش ہوتا ہے نہ کہ صوم و صلواۃ پورا نہ کرنے سے۔ اور جو فرد یا سماج زندگی میں معنی کھو دیتا ہے وہ خوفناک تصورات کا شکار ہوکر بالآخر خودکشی کرلیتا ہے۔ اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ثقافتی معدومیت کیا ہے؟ اگر آپ شادی بیاہ پر خوشی نہیں منا سکتے ہیں کیونکہ مذہب نے منع کیا ہے تو یقیناََ آپ مذہب و ثقافت دونوں کھو چکے ہیں۔ مجھے یاد ہے انیس سو اسی کی دھائی تک گلگت میں شادیوں کے موقعے پر پورے ایک ہفتے تک شادی کا جشن ہوتا تھا۔ نامور شعراء کا گروپ فلی گائی اور دوسرے نغمات سے تین دن تک لوگوں کو گانے سنا کر محظوظ کرتے تھے۔ لوگ دیسی تمبل پر دیوانہ وار ناچتے تھے۔ حتی کہ گھر کی عورتیں بھی مردوں کے سامنے ناچتی تھیں۔ پھر جنرل ضیائی دور میں تاریکی شروع ہوئی جس میں مذہب کا ایک نیا بیانیہ متعارف کیا گیا جس کی رو سے رقص و موسیقی، شاعری و آرٹ اور جمالیات کو ایمان کے لیٔے خطرہ قراردیا گیا۔ کیونکہ یہ ہماری آخرت کو خراب کرتے ہیں۔ پھر کیا تھا بیس سال بعد گلگت میں شادی کی محفل خوشی کے لمحات کا منظر کم تعزیت کا سماں زیادہ پیش کرتی ہے۔ واحد چیز جس سے پتہ چلتا ہے کہ شادی ہورہی ہے وہ دلہے کا پیسوں کے ہاروں سے اٹا ہوا سر ہوتا ہے۔ اسی طرح موت پر تعزیت اور کئی دنوں تک متوفی کی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کے دلجوئی کرنا اور دعائیں کروانا مقامی لوگوں کے لئے نارمل عمل تھا۔ گلگت میں ہمارے آفس کے ایک جاننے والے کے گھر میں فوتگی ہوئی۔ آفس کے ملازمین اپنے ساتھی کی تعزیت کے لیے گاؤں پہنچے۔ انھوں نے دعا کروانے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو انھیں منع کیا گیا کہ مرے ہوئے کے لیے اس طرح دعا تعزیت کروانا شرک ہے۔ جس نے منع کیا تھا اس کے چھوٹے بھائی نے کہا کہ دعا کروانا ہماری ثقافت ہے۔ بس کیا تھا دونوں بھائی وہاں گھتم گتھا ہوگئے اور لوگ بغیر تعزیت و دعا کے وہاں سے باہر نکل آئے۔ ہمارے مذہبی شر سے انسان تو چھوڑیں مردے بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔ اگر آپ موت پہ دعا نہیں کرسکتے ہیں تو آپ یقینا انسانی موت بھی نہیں مرسکتے۔ حیوان دعا اور تعزیت نہیں کرواتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ثقافت نہیں جبلت ہوتی ہے۔ یہ ساری سماجی علامتیں یقیناً ثقافت کی موت کی نشاندھی کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیٔے:
گلگت بلتستان میں حیوانی ،معاہدہ
گلگت بلتستان میں پرانے وقتوں میں خواتین کا اپنے لئے ناچ گانوں کی تقریبات منعقد کرنا عام سی بات تھی۔ اب یہ عمل سراسر کفر ہے۔ یہاں بھی ثقافت کو مذہب نے قتل کردیا ہے۔ اسی طرح خواتین کا پبلک معاملات میں کردار ہوتا تھا۔ مثال کے طور پرکوہستان میں درد قبائل میں گاؤں کی خواتین کے جرگے کے لئے باقاعدہ ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی جہان وہ اپنے فیصلے کرتی تھیں۔ جرمن ماہر بشریات وسم یرگن نے اپنی کتاب Kohistan: A Sealed Valley میں جلکوٹ کے قریب ایک گاؤں میں ایسے سماجی ڈھانچوں کا ذکر کیا ہے جس کی گواہی مقامی لوگوں نے دی۔ ایسے مقامات اور رسوم کو ء1970 کے بعد آنے والے نئے مذہبی بیانئے کے ذریعے مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ نتیجے میں خواتین کو ثقافت سے مٹا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے آج داریل، تانگیر اور کوہستان میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ جس ثقافت میں عورت نہ ہو، تو پھر سمجھ لیجئے کہ اس ثقافت کی پہلے ہی موت واقع ہو چکی ہے۔ عورت کی غیر موجودگی میں ہم جو کچھ ثقافت کے نام پر کہہ یا کر رہے ہیں وہ فقط ایک لاش ہے جس کو ہم اپنے پدر شاہی ذہن کے کمزور کندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اب ہمارا ثقافتی ذہن مردہ پرست ہوگیا ہے۔ ایسے پَژْمُرْدَہ ذہن سے جو بھی چیز نکلے گی وہ جاندار نغمے نہیں گا سکتی ہے بلکہ مرداروں کی طرح ڈراونی آوازیں ہی نکال سکتی ہیں۔ یہ مردار ثقافت سماج کی ہر خوبصورت شے کو نگل کر اپنی خوف صورتی تشکیل دیتی ہے۔ مثال کے طور پر آرٹ کو لے لیں۔ دیامر میں دو ہزار سال پہلے ہمارے آباؤاجداد نے پچاس ہزار سے زیادہ آرٹ کے نمونوں کو پتھروں پر نقش کیا۔ اب ہم ایک آرٹ کی پینٹنگ تک نہیں بنا سکتے کیونکہ اس سے مذہب کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ امین ضیا استاد اگر اپنی محبوب کو پینٹنگ کی صورت میں لے آئے تو وہ ایک شاہکار بن سکتی ہے، مگر اس کفرزدہ سماج یہ ایک ناممکن بات ہے۔ اس لئے ہم سکول اور کالج کی دیواروں پر گلوب اور پاکستان کا نقشہ بنانے پر قناعت کرتے ہیں. ہمارے ہاں حسن کا داخلہ منع ہے۔
ثقافت و سماجی ذہن پر مذہب کی اجارہ داری معاشرے اور زندگی میں رنگینیوں کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ یوں سماج اتنا سفاک بن جاتا ہے کہ لوگوں کو حسن سے بھی خوف لگنے لگتا ہے۔ یہ خوفناک ذہنیت ایک خوفناک جمالیات کی تشکیل کرتی ہے۔ آرٹ و ادب کے شعبے میں اس کے نتائج و عواقب دیکھ لیجئے۔ اپنے زمانے میں مقبولیت و قبولیت حاصل کرنے والے معروف شینا شاعر صلاح الدین حسرت کو مذہب نگل گیا۔ اسی وجہ سے وہ قتل کے مرتکب ہوئے۔ عباس آنند کی آواز جنت میں داخلے میں حائل تھی۔ سو کلمہ پڑھا کر جنت کی چابی ہاتھ میں تھما دی گئی۔ اسی طرح گلاپور، شروٹ اور شکیوٹ جہاں سے نامور شعراء پیدا ہوئے ہیں، اب مذہب نے شعراء کی زمین کو ہی کھا گیا۔ اس سلسلے میں پچھلے دنوں نوجوان دانشور اشتیاق احمد نے اپنے زمانے کے مشہور شاعر نعمت ولی پر ایک بہت ہی پرمغز مضمون لکھا ہے جس میں انھوں نے احسن طریقے سے اس عمل کا تجزیہ کیا ہے جس کے نتیجے میں آرٹسٹ کی موت واقع ہوتی ہے اور راسخ العقیدگی جنم لیتی ہے۔
اگرمولانا رومی کا مذہب ہوتا تو یہ جمالیات اور تجلیات کی طرف لے جاتا۔ مگر ہم بغیر تجلی کے مذہب پہ کاربند ہیں۔ اسی طرح ایک فرقے کے مخصوص لوگوں نے رباب کو اتنا الوہی بنا دیا کہ اس کو عام گانوں میں استعمال کرنا گناہ کبیرہ ٹھرا۔ رباب ثقافتی نہیں مذہبی روایت بن گیا۔ وہ تو شکر ہے کہ نئی نسل نے مختلف گانوں اورغفور چلاسی کے مشہور گانے "چآنٹی کونٹی میئ صورت تھیئ غم سے تھیگن نے” کا میش اپ گا کر ان کے مقدس بیانئے کے چنگل سے رباب کو آزاد کروادیا۔ اسی طرح ایک روحانی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی خاتون سے میں نے ان کی مادری زبان شینا میں بات چیت کی تو کہنے لگی کہ ان کے ساتھ میں اس غیر روحانی زبان میں بات چیت سے گریز کروں کیونکہ یہ زبان باطنی آنکھ کو مکدر کردیتی ہے۔ یہ صورتحال کسی اعلیٰ روحانی واردات کی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی بیماری کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمارے بیمار ذہن میں داخل ہوکر مذہب بھی بیمار ہوگیا ہے ۔
آرٹ سے ہٹ کر یہ مذہب کا غلبہ صورتحال سماجی سطح پر اس سے بھی زیادہ خطرناک سماجی بیماریوں کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔ ان بیماریوں کا ذکر اگلی قسط میں ہوگا۔ (جاری ہے)
ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہ ‘دی نیوز’، ‘فرائڈے ٹائمز’، ‘ہم سب’،’ ہائی ایشیاء ہیرالڈ ‘اور ‘بام جہاں ‘میں سماجی و فکری موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں۔
One thought on “گلگت۔بلتستان میں خود فراموشی: مذہبی خوف صورتی (حصہ ہشتم)”
کامریڈ بہت زبردست تحقیق ھے لیکن سماج کو مردہ گھوڑابنانے میں بنیادی کردار ریاست کا ھے کیونکہ ابتدائی سماج میں مزھب تہزیب کا حصہ تھا جب ریاست کا ادارہ وجود پزیر ھوا طبقاتی لڑائی شروع ہوگئی تو مذہب حکمران طبقہ کے ھاتھوں استحصال کا آلہ بنا اب ریاست کا کردار اگر عوامی مفادات کا تابع ھو گیا تو مذہب کا رول بھی تبدیل ھو سکتا ھے اس لئے ایک عوامی جمہوری جدوجھد کی ضرورت ہے