Baam-e-Jahan

آپ بھی کوشش کر دیکھیں

wusat ullah khan

وسعت اللہ خان (بشکریہ ایکسپریس اردو)


فسطائیت کو دیگر نظریات سے جو شے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا خمیر ہوا یا پانی سے نہیں بلکہ آگ سے اٹھا ہے۔ جس طرح آتش کو ہردم زندہ رہنے کے لیے ایسا ایندھن درکار ہے جو اسے بھڑکائے رکھے اسی طرح فسطائیت کو بھی زندہ رہنے کے لیے ہر آن فساد کا ایندھن چاہیے۔

جیسے آگ کے لیے پانی اور جنگ کے لیے امن موت ہے۔ اسی طرح فسطائیت کے لیے کوئی بھی حد یا روک موت کے برابر ہے۔ یہی سبب ہے کہ فسطائیوں کے لیے کوئی ایک ہدف کافی نہیں۔ ایک کے بعد ایک ہدف۔ فسطائیت کی کوئی گول پوسٹ نہیں ہوتی۔ اس کی گول پوسٹ کندھے پر ہوتی ہے۔

آپ کو اگر گمان ہے کہ مطالبہ نمبر ایک دو اور تین پورے کر دیے جائیں تو فسطائیت مطمئن ہو جائے گی؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ یہ تین مطالبات پورے ہونے کے بعد تین نئے مطالبات ایجاد کر لے گی۔ یعنی پرامن بقائے باہمی کی فسطائی نظریے میں کوئی گنجائش نہیں۔ فسطائیت کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔یا تو وہ دفن ہو جائے یا پھر وہ دنیا کو قبرستان بنانے کے بعد اپنی قبر کھود لے۔

گزشتہ مضمون میں ہم نے بھارت میں پچھلے سات برس میں فسطائیت کی بدلتی گول پوسٹس اور مسلمانوں کی شکل میں اکثریت کو ایک پنچنگ بیگ فراہم کر کے اصل مسائل سے انٹا غفیل رکھنے کی متعدد مثالیں پیش کیں۔اس سلسلے کی تازہ کڑی ہندوستان میں پیدا ہونے والی اردو کو ایک کونے میں دھکیل دینے کی آخری بھرپور کوشش میں دیکھی جا سکتی ہے۔

ویسے تو تقسیم کے ہنگامے میں جس جس مشترکہ ورثے کی بنیادیں ہل گئی۔ اس میں گنگا جمنی تہذیب اور اس کی نمایندہ ہندوستانی ( اردو ) زبان سرِ فہرست ہے۔مگر سخت جانی برقرار رہی۔ چنانچہ اب اسے پوری طرح کچل دینے کے لیے ریاست کو کھل کے سامنے آنا پڑ گیا ہے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ دو ہفتے پہلے بھارت کے معروف لباس ساز ادارے فیب انڈیا نے دیوالی پر فیشن کی نئی رینج ’’ جشن رواز ( رواج ) ‘‘کے نام سے متعارف کروائی تو بی جے پی کے ایک رکنِ پارلیمان تیجسوی سوریا نے یہ درفنتنی چھیڑ دی کہ جشنِ رواج ایک اردو اصطلاح ہے۔اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ دیوالی ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے لہٰذا جشنِ رواج کی ترکیب سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ تیجسوی کا یہ بیان بی جے پی کے ٹرول بریگیڈ نے ایک ٹرینڈ بنا دیا اور فیب انڈیا کو یہ نام واپس لینا پڑ گیا۔

مگر آج ہمیں لسانی تعصب کا جو ببول دکھائی دے رہا ہے۔اس کا بیج انیسویں صدی میں برطانوی ماہرِ لسانیات جان گلگرائسٹ نے بویا تھا۔اس نے شمالی ہندوستانی کھڑی بولی اور مسلم حکمرانوں کے عہد میں ترک ، فارسی عربی کے احتلاط سے جنم لینے والی ہندوستانی کو دو شاخوں میں تقسیم کیا۔جس بولی میں فارسی ، ترک ، عربی وغیرہ کا اثر زیادہ تھا اسے اردو اور جس بولی میں مقامی کھڑی بولی اور سنسکرت کی آمیزش تھی اسے ہندی قرار دیا۔مگر اس لسانی بحث سے قطع نظر عام ہندوستانی وہی زبان بولتا رہا جس کا وہ عادی تھا۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کے بعد ہندو مسلم سیاسی تضادات کی لپیٹ میں زبان بھی آتی چلی گئی۔انگریزوں نے فارسی کی سرکاری حیثیت ختم کر کے انگریزی اور مقامی بولیوں کو فروغ دینے کی جو پالیسی اپنائی اس میں دیوناگری اور نستعلیق کی علمی بحث نے لسانی تقسیم کے معاملے کو انگریزی منشا کے مطابق ایک نئی شکل دے دی۔چنانچہ سن انیس سو میں دیوناگری خط کے عدالتی استعمال کی اجازت مل گئی۔یوں ایک ہی مشترکہ زبان کی دو علیحدہ سیاسی شناختوں کا سفر تیز تر ہوتا گیا۔

لیکن آزادی کی تحریک میں نعرے ایک ہی زبان میں لگتے تھے۔ تحریکِ آزادی کا سب سے مشہور نعرہ انقلاب زندہ باد نہ ہندو تھا نہ مسلمان بلکہ ہندوستانی جذبات کا ترجمان تھا۔ سبھاش چندر بوس کی قوم پرستی اپنی جگہ لیکن جب نام رکھنے کی باری آئی تو انھوں نے سوتنتر بھارت سینا نہیں بلکہ آزاد ہند فوج کے قیام کا ہی اعلان کیا۔آزادی کے حق میں جو شاعری ہوئی وہ اردو میں ہی ممکن ہوئی۔ویسے بھی اردو میں ساٹھ فیصد مقامی اور چالیس فیصد غیر مقامی الفاظ ہیں۔ایسی زبان کا من پسند کریا کرم کیسے ممکن ہے۔

یہ تو ممکن نہیں تھا کہ جو زبان میر و غالب و انیس و اقبال لکھیں وہ اردو کہلائے اور جو زبان منشی پریم چند ، کرشن چندر، فراق گھورکھپوری ، راجندر سنگھ بیدی اور گلزار لکھیں وہ ہندی کہلائے۔ مگر سیاست کی یہی خوبی ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن بنانے کا چمتکار جانتی ہے۔

اردو کو سیاسی مصلحتوں اور تعصب کے سبب کسی بھی نام سے پکاریں۔بھارتی ایکتا کی ضمانت بولی وڈ سینما آج تک اردو مکالمے ، لفظیات اور شاعری سے جان نہیں چھڑا سکا۔اردو سے تب ہی جان چھوٹ سکتی ہے جب بالی وڈ سے جان چھوٹ جائے اور مستقبلِ قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔امیتابھ بچن کون بنے گا کروڑ پتی میں جیسی بھی شدھ بھاشا کا اپیوگ کریں۔ لیکن میرے پاس ماں ہے کو میرے پاس ماتا ہے نہیں کر سکتے۔اردو شاعری میں زبردستی سنسکرت گھسیڑنے سے گیت تو مضحکہ خیز بن سکتا ہے،مگر دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے کو ذرا ہندی میں کہہ کر دکھائیں اور پھر جنتا کا چہرہ دیکھیں۔

معروف لکھاری اور بالی وڈ کے اسکرپٹ رائٹر جاوید صدیقی کے بقول فلم کی مجبوری یہ ہے کہ کوئی بھی نغمہ دل، عشق اور محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس زبان میں جو قدرتی نغمگی ہے وہ ہندی متبادلات کے استعمال کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی۔

عجیب بات ہے کہ جو زبانِ انگریزی واقعی خالص غیر ملکی زبان ہے اسے تو بھارت کے جنوب اور شمال کے رابطے کی زبان کہہ کر گلے لگایا گیا۔مگر جو زبان ہندوستان کی خاک سے اٹھی اسے اب غیر ملکی و غیر ہندوستانی زبان قرار دینے کی سعیِ لاحاصل میں توانائی جھونکی جا رہی ہے۔

اردو ان بائیس زبانوں میں شامل ہے جنھیں بھارتی آئین کے مطابق سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ دو ہزار ایک کی مردم شماری کے مطابق اردو کا شمار سب سے زیادہ بولی جانے والی سات بھارتی زبانوں میں ہوتا ہے۔

اگلی مردم شماری اگلے برس ہونے والی ہے۔چنانچہ اردو کے خلاف مہم کے زور پکڑنے اور اسے صرف اور صرف مسلمانوں سے نتھی کرنے کی تیزرفتار کوشش کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر ایک عام شہری جس نے گزشتہ مردم شماری میں اپنی زبان اردو لکھوائی تھی وہ بھی اسے مسلمانوں کی زبان سمجھ کر اگلی مردم شماری میں اسے اپنی زبان لکھوانے سے پرہیز کرے۔ یوں سرکاری کاغذوں میں اردو کو مزید پیچھے دھکیل دیا جائے۔باقی گھیراؤ سیاسی و سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے مکمل کر لیا جائے،لیکن کیا یہ کوشش بھی کامیاب ہو پائے گی؟

منٹو کے بقول ہندو ہندی کی حمایت میں اور مسلمان اردو کے تحفظ میں اتنے اتاؤلے کیوں ہیں۔ زبان کوئی بناتا نہیں ہے یہ خود بخود بنتی ہے۔ انسان لاکھ کوشش کر لے وہ کسی زبان کو ختم نہیں کر سکتا۔زبان کی حفاظت اور عروج و زوال کی ذمے داری فطرت نے اٹھا رکھی ہے۔

وسعت اللہ خان نامور صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ بی بی سی اردو پر کالم لکھتے ہیں اور ایک پرائیوٹ چینل پر میزبانی بھی کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے