556

ساحر لدھیانوی اورامرتا پریتم کی محبت کی ان کہی داستان

sudha malhotra

1944 میں مشہور شاعر اور فلمی گیت ساز ساحر لدھیانوی اور امرتا پریتم لاہور اور دہلی کے بیچ واقع ایک گاؤں پریت نگر میں ایک مشاعرے کے دوران ایک دوسرے سے ملے۔ ساحر مشہور اور وجیہہ تھا۔ امرتا اپنی خوبصورتی اور الفاظ کے باعث پرکشش تھی۔ یہ قصہ بھی مشہور محبت کی داستانوں کی مانند شروع ہوا کہ “ان کی آنکھیں ایک دوسرے سے مدہم روشنی والے کمرے میں ملیں”۔ لیکن اس کے بعد ان دونوں کی محبت کی کہانی میں سب کچھ تھا لیکن روایتی پن نہیں تھا۔

امرتا پریتم جب ساحر سے ملی تو اس وقت امرتا، پریتم سنگھ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھی تھی۔ امرتا کی شادی بچپن میں ہی پریتم سنگھ سے ہو گئی تھی اور شادی کا یہ بندھن خوشگوار نہیں تھا۔ امرتا کا ساحر سے رشتہ ان خطوط سے واضح ہوتا ہے جو انہوں نے ایک دوسرے کو لکھے۔ ساحر لاہور میں تھا۔ امرتا دہلی میں تھی۔ اپنے درمیان فاصلے کی خلیج کو دونوں نے الفاظ کے پل سے پاٹا۔

ان کے لکھے گئے خطوط سے واضح ہوتا ہے کہ امرتا ساحر کی محبت میں گرفتار تھی۔ وہ ساحر کو “میرا شاعر”، “میرا محبوب”، “میراخدا” اور “میرا دیوتا” کہہ کر مخاطب کرتی تھی۔ اکشے مانوانی جو “ساحر، ایک عوامی شاعر” نامی کتاب کے مصنف ہیں، ان کا ماننا ہے کہ امرتا وہ واحد عورت تھی جس نے ساحر کو اپنے اکیلے رہنے کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ وہ امرتا ہی تھی جس کے بارے میں ساحر نے ایک بار اپنی ماں سے کہا تھا، “وہ امرتا پریتم تھی، وہ آپ کی بہو بن سکتی تھی”۔

اس کے باوجود ساحر نے کبھی امرتا سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ ان کے درمیان محبت فاصلوں کی دوری پر تھی اور ساحر اس فاصلے کو کم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو خطوط لکھتے تھے۔ کچھ دفعہ وہ چھپ کر ایک دوسرے سے ملے بھی لیکن اس محبت میں الفاظ سے زیادہ خاموشی موجود تھی۔

اپنی سوانح عمری “رسیدی ٹکٹ” میں امرتا لکھتی ہے کہ کیسے وہ اور ساحر خاموشی سے بیٹھے ایک دوسرے کو تکتے رہے اور ساحر سگریٹ پر سگریٹ سلگاتا رہا۔ جب وہ چلا گیا تو امرتا نے بجھے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے اٹھائے جو ساحر نے پیے تھے۔ انہیں سلگایا اور ان سگریٹ کے ٹکڑوں پر موجود ساحر کے ان دیکھے ہونٹوں کے نقوش پر اپنے لبوں کی مہر ثبت کرتی رہی۔

مسائل بہت تھے۔ ایک زمانہ تھا جب ساحر اور امرتا دونوں لاہور میں ہی رہتے تھے لیکن جلد ہی ساحر ممبئی چلا گیا اور تقسیم کے بعد امرتا اپنے خاوند کے ساتھ دہلی چلی گئی۔ امرتا اپنی شادی ختم کرنے کیلئے تیار تھی۔ ساحر کی طرف سے کسی شہ کے باوجود اس نے شوہر کو تو چھوڑ ہی دیا تھا۔ اور دہلی میں اپنے دانشورانہ اور شاعرانہ قد کو بھی اگر اس سے اسے ساحر مل جاتا۔ وہ امرتا کی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے، اور امرتا نے اپنی سوانح عمری “رسیدی ٹکٹ” میں ساحر سے اپنی محبت کو چھپایا نہیں۔

دوسری جانب، ساحر اپنے اور امرتا کے ایک ساتھ مستقبل کے بارے میں اتنا پراعتماد نہیں تھا۔ امرتا کی کشش اتنی تو ضرور تھی کہ ساحر کے قلم سے اس کے چند خوبصورت ترین اشعار لکھوا گئی۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کیونکہ ساحر اپنے شاعرانہ فن کی اوج پر تبھی محسوس ہوتا ہے جب وہ معاشرے پر چوٹ کر رہا ہو اور اس کے سیاسی آدرش کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہو۔ اس کی شاعری میں محبت کی حیثیت ثانوی تھی۔ پھر بھی امرتا اور ان دونوں کی نامکمل محبت نے اسے فلم دوج کا چاند (1964) کیلئے “محفل سے اٹھ جانے والو” لکھنے پر مجبور کر ہی دیا۔

منوانی کے مطابق یہ گانا ساحر اور امرتا کی ملاقات کے بعد لکھا گیا۔ وہ اپنے دیرینہ ساتھی، فن کار اور شاعر امروز کے ساتھ تھی۔ دونوں 1964 میں ساحر سے ملاقات کیلئے ممبئی آئے اور امرتا کو ایک دوسرے مرد کے ساتھ دیکھ کر ساحر کے دل سے جو صدا بلند ہوئی اسے اس نے ان اشعار میں ڈھالا

محفل سے اٹھ جانے والو
تم لوگوں پر کیا الزام
تم آباد گھروں کے واسی
میں آوارہ بدنام

گو یہاں ساحر امرتا کے ساتھ اپنی محبت کی کہانی میں خود کو ایک دکھی ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے، لگتا یوں ہے کہ ان دونوں کی محبت کا اختتام 1960 میں ہوا جب ساحر گلوکارہ سدھا ملہوترا کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ جب ساحر اور امرتا کی محبت بھری کہانی ختم ہوئی تواس وقت ساحر کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ساحر قدرتی طور پر ایک کم گو انسان تھا اور عورتوں کے ساتھ معاشقوں کے باوجود وہ کسی کے سامنے اپنے جذبات اور احساسات کھل کر بیان نہیں کرتا تھا۔ امرتا اور ساحر کے محبت کے رشتے کے دوران امرتا نے ایک مختصر کہانی بھی لکھی تھی جو اس کی ساحر کے ساتھ پہلی ملاقات کا عکس تھی۔ اس نے کچھ عرصے سے ساحر کی جانب سے کچھ نہیں سنا تھا اور اسے امید تھی کہ اس کی کہانی ساحر کو ردعمل دینے پر مجبور کرے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ساحر نے اپنے دوستوں سے کچھ نہیں کہا۔ اس نے جواب میں بھی کچھ تحریر نہیں کیا۔ بعد میں اس نے امرتا کو بتایا کہ اسے وہ کہانی بیحد اچھی لگی تھی لیکن اس نے اس کا جواب اس ڈر سے نہیں دیا کہ کہیں اس کے دوست اس کا مذاق نہ اڑائیں۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ساحر کے عورتوں کے ساتھ تعلقات اس کے اپنی ماں کے ساتھ رشتے کی وجہ سے استوار نہیں رہ پاتے تھے جو ساحر کی زندگی پر گہرا اثر رکھتی تھی۔ اس نے اپنے تشدد پسند خاوند کو چھوڑ کر خود ساحر کی پرورش کی تھی۔ ساحر یہ بات کبھی نہیں بھولا کہ اس کی ماں نے اس کی حفاظت کرتے ہوئے کس قدر مصائب جھیلے۔ فلم ساز ونے شکلا نے ساحر سے پہلی فلم کیلئے گیت لکھوائے۔ شکلا کا ماننا ہے کہ ساحر کا کسی بھی خاتون کے ساتھ دیرپا رشتہ قائم کرنے میں ناکامی کی وجہ اس کی اپنی ماں کے ساتھ جنون کی حد تک محبت تھی۔

“آپ کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ جو محبت اور احترام وہ اپنی ماں (صفدر بیگم) کیلئے رکھتا تھا اس کے باعث وہ کسی دوسری عورت کو توجہ دینے میں ناکام ہو جاتا تھا۔ امرتا وہ واحد عورت تھی جسے ساحر نے اپنی ماں کے بعد سب سے زیادہ توجہ اور چاہت دی”۔

گو ساحر نے سدھا ملہوترا سے معاشقے میں پہل کی لیکن معاملات ایسے ہیں نہیں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ شکلا ایک واقعہ بتاتے ہیں جو انہیں پنجابی کمپوزر جے دیو نے 70 کی دہائی میں سنایا۔ جے دیو اور ساحر ایک گیت کی دھن بنانے کیلئے ساحر کے گھر پر کام کر رہے تھے جب جےدیو کو ایک گندا اور استعمال شدہ کافی کا کپ میز پر پڑا دکھائی دیا۔ جے دیو نے کہا کہ اس کپ کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ ساحر نے جواب دیا “اس کپ کو چھونا بھی مت۔ امرتا جب آخری بار یہاں آئی تھی تو اس نے اس کپ میں کافی پی تھی”۔

یہ مضمون نیا دور میں چھپا تھا جسے ہم بام دنیاء کے قارئین کے لئے شکریہ کے ساتھ پیش کر رہے ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں