467

‘سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے’

فیض فیسٹیول پر مشہور انقلابی شاعر بِسمل عظیم آبادی کی نظم پڑھنے والی طالبہ عروج اورنگزیب کا لوگوں کو احتجاج کی دعوت دینے کا انوکھا انداز وائرل

ٹوئٹر اور فیس بک پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں چمڑے کی سیاہ جیکٹ میں ملبوس ایک لڑکی بھرے مجمعے کے سامنے انتہائی پرجوش انداز میں ڈھول کی تھاپ پر گا رہی ہے:

Students Electrify Atmosphere At Faiz Festival

At the Faiz Festival held last weekend, progressive student activists actively mobilized for the upcoming 'Student Solidarity March'. Their revolutionary slogans electrified the atmosphere. The future belongs to these young leaders!

Posted by NayaDaur on Monday, November 18, 2019

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔۔۔

آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار

آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

اور مجمع میں جیسے ایک برقی لہر دوڑ جاتی ہے جو ان کا تالیوں اور نعروں سے بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔

ویڈیو میں موجود لڑکی عروج اورنگزیب ہیں اور وہ لاہور میں منعقد ہونے والے فیض فیسٹول کے موقع پر معروف ہندوستانی شاعر بِسمل عظیم آبادی کی نظم ’سرفروشی کی تمنا‘ گا رہی ہیں۔
عروج اورنگزیب کون ہیں؟
عروج اورنگزیب پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو، فیمینسٹ کلیکٹو اور حقوقِ خلق تحریک کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پنجابی تھیٹر میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں ایک عام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے سے ہوں اور اپنی محنت کے بل بوتے پر ایک دو سکالر شپس بھی لی ہیں۔‘

پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کا حصہ بننے کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ ’جب گورنمنٹ کالج لاہور (جی سی یو) کے ہاسٹل سے کچھ طالب علموں کو نکالا جا رہا تھا تو اس پر کچھ لوگ اکٹھے ہوئے کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ میں اس وقت فیمینسٹ کلیکٹو کا حصہ تھی اور اس حیثیت میں اُس احتجاج کا بھی حصہ بنی۔‘

عروج نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی 29 نومبر کو ہونے والے سٹوڈنٹس مارچ میں طالب علموں کو دعوت دینے کے لیے فیض فیسٹیول میں نعرے بازی کر رہے تھے۔

’ہمارا اس میں کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ لوگوں کو اتنا ابہام ہے کہ پتا نہیں کیا مقصد ہے یا این جی او نے پیسے دیے ہوئے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ’ہم صرف عام سے انسان ہیں جو اپنی زندگیوں سے تنگ ہیں، خود کشیاں نہیں کرنا چاہتے بس نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔‘

عروج کہتی ہیں ’ہم غیر طبقاتی معاشرے اور غیر طبقاتی تعلیمی نظام کا قیام چاہتے ہیں۔ سب کے لیے تعلیم ایک جیسی ہوگی تو ہی ہم ایک جیسے بن سکتے ہیں۔ ہم کوئی غلط بات تو نہیں کر رہے نا۔‘

عروج جس انداز میں لوگوں کو اس مارچ کی دعوت دے رہی ہیں اس انداز پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں کہ یہ احتجاج کا کون سا طریقہ ہے؟

ساتھ ہی سوشل میڈیا پر کچھ لوگ ان پر تنقید کرتے ہوئے انھیں ایک ’برگر بچی‘ بلا رہے ہیں جو اپنی اے سی والی کار میں اپنے بڑے سے گھر واپس لوٹ جائے گی۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک امیر گھرانے کی لڑکی کو عام لوگوں کے مسائل کا کیا پتا؟

اس تنقید پر عروج کہتی ہیں ’اگر انسانوں کو آزادی سے جینے کا حق حاصل ہو تو اس طرح کے انداز تو وہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ جیسے میں تھیٹر کرتی ہوں تو اس میں ہم ایسے کلام مختلف سکولوں اور گاؤں وغیرہ میں جا کر پڑھتے رہتے ہیں۔‘

تو کیا انھوں نے پہلے سے اس کی منصوبہ بندی کی تھی؟

عروج کہتی ہیں ’یہ کوئی سٹریٹ انٹرٹینمنٹ یا ڈرامے بازی نہیں تھی۔ ہمیں پتا تھا یہاں آج فیسٹول میں کافی لوگوں کو آنا ہے۔ یہ ہمارا لائحہ عمل تھا کہ یہاں آنے والوں کو ایسے ہی مارچ میں شامل ہونے کی دعوت دیں گے۔‘

’ہم نے صرف نعرے بازی نہیں کی، ہم نے سٹڈی سرکل بھی منعقد کیا، پمفلٹ بھی بانٹے۔ ہاں اس سب کی تصویریں وائرل نہیں ہوئیں۔‘

وائرل ویڈیو میں عروج ایک ہندوستانی شاعر بِسمل عظیم آبادی کی نظم کے دو شعر پڑھ رہی ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ عروج نے دعوت نامے کے مقصد کے لیے کسی پاکستانی شاعر کے بجائے ایک ہندوستانی کا کلام ہی کیوں چنا، عروج کہتی ہیں ’ہم تو حق کی بات کر رہے ہیں، حق کی بات جس نے بھی کی ہے اس میں بارڈرز کا کیا لینا دینا؟‘

’انسان پیدا ہوتے ساتھ ہی بارڈرز تو نہیں لے کر آیا۔ یہ نظم بھگت سنگھ پر لکھی گئی ہے اور وہ ہمارے بھی ہیرو ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں لوگوں کے فائدے کے لیے ہی بات کر رہی تھی۔ اگر زندگی آسان ہوتی تو ہم کیوں نکلتے؟ ہمارا مقصد لوگوں تک بات پہنچانا تھا۔ اب اگر یہ دیکھ کر وہ مارچ میں آتے ہیں تو ہمارا مقصد پورا ہو جائے گا۔‘

عروج کہتی ہیں ’صرف میری شکل اور حلیے پر نہ جائیں۔ ہمارا کوئی مقصد بھی ہے، آپ اس پر بات کریں نا۔‘

’پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کوئی عورت بول پڑے تو وہ زیادہ مسئلہ بن جاتا ہے کہ ہائے اللہ عورت نے کیسے بول دیا، بجائے اس کے کہ اُس عورت نے بولا کیا ہے۔‘

29 نومبر کو ہونے والے سٹوڈنٹس مارچ کے مطالبات میں یونین سازی، فیصلوں میں نمائندگی کا حق، کیمپیسس میں ہراس روکنے کے لیے کمیٹیوں کا قیام، چھوٹے علاقوں سے آنے والے طالبعلموں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ، اور اس حلف نامے کا خاتمہ شامل ہے جو ہر یونیورسٹی میں داخلے کے وقت ایک طالبِ علم سے پُر کرایا جاتا ہے کہ وہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام اسلالم آباد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں