473

ہند و پا ک کے زرا ئع ا بلا غ پرعا لمی استعماریت کا تسلط

فاروق سلہریہ کی تصنیف
"میڈیا امپیریلزم ان انڈیا اینڈ پاکستان” پرتبصرہ ۔ پاکستان لنک
ڈاکٹر قیصرعباس

دوسری عا لمی جنگ کے بعد ترقی پذ یرمما لک نے نوآ با د یا تی نظام سے نجات توحاصل کرلی لیکن ترقی یافتہ ملکوں نے جدید تکنیکی ایجادات اورابلاغ کے نت نئے طریقوں کے زریعےاستحصال کے نئے حربے بھی ایجاد کرلئے۔ چونکہ جدید زرائع ابلاغ کی ابتدا بھی مغربی ممالک میں ہوئی تھی، اس سے منسلک ٹیکنالوجی، بین الاقوامی سطح پراوراندرون ملک پروگرامزکو کیبل، سیٹلائٹ یا دیگرطریقوں سے گھروں تک پہنچا نے کے زرائع پربھی زیادہ ترانہی ملکوں کی اجارہ داری ہوگئی۔

جوں جوں ان زرائع ابلاغ کا تسلط ترقی پذیرملکوں میں بڑھتا گیا ان پرعلمی، نظریاتی اوراقتصادی حلقوں میں تنقید بھی تیزترہوگئی۔ ستراوراسی کی دہائیوں میں اس موضوع پرعلمی مبا حث اورتصانیف کی بازگشت مغربی اورمشرقی درسگاہوں میں عام ہوچکی تھی۔ ایک طرف تو کچھ حلقے مغربی زرائع ابلاغ کے اس تسلط کو جدید استعماری ہتھکنڈوں کا شاخسانہ قراردے رہے تھے اوردوسری جانب کچھ محقق اسے بین الاقوامی ہم آہنگی کی راہ میں ایک مثبت قدم قراردے رہے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئےعا لمی اثرورسوخ نے اس تحقیقی بحث کو بھی پس پشت ڈال دیا اوراس مفروضے کو درست سمجھا جانے لگا کہ جدید دور میں استعماریت صرف ایک داستان پارینہ ہے۔

پاکستان کے جانے پہچانے صحافی فاروق سلہریہ نے اپنی نئی تصنیف میں زرائع ابلاغ اوراستعماریت کے موضوع پرقلم اٹھایا ہے۔ یہ کاوش ان کی پی ایچ ڈی کی تحقیق کا حصہ ہے جسے یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز کے زیراہتمام شائع کیا گیا ہے جہاں سے انہوں نے حال ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔

دوسو اٹھاون صفحات پرمشتمل اس کتاب کو چھہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں تھیوریٹکل پہلووں کا تعارف، بھارت اور پاکستان میں ابلاغی سامراجیت کے اثرات، ابلاغ کے شعبوں میں مالی بدعنوانیاں، ہندوپاک کی چنندہ درسگاہوں میں صحافت کی تدریس، اورآخرمیں زیربحث عنوانات کا سیرحاصل تجزیہ شامل ہے۔

مصنف نے استعماریت اور زرائع ابلاغ کی بحث پر اپنے خدشات کا اظہارکرتے ہوئے ثابت کیاہے کہ دراصل استعماریت کا اصل مقصد یک طرفہ ترسیل اطلاعات یا فری فلوآف انفرمیشن نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں کوترقی یافتہ ملکوں کا محتاج بناناہے تاکہ ان کا اقتصادی استحصال ابلاغ کے منافع بخش شعبوں میں بھی جاری رکھا جا سکے۔

استعماریت کا یہ نظام بنیادی طورپر سرمایہ دارانہ تسلط اورمنافع کے حصول کے لیےکام کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت اورپاکستان بھی اسی عالمی نظام کا حصہ بن چکے ہیں جہاں ابلاغ کے کئی شعبوں میں عالمی تسلط قائم رکھنے کے لئےدومختلف طریقہ کارپرعمل کیاجاتاہے۔ بین الاقوامی کارپوریشنز بھارتی میڈیا کے ساتھ براہ راست جوائنٹ ونچریا باہمی تعاون کے منصوبوں پرکام کرتی نظرآتی ہیں- ان بیرونی کارپوریشنزکا اثراب اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہرکامیاب بھارتی میڈیا ہاوس کے پیچھےکسی بیرونی کمپنی کاہاتھ نظرآتا ہے۔

لیکن پاکستان میں بھارت کی طرزپر براہ راست اثراندازی کے بجا ئےبلاواسطہ حکمت عملی زیادہ موثر نظرآتی ہے جس میں بیرونی چینلزکی نشریات کے حقوق’ چینلز کی اندرون ملک تقسیم کے لئےمہنگی ٹیکنالوجی کی فروخت، سیٹلا ئٹ کے استعمال کا معاوضہ، ٹی وی سیٹ کی مینوفیکچرنگ اور دوسرے طریقےشامل ہیں۔

زیرنظرتحقیق میں مصنف نے ہرپہلوکو منطقی استدلال اوراعدادوشمار کی کسوٹی پربہت خوبی سے پرکھا ہے لیکن تحقیق کا یہی طریقہ کار کچھ جگہوں پراس شدت سے موجود ہے کہ قاری موضوع کے تفصیلی تجزئے کی تشنگی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کچھ ابواب کے آخری حصوں میں مزید تجزئے کے زریعے اس کمی کا ازالہ کیا جا سکتا تھا۔
دوسری جانب، مصنف نے دونوں ممالک میں بین الاقوامی میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ثابت تو کیا ہے مگران وجوہات کا تذکرہ سرسری طورپر ہی کیا گیا ہے جن کے تحت ان ملکوں میں بیرونی میڈیا مختلف حکمت عملی پرعمل پیرا ہیں۔

پاکستان میں بلاواسطہ تسلط کی اہم وجوہات توبھارت کے مقابلےمیں قدرے چھوٹی میڈیا مارکیٹ اورمنافع کی کمی ہی ہیں مگرایک روائتی معاشرہ میں مغربی اقدارپرسرکاری اورسماجی پا بند یاں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن سرکار کی یہ کوششیں اس وقت خاصی مشکوک بھی نظرآتی ہیں جب مقبولیت کی بنیاد پر ذی ٹی وی ، این ڈی ٹی وی، اسٹارٹی وی اوردوسرے بھارتی چینلزکی نشریات کی اجازت خاموشی سے دے دی جاتی ہے۔

فاروق سلہریہ نے اس تحقیق کے زریعے ایک اہم موضوع کو دوبارہ زندہ کرکےعالمی استعماراورابلاغیات کے نئے پہلووں کو عصرحاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام سرانجام دیاہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اگرچہ اکیسویں صدی کا طاقتورسامراج اپنی شکل تبدیل کرچکا ہے، اس کا جاہ جلال ہرگزکم نہیں ہوا۔ ضرورت ہے کہ اس تصنیف کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا جا ئےتاکہ ہماری درسگاہیں، محققین اوردانشوربھی اس سے مستفید ہوسکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں