کشمیر کے ترقی پسند ہوں یا قوم پرست، ان کی سوئی ڈوگرہ دور میں اٹکی ہوئی ہے 167

کشمیر کے ترقی پسند ہوں یا قوم پرست، ان کی سوئی ڈوگرہ دور میں اٹکی ہوئی ہے

سلطان مدد


جموں کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو برطانوی سامراج کی دلالی کے عوض قابض سامراج نے 75 لاکھ روپے کی قیمت پرکشمیر عنایت کیا تھا۔ سامراجی دلالی کے کرداروں اور تاریخ پر فخر کرتے ہوئے نام نہاد ترقی پسندوں کو شرم آنی چاہئے۔

ڈوگروں کی یہ طفیلی حکمرانی ہنزہ نگر چلاس داریل تانگیر پر کبھی نہیں رہی ہے۔ متعدد حملوں میں ہر دفعہ زلت آمیز شکست کھا کے بھاگ گئے ہیں۔ یہ سوشلسٹ نما شائونسٹ گلگت بلتستان کی مزاحمتی جنگوں اور 1947 کی جنگ آزادی کو بھول جاتے ہیں۔
کشمیری قوم پرستوں کے فکری تضاد اور کھوکلا پن کی عکاسی اس سوچ سے ہوتی ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ اور شہہ رگ کہیں تو غلط اور اگر خود اسی کولونیل غلامی کے دور کی بنیاد پر گلگت بلتستان کو اپنی جاگیر سمجھیں تو درست۔ اگر یہ کوئی جواز ہے تو بہتر ہوگا کشمیری شاونسٹ ہزارہ ڈویزن کو پاکستان سے واپس لے لیں۔

گلگت بلتستان اور کشمیر آج کالونیل غلام ہیں۔ اس سے آزادی کی مشترکہ جنگ دونوں قوموں کے رضاکارانہ اتحاد سے لڑی جا سکتی ہے جس کی بنیاد باہمی احترام اور اعتماد پر ہوسکتی ہے نہ کہ فاطرانہ زعم پر۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں