Baam-e-Jahan

وادیِ فرغانہ اور بابر کا اوش

osh city farghana

نور شمس الدین


کرغستان کے اوش سٹی کے درمیان میں واقع بارہ کہو جسے آج کوہ سلیمان کہا جاتا ہے، کی پہاڑی پر چڑھ کر ایک چھوٹے مکان کی طرف اشارہ کرکے پروفیسر شمتوف نے جب بادشاہ بابر کا ذکر کیا تو مقابلے کے امتحانات کے دوران پڑھی ہوئی "بابر نامہ” کے چند اقتباسات یاد آگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس امتحان میں متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں دو سو میں سے صرف آٹھ نمبر ملے تھے! اتنے "زیادہ” نمبر کیوں ملے یہ معمہ آج تک حل طلب ہے۔ بہرحال یہ وہ مکان ہے جسے ظہیر الدین بابر نے وسطی ایشیاء میں اپنی حکومت کے دنوں میں 1497 میں تعمیر کیا تھا۔ بابر کو فرغانہ سے عشق تھا جس کا ذکر بابر نامہ میں جابجا ملتا ہے۔ شمالی شاہراہ ریشم پر واقع آج کی وادی فرغانہ کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان میں تقسیم ہے۔ گزشتہ دو دنوں سے کرغزستان کی طرف اوش سمیت آس پاس کے خوبصورت ترین علاقوں میں گھومنے کے بعد ہندوستان کے بابر پر مجھے ترس آرہا ہے کہ فرغانہ میں گزرا ایک دن شاید ہندوستان کی تختِ شاہی پر گزارے چار سالوں بدرجہا افضل تھا۔

اوش کا شہر

عرصہ پہلے استاد عنایت اللہ فیضی صاحب سے رسول حمزہ توف کا نام پہلی بار سنا۔ فیضی صاحب گولدور چترال میں میئر کے دفتر میں توف کی پیرس میں اپنے ہم وطن سے ملاقات کا واقعہ بیان کرکے مجھے "میرا داغستان” پڑھنے پر مجبور کیا۔ توف کی کتاب میں ماں بولی سے محبت کے ساتھ جنم بھومی سے عشق جھلکتا ہے۔ گاؤں کی بے ضرر زندگی اور اپنوں سے دور ہونے کا احساس انسان کے لیے کتنا دشوار ہے، وہ توف نے نہایت پُر تاثیر انداز میں بیان کیا ہے۔ سوچتا ہوں کہ فرغانہ جیسی وادی چھوڑنے والے بابر پر ہندوستان کے میدانوں میں کیا بیتا ہوگا۔ دل تو کہہ رہا ہے کہ اس حسین وادی کو چھوڑ کر ہندوستان میں چار سالہ حکومت حاصل کرکے بھی مغلیہ سلطنت کے بانی نہایت گھاٹے میں رہے۔

تقریباً 22000 کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ میدانی علاقہ مختلف ریاستوں کی ملکیت رہ چکا ہے اور ہندوستان کی مغل سلطنت کا بانی حکمران اسی علاقے کے اندیجان نامی گاؤں میں پیدا ہوا تھا (اندیجان آج ازبکستان کا حصہ ہے)۔ والد کی وفات کے بعد 12 سال کی عمر میں حکومت ملنے کے بعد محلاتی سازشیں اور چچا و ماموں کی ریشہ دوانیوں نے انہیں آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ تاہم 1497 تک وادی فرغانہ کے اکثریتی حصے پر قابض ہوکر بابر اندیجان سے اوش کی طرف آئے۔ اوش میں اپنے قیام کا ذکر کرکے بابر لکھتے ہیں، "اندیجان سے جنوب مغرب کی طرف جائے تو 33 میل کے فاصلے پر اوش واقع ہے جہاں کا موسم خوشگوار، بہتے پانی خوبصورت اور بہار خوبصورت ترین ہوتی ہے۔ اوش میں جنوب مشرق کی پہاڑیاں بارہ کہو کہلاتی ہیں جہاں میں نے بھی ایک چھوٹا مکان تعمیر کیا تھا۔” یہی وہ مکان تھا جس کا پروفیسر شمتوف ذکر کر رہے تھے۔ 1989 میں بحالی تک تاریخ کے بے رحم تھپیڑوں کی نذر ہونے والی اس عمارت پر یوں تو کئی مصائب آئے اور گزرے مگر 1853 کے زلزلے اور 1960 کے ایک پراسرار دھماکے نے اسے کافی نقصان پہنچایا۔ یہاں کی مقامی روایات کے مطابق 1960 میں اس پر اسرار دھماکے کے پیچھے سویت یونین کا ہاتھ تھا کیونکہ نہ صرف بابر کا یہ مکان تب تک مذہبی زائرین کا مرکز بن گیا تھا بلکہ اس چھوٹی سی پہاڑی پر دو درجن کے قریب مذہبی حوالے سے مقدس غار بھی ہیں جہاں زائرین آتے جاتے رہتے ہیں اور کمیونسٹ ریاست کو یہ اعتقادات ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔

ماضی میں شاہراہ ریشم پر واقع یہ پہاڑی نہ صرف آنے جانے والوں کے لیے جاذب نظر تھی بلکہ کئی مشہور و معروف ہستوں کا یہاں کے غاروں میں مذہبی رسومات ادا کرنے کے حوالے سے مقامی زبانی تاریخ بہت کچھ بتاتی ہے۔ بابر کا بارہ کہو ماونٹ سلیمان بھی کہلاتا ہے جس کی وجہ تسمیہ زبانی روایت کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس پہاڑی پر آمد ہے۔ دو درجن سے ذیادہ مقدسات کی موجودگی نے یونیسکو کو 2009 میں اسے ورلڈ ہیریٹیج قرار دینے پر مجبور کی جس کے بعد پہاڑی پر چڑھنے کے راستے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ایک غار کو میوزیم میں بدل دیا گیا ہے جہاں چترالی طرز کا چھوٹا سا مکان، زیوارات اور خانہ داری کے سامان بھی موجود ہیں۔ اس مکان کا دروازہ، بیٹھنے کی جگہ (تخت) اور ستونوں پر وہ کشیدہ کاری موجود ہیں جو آج سے چند سال پہلے چترال کے مکانات کے لازمی جزو ہوا کرتے تھے۔

مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا اوش میں مکان

بابر ڈورا (بابر کا مکان) پہاڑی کے ایک طرف بنا ہوا ہے جہاں سے اوش شہر کا تقریباً اسی فیصد حصہ نظر آتا ہے اور اوش پر نظر پڑتے ہی زندگی کا بڑا حصہ صحرا نوردی اور مہم جوئی میں گزارنے والے بابر کے جمالیاتی ذوق کے حوالے سے انگریز ناول نگار ای ایم فوسٹر کی گواہی کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ فوسٹر تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ‘دا پرنس’ لکھنے والے میکیاولی کو بابر کا پتہ ہوتا تو وہ ان کے بارے میں لکھتے کہ بابر کامیاب کردار ہونے کے ساتھ جمالیاتی ذوق اور فنکارانہ صلاحیتوں کا مالک بھی تھا۔

پہاڑی سے اتر کر اوش شہر میں گھومے تو تین ہزار سالہ تاریخ کا آمین یہ شہر اپنی فراخ دلی اور مختلف تہذیبوں کو اپنے سینے میں پرونے کے واضح مظہر کے طور پر نظر آتا ہے۔ چنگیز خان سے لے کر سویت یونین کے ہاتھوں کئی بار روندے جانے کے باجود یہ شہر دریائے سیئر کے آس پاس ہنوز شاد اور آباد ہے۔ شاہرہ ریشم پر واقع دو ہزار سال پرانا جائمہ بازار میں زندگی آج بھی خوبصورت ہے اور انسان ماضی کی تلخیوں کو بھول کر جینا سیکھ چکا ہے۔ یہ قدیم شہر آج بھی ازبک، کرغز، روسی اور تاجک سمیت درجنوں چھوٹے نسلی گروہوں کا مسکن ہے۔ تہذیبی گوناگونی اور تکثیریت کا یہ حسین امتزاج اندرونِ شہر کی عمارتوں، انسانوں کے بود و باش، اقدار اور رسم و رواج سے صاف جھلک رہا ہے۔ اس شہر سے صرف چند میل کے فاصلے پر ازبکستان واقع ہے اور دونوں ملک سڑک کے راستے ملے ہوئے ہیں۔ اگر سبز پاسپورٹ کی امیج اجازت دے تو اگلا پڑاؤ اندیجان ہوگا وگرنہ کرغزستان کے وادیِ فرغانہ کا ایک اور تاریخی شہر جلال آباد کی پہاڑیاں تو آوازیں لگا ہی رہی ہیں۔


نور شمس الدین کا تعلق چترال سے ہے۔ آپ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور پی ایچ ڈی کے سلسلے میں قازقستان میں مقیم ہیں۔ چترال کی تاریخ سے متعلق آپ کے مضامین ہائی ایشیاء میں شائع ہوتے آرہے ہیں۔noorshams.uddin@nu.edu.kz

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے