Baam-e-Jahan

سانحہ کوہستان اور قتل کا مقدمہ

سیلاب کی تباہی

تحریر: عزیز علی داد

پانچ بھائی جو کوہستان کے دوبیر نالہ میں ایک سیلابی ریلے میں پھنس گئے اور پانچ گھنٹے ریسکیو کے انظار کے بعد سیلابی ریلے کیں بہی گئے۔ ان میں سے ایک کو بچایا گیا۔فوٹو فیس بک

آج کوہستان کے علاقے دوبیر نالے میں پانچ بھائیوں کو ایک طوغیانی ریلے میں ایک پتھر پر پانچ گھنٹے کھڑے رہنے کے بعد ان میں سے چار کو طوفانی سیلاب کی ظالم موجوں کا شکار ہونے کا دلخراش منظر نے ریاست اور شہری کے درمیان تعلق کے متعلق کچھ بنیادی معاملات کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کردیا۔ ہم نے تو سنا تھا کی ریاست تو اپنے شہریوں کی ماں ہوتی ہے۔صد افسوس کوہستان میں ریاست کے یہ بچے پانچ گنھٹے تک مدد کے لیے فریاد کرتے رہے مگرماں مدد کے لیے پہنچی ہی نہیں اور سیلابی موجیں ان نوجوانوں کو نگل گئیں۔

ریاست کےلیے ماں کا استعارہ اس نظریہ کی بنیاد پر ہے کہ والدین کا اپنے بچوں کے تحفظ کی فکر فطرت ہر مبنی ہے۔والدین کا اپنے بچوں سے انس جبلی ہوتا ہے نہ کہ اکتسابی۔ اپنے بچوں کی تحفظ کی خاطر اپنی جان دینے کی جبلت انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے جب کوئی ریاست وجود میں آتی ہے تو اس کے شہریوں کا تحفظ اس کی فطری ذمہ داری بن جاتی ہے۔

ماں باپ کے فطری محبت اورتحفظ کی جبلت کو ہم دو ہزار دس کے سیلاب کے دوران پیش آنے والے ایک المناک حادثے سے واضع کرتے ہیں۔اتفاق دیکھئے کہ یہ واقعہ بھی اسی دبیر نالے میں پیش آیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے گاوں کا ایک لڑکا ۱۹۹۰یا اس سے پہلے پڑھنے کے لیے کراچی چلے گئے۔ بارویں جماعت پاس کرنے کے بعد وہ ایک ادارے میں نوکری کرنے لگے۔ یوں وہ کراچی کے ہوکر رہ گئے؛ شادی کی اور اہل خانہ کے ساتھ کراچی میں رہنے لگے۔ ان کا نام گلبہار تھا۔ وہ ایک بہت ہی سادہ دل انسان تھے۔ ہم کراچی میں ایک ہی کالونی میں رہتے تھے۔ عمر میں مجھ سے کچھ سال ہی بڑے ہونگے۔

سال 2010 میں وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے گلگت آرہے تھے۔شدید بازشوں اور سیلابوں کی وجہ سے شاہراہ قراقرم بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ گلبہار ایک وین میں اپنے دو چھوٹے بیٹوں کے ساتھ سفر کرتے ہوۓ دوبیر نالہ پہنچے۔ دوبیر نالے کا پل سیلابی ریلے میں بہہ گیا تھا۔ اس کی جگہ لکڑی کا عارضہ پیدل گزرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ لوگ اس پر چل کے دوسری طرف کھڑی گاڑیوں میں اپنا سفر جاری رکھتے تھے۔ اس پل پر بیک وقت ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔

گلبہار پہلے اپنے دس سالہ بیٹے کو لے کر پل کراس کرکے دبیر نالے کے دوسری طرف اترے۔ پھر واپس آکر چھ سالہ بیٹے کو گود میں اٹھا کر دوبارہ پل پر چڑھنے لگے۔ ان کے پیٹھ پر پر ایک بیگ لٹکا ہوا تھا اور ہاتھ میں چھوٹا بیٹا۔ دوسری طرف دس سالہ بیٹا ان کا منتظر تھے۔ درجنوں لوگ نالے کے دونوں اطراف میں اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ گلبہار پل پر چل رہےتھے۔ درمیان میں پہنچ کر اچانک ان کا بیگ کسی تختے سے ٹکرا گیا اور وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور لڑکھڑا گیا۔ اسی اثنا میں ان کے بازو کھل گیا اور بیٹا نیچے نالے کی بپھری موجود میں گر گیا۔یہ سب چند سیکنڈوں میں ہوا۔ گلبہار چند لمحوں کے لئے ساکت ہو گیا اور پھر اپنے بیٹے کو بپھرے موجوں کی لپیٹ میں دیکھ کر خود بھی چھلانگ لگایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے باپ بیٹا دونوں درجنوں لوگوں کے سامنے موجوں میں غائب ہوئے۔ دوسرے کنارے پر دس سالہ بیٹا یہ منظر دیکھ کر آہ و بکا کرنے لگا۔ لوگوں نے اسے پکڑ لیا کہ کہیں وہ بھی دوبیر نالے میں چھلانگ نہ لگا لے۔

یہ واقعہ جتنا دردناک ہے وہاں پر والدین کی اپنے بچوں سے بے غرض محبت اور تحفظ کی جبلت کی ایک عظیم مظہر ہے۔دوسری طرف دوبیر نالے میں رونما ہونے والے کل کا واقعہ ہے۔ذرا سوچئے ان پانچ  نوجوانوں پر کیا گزری ہوگی جو پانچ گھنٹے موت کے منہ میں رہے اور ان کی ماں ریاست ان کی امداد کو نہ پہنچی۔ پانچ گھنٹے میں ہیلی کاپٹر یا کوئی ریسکیو ٹیم روانہ کی جاسکتی تھی۔ مگر ان کی دہائیاں ریاست کو سنائی نہ دی ،کیونکہ یہ ریاست بہری ہوچکی ہے۔  یہ اپنے شہریوں کی ماں نہیں  رہی  ہے بلکہ ایک ایسی آدم خور عفریت بن چکی ہے جو صرف غریبوں اور بے بس انسانوں  کو کھا جاتی ہے۔ اب یہ مقتدر اورحکمران  اشرافیہ طبقہ  کی کنیز بن گئی ہے۔اس  نے  اپنے بچوں کا دکھ درد محسوس کرنے کی حس کھو دی ہے۔ اس لیے یہ بے حس ہوگئی ہے۔ اس کے اندر تحفظ کی جبلت ختم ہوچکی ہے۔ اسی بے حسی کہ وجہ سے ریاست نے ایسا  ڈھانچہ کھڑا کیا ہے جو صرف موت کا سامان مہیا کرسکتا ہے۔ مگر جان بچانے کا بندوبست نہیں کرسکتا۔

اس ریاست کی بے حسی اور ترججات  دیکھئے جس کے پاس کرکٹ کا گراونڈ سکھانے کے لیے ہیلی کاپٹر ہے مگر دریا کے بیج منجدھار پھنسے معصوم انسانوں کو بچانے کے لیے دستیاب نہیں۔ ایک ایسے نظام میں ہماری زندگیاں کیسے بچ سکتی ہیں جہاں پر محکمہ صحت کے افسروں کے پاس ایمبولنس سے مہنگی گاڑیاں ہو؛ جہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے طاقتور کی حفاظت کرنے کی ڈیوٹی پر معمور ہوں وہاں  افتادگان خاک کی عزتیں، زندگیاں اور مال محفوظ   نہیں رہ  سکتے ہیں۔

اب ریاست کی حالت یہ ہے کہ لوگ عدالت جانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں پیثیوں کے منحوس چکر میں نہ پھنس جائیں۔ پولیس کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں تفتیش نہ ہوجاۓ۔ یہاں اشرافیہ جامعات میں پڑھنے والے اشرافیہ طبقے کے بچے اگر کسی  پہاڑی درہ  پہ پھنس جاۓتو  انہیں ہیلی کاپٹر  کے ذریعے ریسکیو کیا جاتا ہے۔ جبکہ غریب کوہستانی بچوں کو سب کے نظروں کے سامنے مرنے دیا جاتا ہے۔

یہ ساری باتیں ایسی علامتیں ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ افراد اور ریاست کے درمیان عمرانی معاہدہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب ریاست ماں نہیں رہی بلکہ ایک آدم خور ہستی بن گئی ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھا رہی ہے۔میں جب ایک مثالی ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان تعلق پر سوچتا ہوں تو مجھے گلبہار اور اس کا بیٹا یاد آتا ہے۔ مگر جب اپنے سامنے ہونے والے واقعات  کو دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا یہاں شہری چوہے ہیں جن سے بلی کھیل رہی ہے اور کھیل کے اختتام پر یہ ہمیں نگل لے گی۔

دوسری طرف میں ان چار کوہستانی بھائیوں کے ان کرب نام لمحات کے بارے میں سوچ رہا ہوں جب موت ان کے سامنے ہیں اور ان کی ماں سب کچھ دیکھتے ہوۓ انہیں  نہیں بچا رہی ہے۔ وہ لمحات کس طرح کے خیالات کو جنم دے رہے ہونگے۔ یاد رکھنا کرب ناک تجربے بہت ہی تلخ مگر جھنجوڑنے والے سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔

 دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے گیس چیمبرز میں لاکھوں  انسانوں کو جلایا گیا۔ جب جرمنی کی شکست کے بعد ان کیمپوں کا معائنہ کیا گیا تو وہاں ایک کمرے میں دیوار پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ملے۔ "اگرخدا کا کوئی وجود ہے تو وہ مجھ سے ضرور گڑگڑا کر معافی مانگے گا۔”

 آج ہر کوہستانی اور پاکستانی اپنی ریاست کی بے حسی پہ سوال اٹھا رہا ہے۔اگر ریاست کی یہ بے حسی جاری رہی تو غریب اس نظام کے خلاف کھڑا ہوگا۔ آج پانی کا سیلاب غریبوں کی جانوں، مکانوں اور کھیت کھلیانوں کو تباہ کررہا اور اشرافیہ اپنے محفوظ گھروں میں اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ اگر عوام کا ریلہ اٹھا تو یہ ایک ایسا سیلاب بن جائیگا جو بلاول ہاوس، بنی گالا اور رائئونڈ کو بہا لے گا۔ وہ جو جہازوں میں  سفر کرتے ہیں ان کو اترنے کے لیے زمیں بھی نہیں ملے گی۔ یاد رکھنا غریب کی آہ نقارہ خدا ہے۔ آج ان چار کوہستانی بھائیوں کی موت ہر غریب کے سینے میں آہ پیدا کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ ۔سننے میں آرہا ہے کہ کوہستان کے ان مرحومین نے آسمان میں خدا کے دربار میں اپنی ریاست مدینہ  کے حکمرانوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروادیا ہے۔


عزیز علی داد گلگت بلتستان کے معروف سماجی مفکر، محقیق اور کالم نگار ہیں

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے