تحریر:ڈاکٹر محمد اقبال سابق وزیر تعمیرات
آج کل گلگت بلتستان میں خصوصاً سوشل میڈیا پر بڑی شدت سے بحث جاری ہے کہ خواتین کو کھیلوں میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں ؟ کچھ لوگ اسے اسلام اور کلچر کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔
میرے نزدیک بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم خواتین کو انسان مانتے بھی ہیں یا نہیں ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی خاتون اپنی مرضی سے خاتون پیدا ہوتی ہے ؟ اور اگر یہ بھی انسان ہیں تو ان کو بھی وہی حقوق ملنی چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہوتے ہیں۔ ان کو بھی اپنے بدن کو تندرست رکھنے کے لیے کھیلوں میں حصہ لینے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے۔
آخر جب بھی خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو یہ انتہا پسند اور فرقہ پرست اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یک زبان ہو کر مخالفت پر کیوں اتر آتے ہیں ؟
وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس معاشرے نے مردوں کو خواتین کے اوپر جو بالادستی بخشی ہے ، خواتین کے بااختیار ہونے سے اسکے چھن جانے کا خوف ہے اور اس بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے کبھی مذہب تو کبھی ثقافت کا نام لے کر خواتین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
وگرنہ کھیلوں کا نہ کلچر سے اور نہ ہی اسلام سے کوئی تعلق ہے اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو ایران اور سعودی عرب میں پابندی لگ جاتی جبکہ ان کی خواتین اولمپکس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور مردوں سے خوب داد وصول کرتی ہیں۔
اب وقت آچکا ہے کہ گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے تہذیب یافتہ ، باشعور طبقہ خاص طور پر نوجوانوں کو آگے آنا پڑے گا اور اس علاقے کو ان فرقہ پرستوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچانا چاہیے۔
اب تو یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دے کر ان کے اندر اعتماد پیدا نہیں کیا جاتا تب تک ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔
دنیا کے اندر صرف ان ممالک، معاشروں اور قوموں نے اخلاقی اور تہذیبی و معاشی لحاظ سے ترقی کی ہے جہاں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دئیے گئے ہیں بشمول چند اسلامی ممالک جیسے ترکی ، ملیشیا ، دبئی اور اب بنگلہ دیش جسے ہم غریب سمجھ کر حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے آج ہم سے آگے نکل چکا ہے۔
گلگت بلتستان کے اندر ہر سال سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جاتا ہے اور آج تک کسی قاتل کو سزا نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی خواتین کو جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے مگر مجال ہے کہ یہ فرقہ پرست مولوی کبھی غلطی سے بھی ان موضوعات پر لب کشائی فرمائیں۔
گلگت بلتستان کے اندر ہر سال سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جاتا ہے اور آج تک کسی قاتل کو سزا نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی خواتین کو جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے مگر مجال ہے کہ یہ فرقہ پرست مولوی کبھی غلطی سے بھی ان موضوعات پر لب کشائی فرمائیں۔
اب وقت آچکا ہے کہ گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے تہذیب یافتہ ، باشعور طبقہ خاص طور پر نوجوانوں کو آگے آنا پڑے گا اور اس علاقے کو ان فرقہ پرستوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچانا چاہیے۔
گلگت بلتستان ہم سب کا ہے یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں جو یہاں کبھی فرقوں کے نام پر قتل و غارت گری کریں اور کبھی کلچر اور مذہب کا نام استعمال کر کے علاقے کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں۔
آخر میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم خواتین کو کھیلوں کے حوالے سے تمام تر سرگرمیوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں ان لوگوں سے ہرگز خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی چیخیں بتا رہی ہیں کہ یہ انتہا پسند خود خوفزدہ ہیں اور علاقے میں جہالت اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔