Baam-e-Jahan

سابق کافرستان کے’ بری’

سرور صحرائی

چترال کے بہریہ یا بحریہ کون؟

تحریر: سرور صحرائی


قدیم زمانے میں جب کسی علاقے پر بیرونی حملہ آور اپنی عمل داری قائم کرتے تو وہاں کے اصل باشندوں کو سماجی اور سیاسی طور پر اپنے سے کم تر سمجھتے اور ان کے لئے مختلف نام استعمال کئے جاتے تھے ۔ کلاشہ دور میں چترال کے قدیم باشندوں کے لئے ایک مخصوص اصطلاح مستعمل تھی ۔ نہیں معلوم ان کی اپنی قبائلی شناخت کیا ہوتی تھی تاہم کلاشہ دور میں وہ بہری/ بہریہ یا بحری/ بحریہ کے شناختی ناموں سے موسوم ہوتے تھے۔ محققین کے مطابق حملہ آور کلاشوں نے انہیں اپنا غلام قرار دیا تھا۔

پندرہویں عیسوی صدی کے آخر میں یوسفزئی پشتون قبیلے کے لوگ کابل سے آکر جب دیر و سوات پر چھا گئے تو وہاں پر پہلے سے موجود قدیم آبادی کے لوگوں کو، جن کی اکثریت غیر پشتون تھی، فقیر مسکین کا نام دیا۔

چترال میں یارکند کے چغتائی ترکوں اور بدخشان کے رئیسہ دور کی عمل داری کے دوران یہاں کے قدیم باشندوں کے لئے مختلف اصطلاحات استعمال کی گئیں۔ ان میں سے ایک "یرت” (ی پیش کے ساتھ) کی اصطلاح کو غالبا یارکندیوں نے اپنے دور میں ملکی لوگوں (پرانے باشندوں) کے لئے استعمال کیا تھا کیونکہ ‘یفت’ منگول/ ترک زبان میں ‘ملک’ کو کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ لگتا ہے کہ یہی لفظ ‘یرت’ مقامی لہجے میں ‘یفت’ میں تبدیل ہوا۔

اس سے پہلے کہ مضمون کے تتمے کے طرف جا نکلیں، اس اصطلاح باریہ، بہریہ، یا بحریہ کا کچھ پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا یہ لفظ چترال کی مقامی زبان کا لفظ تھا؟ یہ اصطلاح خود چترال کے کلاش حکمرانوں کی اپنی تخلیق تھی؟ یا یہ ایک درآمدی اصطلاح تھی؟

1889ء میں میجر رابرٹسن کے دورہ کافرستان ( موجودہ نورستان) کے دوران وہاں ایک گروہ کی موجودگی کا ذکر ملتا ہے جسے وہ باری یا بری ( Bari) کا نام دیتا ہے۔ بری نام سے موسوم لوگ کاٹیر اور کام کافروں کے غلام ہوتے تھے۔ رابرٹسن کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ باری علاقے کے اصل باشندوں میں سے ہیں جنہیں اس علاقے میں اپنی آمد کے بعد کافروں نے مفتوح کیا اور جزوی طور پر جنگی قیدیوں کی اولاد میں سے بھی ہو سکتے ہیں یعنی وہ کافروں کے ہم نسل نہیں تھے۔ مگر نورستان کے راویوں سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ یہ بری غلام کاٹیر اور کام کافروں کے ساتھ باہر سے آئے تھے۔۔

رابرٹسن کے مطابق کافروں کے یہ بری یا باری غلام کاریگروں جیسے ترکھان، بت تراش، جلاہے، لوہار اور ڈرم بجانے والے موسیقاروں اور گھریلو غلاموں پر مشتمل ہوتے تھے۔۔

1889ء میں میجر رابرٹسن کے دورہ کافرستان ( موجودہ نورستان) کے دوران وہاں ایک گروہ کی موجودگی کا ذکر ملتا ہے جسے وہ باری یا بری ( Bari) کا نام دیتا ہے۔ بری نام سے موسوم لوگ کاٹیر اور کام کافروں کے غلام ہوتے تھے۔ رابرٹسن کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ باری علاقے کے اصل باشندوں میں سے ہیں جنہیں اس علاقے میں اپنی آمد کے بعد کافروں نے مفتوح کیا اور جزوی طور پر جنگی قیدیوں کی اولاد میں سے بھی ہو سکتے ہیں یعنی وہ کافروں کے ہم نسل نہیں تھے۔ مگر نورستان کے راویوں سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ یہ بری غلام کاٹیر اور کام کافروں کے ساتھ باہر سے آئے تھے۔۔

یہ بات درست طور پر نہیں معلوم کہ آیا یہ لفظ ‘بری’ کافرستان میں اپنے قبیلے سے باہر کی کمیونٹی کے لئے باہری کے طور پر پہلی بار استعمال ہوا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ مختصر ہوکر باری اور پھر بری بن گیا یا رابرٹسن نے اسے بری لکھا یا اصلا ہی بری تھا، کیونکہ یہ پھر زبان کا مسئلہ بن جاتا ہے کہ باہر کا لفظ نورستانی زبان میں اسی معنی کے ساتھ مستعمل ہے کہ نہیں۔

تاہم یہاں چترال میں مختلف لکھاری اس لفظ کو مختلف لہجے اور تلفظ میں لکھتے رہے ہیں۔ مثلا مرزا محمد غفران رابرٹسن کی طرح نورستانیوں کے حوالے سے ‘بری’ لکھتے ہیں جبکہ شومبرگ کا تلفظ بیرہ یا بائرہ ( Baira) اور البرٹو، اگسٹو برادران کا بھائرہ (Bhaira) ملتا ہے۔۔

اسی طرح محمد حسام الملک مذکورہ اصطلاح کا تلفظ ‘بحری’ کرتے ہیں اور ایک اور مصنف رحمت کریم بیگ بھی مقامی لہجے میں اس گروہ کے لئے بحریہ یا بہریہ (Bahria)  کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

خود ایک کلاش راوی نے ‘باریہ’ کا لفظ استعمال کیا، مزید بتایا کہ جب ان کے کلاشہ دستور کی خلاف ورزی کرکے اپنے والدین کے پشت کی کسی لڑکی کے ساتھ کوئی کلاش شادی کرے تو ایسے شخص کو وہ ایک طرح کمیونٹی بدر کرتے ہیں اور اس شخص کو ‘باریہ’ کہتے ہیں۔۔

شومبرگ، محمد حسام الملک اور رحمت کریم بیگ اپنی تصنیفات میں اس بات کو یقینی بنا چکے ہیں کہ چترال میں بہری یا بحری نام والے لوگ کلاش دور میں کلاشوں کے ریاستی اور ذاتی غلام ہوتے تھے۔۔ غالب گمان یہ ہے کہ مقامی باشندوں کے لئے ‘بری’ کی اس اصطلاح کو وائگل سے آکر چترال میں اقتدار قائم کرنے والے کلاش لوگوں نے رواج ڈالا تھا اور یہ لفظ اور رسم دونوں سابق کافرستان سے درآمد شدہ معلوم ہوتے ہیں۔۔

اگرچہ یہ لفظ بنیادی طور پر ایک قبائلی نام نہیں تاہم ‘بہرہ’ یا ‘بحرہ’ اور بہریہ نام چترال کے اندر کچھ لوگوں کے قبیلے کے لئے بھی استعمال ہوکر ریاستی ریکارڈ میں پائے جاتے ہیں۔۔ بہریاندور نام سے بالائی چترال میں ایک جگہ بھی موجود ہے۔

تاریخی طور پر بہرحال یہ بات طے ہے کہ بہریہ یا بحریہ پس منظر رکھنے والے لوگ جہاں کہیں بھی ملیں وہ لوگ چترال کے اصل باشندوں کی باقیات ہوسکتے ہیں۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے