Baam-e-Jahan

سیاحت اور سیکوریٹی

عزیزعلی داد

تحریر: عزیز علی داد

گلگت بلتستان میں پچھلے آٹھ سالوں میں جہاں ملکی سیاحت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، وہاں پر علاقے میں پاکستان سے بڑے پیمانے کے سرمایے کی آمد شروع ہوئی ہے۔ یہ سرمایہ انفرادی اور اداراجاتی ہے۔ دونوں قسم کے سرمایہ کاروں کو مقامی ںظام حکومت ہر طرح کی پالیسی اور عملی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان میں مروج نظام نا جمہوری ہے اور نا ہی آئینی۔ یہ قانونی خلا انتظامیہ کو ہر قسم کے غیر قانونی اقدامات کے لئے کھلے مواقعے فراہم کرتا ہے۔ اسی لیے اس علاقے کو ایک انتظامی حکمنامے کے ذریعے ریاست کے انتظامی ستون سے ہانکا جاتا ہے۔ چونکہ ایسے نظام حکومت کا محور و مرکز عوام نہیں بلکہ ریاست کے مرکز پر براجمان اقربا پرور سرمایہ کار (crony capitalism) ہوتا ہے، اس لیے مقامی لوگوں کو فیصلہ سازی کے ایوانوں میں درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے پاکستانی فیصلہ ساز مقامی امنگوں اور حقوق کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھ کر گلگت بلتستان کے ہر کھیت کھلیان، جھیل اور پہاڑ کو اجارہ دار اور کرپٹ سرمایہ دارو کی جولی میں ڈال رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ہنزہ کی انتظامیہ کی طرف سے ہوٹلوں کے سیکورٹی کی درجہ بندی کرنے کا احمقانہ اقدام ہے۔ اس درجہ بندی کے تحت ہنزہ کے 65 ہوٹلوں کو کم رسک والے زمرے میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ 138 ہوٹلوں کو درمیانی رسک اور 206 کو ہائی رسک میں شامل کیا گیا ہے۔ اپنے نوٹیفکیشں میں ضلعی انتظامیہ نے غیر ملکی سیاحوں کو کیٹگری دوم اور سوم کے 362 ہوٹلوں میں رہنے سے منع کیا ہے۔ اس مضحکہ خیز فیصلے کو ہنزہ ہوٹلز ایسوسی ایشن نے مسترد کردیا ہے۔ ہوٹل مالکان نے پولیس کی طرف سے ہوٹل آئی کا سوفٹ ویئر انسٹال کرنے کی حامی بھری تھی مگر ہوٹل کے باہر مسلح گارڈ رکھنے کی مخالفت کی ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال نے بہت سارے خدشات کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی تصدیق بھی کر رہی ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کو ہنزہ کے 287 ہوٹلوں میں سے صرف 65 تک محدود کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ غیر ملکی سیاحوں کی آمدنی کو معدودے چند ہوٹلوں تک محدود کردیا جائیگا۔ رسک والے ہوٹلوں میں جہاں سیاح رہ نہیں سکتے اکثریت ان ہوٹلوں کی ہے جو مقامیوں کی ملکیت ہیں۔ یہاں پہ انتظامیہ غیر مقامیوں کے ہوٹلوں کو سہولت بہم پہنچا رہی ہے۔ ہنزہ کی انتظامیہ کی طرف سے مسلح گارڈ رکھنے کا مطالبہ سراسر احمقانہ ہے کیونکہ ہنزہ میں جرائم کی شرح نا ہونے کے برابر ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ مسلح گارڈ کا ریٹائرڈ فوجی ہونا لازمی ہے۔ گرین ٹوریزم کے بعد 287 مسلح گارڈز کی ہنزہ کے ہوٹلوں میں تعیناتی سیاحت کا تحفظ کم اور اور سیاحوں میں خوف پیدا کرنے کا زیادہ سبب بنے گی۔ ہنزہ کے ہوٹلوں میں 287 ثیف نہیں ہیں، مگر انتظامیہ اتنی ہی تعداد میں مسلح افراد کو ہوٹلوں میں تعینات کررہی ہے۔ لگتا ہے ہنزہ کی انتظامیہ ذہنی طور پر انتہائی نچلے درجے پر کام کررہی ہے۔ یہ معاملہ صرف ہنزہ تک محدود نہیں ہے بلکہ سارا گلگت بلتستان انتظامیہ میں تخیل کے خاتمے کی وجہ سے متاثر ہورہا ہے۔ سیاحت کے شعبے کو پروان چڑھانے میں پچھلے چار دھائیوں میں ہنزہ کے بالخصوص اور گلگت بلتستان کے پرائیویٹ ٹور آپریٹرز اور ہوٹل مالکان کا اہم کردار رہا ہے جنھوں نے گلگت بلتستان کو بین القوامی سطح پر سیاحت کے میدان میں متعارف کروایا۔ مگر ان حاصلات کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ سیکورٹی کے نام پر احمقانہ اقدامات کرکے ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
ہنزہ میں ہوٹلوں کی سیکورٹی لسٹ کا اجرا گلگت بلتستان میں مروج نظام حکومت کی ناعاقبت اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں پہ بھیڑوں کی رکھوالی بھیڑیوں کے ہاتھ میں دی گئی ہے اب آٹھ سال بعد انگریز کی کہی ہوئی وہ بات مجھے سمجھ میں آرہی ہے کہ سیاحت سیکورٹی کے سائے میں پنپتی نہیں مر جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں انتظامی معاملات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ریاست کا سیکورٹی پیرڈائم اب زندگی کے ہر شعبے بشمول سیاحت میں سرایت کر گیا ہے۔ اب سیاحت کو ہماری سوچ کے ہاتھوں تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
عزیزعلی داد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے