Baam-e-Jahan

کورونا کے موسم میں قانون کے محافظوں کی قانون شکنی

https://www.facebook.com/110533413688937/videos/218544599372302/?t=4

 


تحریر: دشمان

کسی بھی ملک میں پولیس کی اولین ذمہ داری عوام کی جان، مال اور عزت نفس کا تحفظ ہے۔ پولیس اپنی اس بنیادی زمہ داری کی انجام دہی کے لئے ایک خاص ضابطہ اخلاق کی پابند ہوتی ہے۔ اس لئے کسی بھی ماورائے قانون ایکشن پر پولیس بھی اتنی ہی جوابدہ ہے جتنا قانون شکنی کا مرتکب کوئی عام آدمی۔

پولیس اگر خود قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے تو اس سے جہاں عوام میں تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے وہیں جرائم کے ارتکاب کے امکانات بھی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں پائی جانے والی صورتحال پولیسنگ کے متذکرہ بالا خوبصورت تصور کے برعکس ہے۔ پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی پولیس کا خیال آتے ہی عام آدمی کسی طرح کے احساس تحفظ کی بجائے عدم تحفظ اور خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جی بی پولیس پاکستان کے دیگر صوبوں کی پولیس سے زیادہ پروفیشنل اور دیانت دار ہے۔ اس حوالے سے آپ کو کسی مسافرکی گمشدہ بھاری نقدی کی واپسی اور عام ڈیلنگ میں عوام سے پیسے بٹورنے سے اجتناب برتنے کی مثالیں دی جائیں گی۔ اگرچہ مندرجہ بالا باتوں سے اتفاق بھِی کیا جائے تو پھربھی قانون سے ماوراء دیگر اقدامات کی انجام دہی میں جی بی پولیس دیگر صوبوں کی پولیس سے کسی لحاظ سے پیچھے نہیں۔

ان سطور میں پولیس کے ہاتھوں ماورائے قانون تشدد اور شہریوں کی تذلیل پر بحث مقصود ہے جو نہ صرف عام آدمی میں پولیس کے لئے نفرت کی وجہ بنتی ہے بلکہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث افراد کو پیشہ ور مجرم بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

گلگت بلتستان میں بھی عام طور پر ماورائے قانون پولیس تشدد کے واقعات اخبارات تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا دئیے جاتے ہیں لیکن کرونا وائریس کی انسداد کے لئے جاری لاک ڈاون کی خلاف ورزی کے نتیجے میں شہریوں پر ہونے والے پولیس تشدد اور تذلیل کے واقعات پر مبنی ویڈیوز اور تصویریں تواتر سے سوشل میڈیا پر سامنے آرہی ہیں۔

کہیں پولیس اہلکاروں کو نوجوانوں کو مرغا بناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے تو کہیں مرغا بننے سے انکار پر پولیس زبانی اور جسمانی تشدد کی دیگر شکلیں اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس مہلک بیماری سےخود کو اور معاشرے کو بحیثیت مجموعی بچانے کا حل صرف اور صرف گھروں تک محدود ہونے اور وزارت صحت کے ہدایات و احکامات پر عمل پیرا ہونے میں ہیں۔ اس لئے اس وباء کی انسداد کے لئے نافذ کردہ لاک ڈاون کی خلاف ورزی کی حمایت نہیں کیا جاسکتا مگر پولیس کے ہاتھوں ماورائے قانون تشدد اور انسانی تذلیل کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔

کچھ حلقوں میں پولیس تشدد کو سراہتے ہوئے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے پولیس اگر تشدد نہیں کرے گی تو لاک ڈاون پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا۔ میری نظر میں اس بات میں وزن نہیں ہے کہ کسی شہری کی غلطی اور قانون پر عمل نہ کرنے کے عمل کو ماورائے قانون پولیس اقدامات کے لئے جواز بناکر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگ سینکڑوں اور ہزاروں کی شکل میں لاک ڈاون کے خلاف باہر نکلے ہوں جو لاٹھی چارج کے بغیر کنٹرول میں نہ آسکے۔ تشدد اور تذلیل کے علاوہ بھی قانون پر عمل درآمد کرانے کے آسان اور موثر طریقے اپنائے جاسکتے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ماورائے قانون اقدامات اور تشدد دراصل پولیس فورس میں مختلف صورتوں سے نمٹنے کے لئے ضروری تریبت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں مارپیٹ کرنے اور ہجوم پرگولیاں چلانے کی تربیت تو دی جاتی ہے مگر انسانی حقوق کے احترام پر مبنی پولیس اہلکاروں کی تربیت کے ذریعےان کی استعداد کار میں اضافہ کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔

آج معاشرے میں مختلف اشکال میں جس طرح عدم برداشت سرائیت کرگیا ہے وہ دراصل اداراجاتی شکل میں عوام پر مسلط کردہ جبر و تشدد کا نتیجہ ہے اور پولیس اس کارخیر میں برابر کی شریک ہے۔

اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر عمل درآمد کرانے کے نام پر ماورائے قانون اقدامات سے گریز کیا جائے۔ پولیس فورس میں از سر نو تربیت کے ذریعے یہ احساس اجاگر کیا جائے کہ ان کا کام عوام کی تذلیل اور ان پرحکمرانی نہیں بلکہ ان کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔


دشمان ایک لکھاری اور ماہر تعلیم ہیں۔انہیں سیاست، ثقافت اور معیشت سے دلچسپی ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے