چترال کے جنگلی حیات کے صدر دفتر میں مکمل خاموشی
رپورٹ: گل حماد فاروقی
چترال: تین مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد عوام میں جنگلی حیات کی اہمیت اور ان کی حفاظت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہوتاہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سال بجٹ میں جنگلی حیات کے تحفظ کے نام پر خطیر رقم مختص کیا جاتا ہے جس کا آدھا بھی اس مقصد کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے. اس کی مثال یہ ہے کہ عالمی دن سے دو روز قبل ایک برفانی چیتا مر گیا۔
اس دن کی مناسبت سے متعلقہ محکمہ کی سرگرمیوں کے حوالے سلسلے منگل کے روز جب بام جہان اور ہائی ایشیاء ہیرالڈ کے نمائندے نے چترال گول نیشنل پارک کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر سرمد حسین سے رابطہ کیاتو ان کا کہنا تھا کہ وہ کل اس دن کو نہیں منا رہے ہیں بلکہ ایک دن بعد منایا جائے گا۔ اس کے بعد محکمہ جنگلی حیات چترال ڈویژن کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر الطاف علی شاہ سے بھی بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
چند دن قبل رباط آرکاری وادی میں ایک برفانی چیتا زخمی حالت میں پایا گیا۔ جسے علاج کی غرض سے پشاور چڑیا گھر لے جایا گیا جہاں اس کا دو روز قبل موت واقع ہوا۔ اس سلسلے میں جب محکمہ جنگلی حیات کے اہلکاروں سے ان کا موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ برفانی چیتا پہاڑی سے گرا تھا اور زخمی تھا۔ تاہم آزاد ذرائیع نے انکشاف کیا کہ وہ برفانی چیتا صبح سویرے پہاڑ سے نیچے آتے ہوئے دیکھا گیا تھا بعض لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسے مقامی لوگوں نے پتھر اور ڈھنڈوں سے مار ا بھی تھا مگر اس کی کوئی شواہد نہیں ملے۔
جنگلی حیات کی تحفظ کیلئے بین الاقوامی تنظیم WWF ورلڈ وائیڈ فنڈ فار کنزرویشن کے حسن اور گلگت بلتستان کے ذمہ دار حیدر رضا سے جب رابطہ کرکے ان سے پوچھا گیا کہ برفانی چیتا کئی ہزار فٹ اونچائی سے نیچے گرتا ہے مگر کبھی بھی اس کی موت واقع نہیں ہوتا ہے.
انہوں نے اس بات کی تصدیق کرلی کہ برفانی چیتا جتنا بھی اونچائی سے گرے وہ پنجوں کے بل گرتا ہے اور خود کو بچا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت میں بھی اس قسم کا ایک برفانی چیتا گرا تھا بلکہ وہ اپنی ماں سے جدا ہوا تھا جسے چیف سیکریٹری نے بچایا اب آمریکہ کے برونکس چڑیا گھر میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس برفانی چیتے کو کسی ڈھنڈوں یا پتھر سے مارا ہو اور وہ اندرونی طور پر زخمی ہوا ہو۔ مگر وہ کیسے اور کیوں مرا اب یہ متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تحقیقات کرے۔
سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے سینیر آفسر اور جنگلی حیات کے ماہر عاشق احمد خان سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا کہ چترال میں جنگلی حیات کے عالمی دن پر خاموشی رہی اور بدقسمتی سے ایک برفانی چیتا بھی مرگیا تو انہوں نے بتایا کہ جنگلی حیات کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ جنگلی حیات بھی ہمارے ماحولیات کا حصہ ہے اور اس قسم کے دن منانے اور سیمنار کرانے سے لوگوں میں ان بے زبان جانوروں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوتا ہے اور ان کو بے دریغ مارنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آرکاری میں ایک برفانی چیتے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پہاڑی سے نیچے گرا اور بعد میں مرگیا تو کیا برفانی چیتا اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ معمولی چوٹ سے مرجائے تو انہوں نے اس کی موت پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے ملک میں برفانی چیتا کی نسل معدومیت کے شکار ہے، کیونکہ اکثر مقامی لوگ اسے مارتے ہیں کیونکہ جب یہ برفانی چیتا بھوکا ہو اور اس کو جنگل میں اپنا خوراک نہیں ملتا ہو تو وہ آبادی کا رخ کرتا ہے اور لوگوں کے پالتو بھیڑ بکریاں کھا کر اپنا بھوک مٹاتا ہے.
بعض ماہرین نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ برفانی چیتا رات کو یا صبح سویرے گرا تھا جبکہ چترال سے آرکاری کو دو یا تین گھنٹے کا راستہ ہے جب جنت رباط کے نام سے فیس بک پیج پر ایک صارف نےاس برفانی چیتے کی تصاویر اور یہ خبر لگائی تھی کہ یہ برفانی چیتا نیچے گر کر زخمی ہوا ہے اور ہم جنگلی حیات کے اہلکاروں سے رابطہ کررہے ہیں مگر ابھی تک کسی نے اس کو ریسکیو نہیں کیا.
انہوں نے ڈپٹی کمشنر چترال سے اپیل کی تھی کہ اسے فورا بچایا جائے. تاہم محکمہ جنگلی حیات کا عملہ وہاں کافی تاخیر سے پہنچا اور اسے رات گیارہ بجے چترال لایا گیا جہاں ڈاکٹر شیخ نے اسے پشاور ریفر کیا مگر ذرائیع نے بتایا کہ زخمی چیتا کو پشاور چڑیا گھر اگلے دن دوپہر کو پہنچا گیا اور بعد میں وہ مر گیا۔
اس سلسلے میں مالاکنڈ ڈویژن کے کنزرویٹر جنگلی حیات ڈاکٹر سید فضل باقی کا کاخیل سے بھی رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس نے ڈی ایف او چترال الطاف علی شاہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیقات کرے کہ وہ کیسے مرا۔
ہم نے جب اس سلسلے میں ڈی ایف او الطاف علی شاہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہمیں بتایا گیا کہوہ دفتر میں موجود نہیں ہے۔
جنگلی حیات سے محبت کرنے والے اور سماجی کارکنوں نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ آرکاری میں برفانی چیتا زخمی ہوا اور بروقت علاج نہ ہونے اور حکام کے غفلت کی وجہ سے اسے بچایا نہیں جا سکا۔
اس سے قبل پشاور چڑیا گھر میں ایک مارخور اور ایک برفانی چیتا بھی مرا تھا۔
لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اس بات کی تحقیقات ہونا چاہئے کہ آیا محکمہ جنگلی حیات کے عملہ تربیت یافتہ نہیں ہے،یا وسائل کی کمی ہے تاکہ آئندہ اس قسم کے قیمتی اور نایاب جانوروں کا تحفظ کیا جاسکے۔
چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ برفانی چیتے کی موت میں تحقیقات کے ساتھ ساتھ چترال ہی میں ایسے سہولیات فراہم کی جائے تاکہ آئندہ اگر کوئی برفانی چیتا یا دیگر جنگلی حیات زخمی ہوجائے تو اس کا بروقت علاج ہوسکے اور اسے پشاور ریفر کرنے کی ضرورت نہ پڑے ۔
نیز WWF اور سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ماہرین کاکہناہے کہ برفانی چیتا ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے اونچے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے. اور اس کا دم چونکہ لمبا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنا توازن برقرار رکھتا ہے. یہ تیس فٹ تک چھلانگ لگا سکتا ہے.
پاکستان میں تقریبا 400 برفانی چیتا موجود ہے جن کی حفاظت کے لئے کوشیشیں ہو رہی ہے.
لوگوں کو لائیو اسٹاک انشورنس کے ذریعے یہ ترغیب دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کے نقصانات کی وجہ سے چیتوں کو نہ ماریں. حکومت اور اسنو لیوپرڈ فاونڈیشن نے لوگوں کے نقسانات کے ازالہ کے لئے لائو اسٹاک انشورنس کا پروگرام متعارف کیا ہے.