چیلاس کے تھک نالہ میں بادل پھٹ جانے سے خوفناک تباہی، 8سے زیادہ گاڑیاں مٹی، پتھروں اور سیلابی ملبے تلے دب گئیں۔
رپورٹ: ارشد حسین جگنو
بیورو چیف
ہائی ایشیاء میڈیا، چیلاس
چیلاس: پیر ۲۱ جولائی کو گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے تھک نالہ میں اچانک اور تباہ کن کلاؤڈ برسٹ نے علاقہ بھر میں تباہی مچادی۔ تیز اور بے تحاشا بارش نے قریبی پہاڑی نالوں کو لمحوں میں طوفانی ریلوں میں تبدیل کر دیا، جس سے سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں چار سیاح اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ علاوہ ازین پندرہ سے زائد افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اس دوران درجنوں گاڑیاں مٹی، پتھروں اور سیلابی ملبے تلے دب گئیں۔ شاہراہ قراقرم (کے کے ایچ) اور بابوسر روڈ بیس سے زائد مقامات پر مکمل طور پر بند ہو گئے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں مسافر ان راستوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
مقامی لوگوں کی ہمت اور تعاون
اس ہولناک صورتحال میں مقامی لوگوں کی ہمت اور تعاون نے امید کی ایک کرن دکھائی۔ علاقہ کے نوجوانوں نے پولیس اور ریسکیو اداروں کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔ مقامی رضاکار زخمیوں کو نکالنے اور متاثرہ خاندانوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے میں پیش پیش رہے۔ بارش اور طغیانی کے باوجود امدادی کارروائیاں جاری رہیں، اور مقامی لوگوں کی دلیرانہ کوششوں نے کئی جانیں بچائیں۔
چلاس کے علاقے میں ترنگفہ لاجز سمیت مختلف ہوٹل مالکان نے پھنسے ہوئے سیاحوں کو مفت پناہ فراہم کر کے انسانیت کی بہترین مثال قائم کی۔ اس کا مقصد صرف سیاحوں کی مدد کرنا نہیں تھا، بلکہ مقامی روایات اور انسانیت کے اقدار کو دوبارہ زندہ کرنے کی مثال بھی تھا۔





موسمیاتی بحران
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تباہی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دیامر اور گرد و نواح کے علاقے میں بے دریغ درختوں کی کٹائی اور ٹمبر مافیا کی سرگرمیاں اس قدرتی آفت کے بڑھنے کی اہم وجہ ہیں۔ جنگلات کا بے تحاشہ کٹاؤ پہاڑی ڈھلوانوں کو غیر محفوظ بنا رہا ہے، جس سے بارش کے پانی کو روکنے والی قدرتی رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔ جب ان رکاوٹوں کو مٹا دیا جاتا ہے، تو چند لمحوں کی بارش بھی طوفانی سیلاب میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر شجرکاری مہم شروع نہ کی گئی اور ٹمبر مافیا کے خلاف سخت کارروائی نہ کی گئی، تو اس علاقے کو مستقبل میں مزید خطرناک ماحولیاتی آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کلاؤڈ برسٹ نے نہ صرف مقامی آبادی کو متاثر کیا بلکہ سیاحتی سرگرمیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ بابوسر اور ناران جانے والے راستے مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں، اور انتظامیہ نے سیاحوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس وقت سفر کرنے سے گریز کریں۔ رابطہ سڑکوں کی بحالی کا کام ابھی تک شروع نہیں کیا جا سکا ہے، جس سے مزید مشکلات کا سامنا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت
یہ سانحہ ہمیں ایک بار پھر یہ حقیقت یاد دلاتا ہے کہ ہم نے کبھی اپنے قدرتی ماحول کی حفاظت پر سنجیدہ توجہ نہیں دی۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی بگاڑ کے اثرات نہ صرف اس خطے میں بلکہ پورے پاکستان میں بڑھ رہے ہیں۔ یہ سانحہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم نے قدرتی وسائل کی حفاظت، جنگلات کے بچاؤ۔ بے ہنگم سیاحت کی روک تھام اور ماحولیات کی بہتری کے لئے جامع حکمت عملی نہ اپنائی، تو ہمیں مستقبل میں مزید تباہ کن آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے، جنگلات کی کٹائی کو روکا جا سکے، اور قدرتی وسائل کا درست استعمال کیا جا سکے۔ اگر ہم نے اپنے قدرتی وسائل کا تحفظ نہیں کیا تو یہ خطہ صرف ہماری نسل کے لیے نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک تباہ کن مقام بن جائے گا۔
تھک نالہ میں ہونے والی کلاؤڈ برسٹ کی تباہی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنی زمین اور قدرتی وسائل کے بارے میں مزید حساس اور ذمہ دار بنیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، بے قابو جنگلات کی کٹائی اور غیر ذمہ دارانہ نیو لبرل ترقی کے باعث ہم ان آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس تباہی کا تدارک صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم ماحولیات کے تحفظ کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ اس کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ ہر شہری کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنے ماحول کو محفوظ اور آئندہ نسلوں کے لیے بہتر بنا سکیں۔