356

بریگیڈیئر اعجاز شاہ: ایک پراسرار نام کی واپسی

اعزاز سید
صحافی


گزشتہ 20 برس کے دوران کئی اہم واقعات میں بریگیڈیئر اعجازشاہ کا نام آتا رہا ہے

پاکستان میں وفاقی کابینہ میں حالیہ ردوبدل کے بعد ملک کے نئے وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ انھیں ابتدا میں بطور وزیرِ پارلیمانی امور کابینہ کا حصہ بنایا گیا تھا۔
یہ تحریر 30 مارچ 2019 کو بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی کابینہ میں شمولیت کے تناظر میں لکھی گئی تھی۔

بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی بطور وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور تعیناتی پر پیپلز پارٹی کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ اس تحریر میں صحافی اعزاز سید نے اعجاز شاہ کے متنازع ماضی اور کئی اہم معاملات میں ان کے مبینہ کردار پر روشنی ڈالی ہے۔

6 اکتوبر 1998 کو جب جنرل جہانگیر کرامت نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کے بعد استعفی دیا تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ سامنے تھا۔ وزیراعظم ہاؤس سے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید اقبال نے فون کرکے منگلا کے کور کمانڈر لیفٹینینٹ جنرل پرویز مشرف کو پیغام دیا کہ وزیراعظم ان سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔

اب تک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ انتہائی خفیہ تھا۔ پرویز مشرف خود مخمصے میں تھے۔ ملک میں گنتی کے لوگ ہی جانتے تھے کہ اگلا آرمی چیف کون ہو گا۔ ادھر وزیراعظم ہاوس سے پیغام ملتے ہی پرویز مشرف منگلا سے اسلام آباد کے لیے نکلنے لگے تو گاڑی میں بیٹھتے وقت حساس ادارے کے ایک افسر کی کال آئی جس نے مشرف کو سب سے پہلے آگاہ کیا کہ انھیں نیا آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہے۔
پرویز مشرف کو اس بات کا یقین نہیں آیا مگر بعد کے حالات نے اس افسر کی بروقت معلومات پر مشرف کو اس کا گرویدہ بنا دیا۔ اس حساس ادارے کے افسر کا نام بریگیڈیئراعجازشاہ تھا جو اس وقت آئی ایس آئی لاہور میں تعینات تھے۔

سنہ 1999 میں وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف میں اختلافات رونما ہوئے تو دونوں ایک دوسرے پر نظر رکھنے لگے۔ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل ضیا الدین بٹ تھے جن کے ماتحت ان کا ادارہ خاموشی سے سرک چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اسی ادارے کے افسران پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے ساتھ رابطوں میں تھے۔

ان دنوں سیاستدانوں، باالخصوص شریف برادران اور خود جنرل ضیا الدین بٹ پر نظر رکھنے کے لیے سب سے اہم پنجاب تھا جہاں آئی ایس آئی میں بریگیڈئیراعجاز شاہ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

جنرل ضیا الدین بٹ اپنی نجی محفلوں میں سناتے ہیں کہ انھیں یقین ہی نہیں تھا کہ اعجازشاہ ان کا ساتھ چھوڑ کر مشرف کے پلڑے میں وزن ڈال دیں گے کیونکہ وہ جب بھی لاہور اترتے تو ائیرپورٹ پر اعجازشاہ ان کا استقبال کرتے اور ان سے محبت اور عقیدت کے اظہار کے طورپر ان کا بیگ بھی خود اٹھا لیتے۔

البتہ اعجازشاہ چپکے سے ضیا الدین بٹ کے مخالفین سے خفیہ رابطوں میں تھے، ظاہر ہے ان کا جنرل مشرف سے ایک ذاتی تعلق بھی تھا۔ کچھ دنوں بعد 12 اکتوبر کی فوجی بغاوت ہوگئی ۔ ضیا الدین بٹ گرفتار اور اعجاز شاہ ان چند لوگوں میں شمار ہونے لگے جو پنجاب میں انتہائی طاقتور تھے۔

چند سال قبل سابق جنرل ضیا الدین بٹ نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا کہ اب انھیں اعجاز شاہ سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ اعجازشاہ ان سے مل کر معذرت کر چکے ہیں۔

اعجازشاہ نے پرویز مشرف کو اپنے چیف ضیا الدین پر ترجیح دی
12 اکتوبر کے فوری بعد بریگیڈئیر اعجازشاہ کی فوجی ملازمت ختم ہونے پر انھیں پنجاب میں ہی ہوم سیکرٹری کے عہدے پر تعینات کردیا گیا۔ یہاں تعیناتی کے دوران اعجازشاہ نے نومبر 2003 تک القاعدہ، لشکرجھنگوی، سپاہ صحابہ اور جیش محمد جیسی کم وبیش پندرہ جماعتوں کے خلاف کریک ڈاون کی نگرانی بھی کی۔

اس عمل میں اعجازشاہ پر ان جماعتوں کے بعض رہنماوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے الزامات بھی لگے ۔ اعجاز شاہ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے جنوری 2002 میں اغوا کے بعد اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی نظروں میں آئے کہ جب انھوں نے فروری 2002 کو برطانوی نژاد پاکستانی عسکریت پسند احمد عمر سعید شیخ کو گرفتار کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اعجازشاہ اور عمرسعید شیخ کا قریبی تعلق
اعجازشاہ نے ایک ملاقات میں خود بتایا تھا کہ جب سکیورٹی اداروں کو احمد عمرسعید شیخ کی ڈینیل پرل کے اغوا میں ملوث ہونے کا پتہ لگا تو ان سے رابطہ کیا گیا تھا۔ شومئی قسمت کہ احمد عمرسعید شیخ کے ننیھال کا تعلق اعجاز شاہ کے آبائی علاقے ننکانہ صاحب سے تھا۔

عمر سعید شیخ کے ماموں اس وقت پنجاب میں ہی جج تعینات تھے۔ اعجازشاہ نے عمرسعید شیخ کی گرفتاری کے لیے ان کے ماموں سے بھی رابطہ کیا۔

اس وقت تک عمرسعید شیخ کے اہل خانہ بھی پکڑ لیے گئے تھے اس لیے عمر شیخ کو اپنے ماموں کے ذریعے اعجازشاہ سے رابطہ کرنا پڑا اور بعد میں اعجاز شاہ کی ہدایت پر عمرسعید اس وقت لاہور کے ڈی آئی جی جاوید نور کی سرکاری رہائشگاہ گئے اور جا کرگرفتاری دی ۔ ظاہر ہے اس سب میں اعجازشاہ کا کلیدی کردار تھا جو میڈیا کے نوٹس میں بھی آیا۔

اعجازشاہ کی ہوم سیکرٹری پنجاب تعیناتی کے دوران پرویز مشرف نے ملک میں نئے انتخابات منعقد کروانے کا حکم دیا تو اس وقت مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے پنجاب میں نئے منظر نامے کی تشکیل کے لیے کچھ عرصہ لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔

طارق عزیز، اس وقت کے چیف سیکرٹری حفیظ اختر رندھاوا اور ہوم سیکرٹری اعجازشاہ نے مل کر مسلم لیگ ق کے لیے جوڑ توڑ میں اہم کردار ادا کیا۔ انتخابات کے نتائج میں مسلم لیگ ن کو شکست ہوئی اور مرکز اور صوبے میں مسلم لیگ ق کی حکومتیں بنیں۔

سنہ 2002 کے عام انتخابات
اعجازشاہ نے 2002 کے عام انتخابات میں طارق عزیز اور حفیظ اختر رندھاوہ کے ساتھ پنجاب کا منظر نامہ تشکیل دیا تھا۔

مرکز میں وزارت عظمی کا قرعہ میر ظفراللہ جمالی کے نام نکلا جنھوں نے کرنل ریٹائرڈ بشیر ولی کو اپنا انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) چیف لگایا۔ جلد ہی پرویز مشرف کا دل ظفراللہ جمالی سے اچاٹ ہوا تو پہلے مرحلے میں ان کے ڈی جی آئی بی بشیر ولی کو ہٹا کر اپنے پسندیدہ پنجاب کے ہوم سیکرٹری بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو تعینات کردیا گیا۔

اس بار اعجاز شاہ ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔ وہ پرویز مشرف کے قریبی ترین آئی بی چیف سمجھے جاتے تھے۔ ظفراللہ جمالی کے بعد مختصرعرصے کے لیے چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو اعجازشاہ بدستور صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کو رپورٹ کرتے رہے۔

ان کے دور میں آئی بی متحرک ادارے کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم یہ اعجاز شاہ کا دورہی تھا کہ جس میں آئی بی کی مختلف غیر ممالک میں پوسٹنگز کو آئی ایس آئی کے حق میں دستبردار کردیا گیا جس سے آئی بی کو بڑا نقصان ہوا۔

پرویز مشرف کی تنزلی کا آغاز ان کی طرف سے 9 مارچ 2007 کو سابق چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد برطرف کرنے سے ہوا۔ اس ملاقات میں اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی ڈی جی ملٹری انٹیلیجینس میجرجنرل اعجاز ندیم میاں اور آئی بی چیف بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجازشاہ بھی موجود تھے۔

یہ وہی گھڑی تھی کہ جب ہر آنے والا دن مشرف کے اقتدار پر ان کی گرفت کمزور سے کمزور کرتا گیا۔ اعجاز شاہ نے بعد میں عدالت میں دیگر افراد کے ساتھ مشرف کے حق میں اپنا بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا۔

پرویز مشرف نے اپنے کمزور ہوتے اقتدار کو بچانے کے لیے بے نظیر بھٹو سے مذاکرات کیے تو انھی دنوں بے نظیر بھٹو نے کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسندوں کی مبینہ دھمکیوں کے پیش نظر ایک خط میں دیگر افراد کے ساتھ بریگیڈئیراعجاز شاہ کا نام بھی ممکنہ قاتلوں کی فہرست میں لکھا۔

ظاہر ہے یہ بات اعجازشاہ کے لیے انتہائی ناگوار تھی۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں دھشتگردی کا نشانہ بنایا گیا تو ایک بار پھر بریگیڈئیر رئٹائرڈ اعجاز شاہ کا نام جنرل حمید گل، پرویز الہی اور ارباب غلام رحیم کے ساتھ بے نظیر کی طرف سے لکھے گئے خط کے حوالے سے میڈیا کی زینت بنا رہا۔
ریٹائرمنٹ سے اب تک کا سفر
عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی فتح ہوئی تو اعجاز شاہ نے بطور آئی بی چیف مارچ 2008 میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ تاہم بے نظیر کے قتل کا معاملہ میڈیا بدستور اٹھاتا رہا۔ پولیس یا ایف آئی اے نے کبھی اعجاز شاہ سمیت باقی نامزد افراد کو باضابطہ طورپر شامل تفتیش نہیں کیا۔ تاہم بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے قائم اقوام متحدہ کے کمیشن میں اعجازشاہ اور دیگر افراد کو اس قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔

اعجاز شاہ کے ریٹائرمنٹ کے بعد پیپلزپارٹی کے چند رہنماوں سے قریبی مراسم رہے۔ ایک مرتبہ ان کی ایک پرواز کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات ہوئی تاہم کچھ عرصے بعد تحریک انصاف کی مقبولیت کے بعد وہ عمران خان کے ساتھ ہو لیے۔ سال 2014 کے دھرنے کے دوران اعجاز شاہ کا نام بھی دھرنے کے پس پردہ کرداروں سے رابطوں کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔

سال 2018 کے عام انتخابات کے دوران اعجاز شاہ ننکانہ سے ایم این اے بنے تو ابتدا میں وہ وزارت داخلہ کے امیدوار تھے لیکن انہیں اس وقت مایوسی ہوئی کہ جب تحریک انصاف کی پہلی کابینہ میں انکا نام بھی موجود نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل عمران خان ان کے علاقے میں گئے تو انھوں نے اعجازشاہ کو قومی سلامتی کا مشیر لگانے کا اعلان بھی کیا مگر بوجوہ اس کا نوٹیفیکیشن نہ ہو سکا اور اب انھیں وفاقی وزیر پارلیمانی امور لگا دیا گیا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں