558

’حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بھی ایک جرم بن گیا ہے‘

امیگریشن حکام کے مطابق جلیلہ حیدر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے، اس لیے انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جلیلہ حیدر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی تقریب میں شرکت کرنا چاہتی تھیں۔

بام جہان رپورٹ

پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے پیر کے روز صبح لاہور سے لندن جانے سے روک دیا ہے۔ جلیلہ حیدر کو ایئرپورٹ پر سات گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد سوشل میڈیا پر بایاں بازو کے سیاسی اور سماجی کارکنوں کی جانب سخت رد عمل آنے پر رہا کر دیا گیا ہے۔
میڈیا کے مطابق ، محترمہ جلیلہ کو ایئر پورٹ حکام نے اس وقت روکا جب وہ برطانیہ کے لئے ایک فلائٹ میں سوار ہو رہی تھیں جہاں انہیں یونیورسٹی آف سسیکس کے زیر اہتمام حقوق نسواں سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔
جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ جوویمن ڈیموکریٹک فرنٹ بلوچستان کی صدر اور عوامی ورکرز پارٹی کی رکن ہے، کے بقول لاہور ایئرپورٹ پر ایف ائی اے حکام نے انہیں بے بنیاد الزامات پر ملک سے باہر جانے سے روکا ہے۔

Activist Jalila Haider addresses a press conference along with members of Women Democratic Front about her detention by FIA earlier today

Posted by NayaDaur on Monday, January 20, 2020

جرمن اخبار ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”دیکھیں مجھے بڑی حیرت ہوئی ہے کہ اب ریاستی اداروں کی نظر میں حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بھی ایک جرم بن گیا ہے۔ میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ ایف آئی اے حکام نے ایئرپورٹ پر مجھے روک کر یہ موقف اختیار کیا کہ میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے، اس لیے میں باہر نہیں جا سکتی۔ مجھے ایئر پورٹ پر کافی دیرتک حراست میں بھی رکھا گیا۔ مجھے ہراساں کرنے کا یہ عمل قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے، امید ہے ذمہ داران کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا، ”مجھے جب حراست میں لیا گیا تو موقع پر موجود ایف آئی اے اہلکاروں نے بتایا کہ اب مجھ سے ان کے سینئر افسران تفتیش کریں گے۔ مجھ پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزامات عائد کیے گئے۔ میں ایک وکیل ہوں اور میں نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی ہے۔ ریاستی اداروں کے ایسے اقدامات سے ہماری جدوجہد کبھی ختم نہیں ہو گی۔ حکومت اگر واقعی انصاف کے تقاضے پورے کرنا چاہتی ہے تو اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب نہ کرے۔‘‘

جلیلہ نے بی بی سی اردو کو بتایا۔ ” انھوں نے میرے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کوضبط کیا اور مجھے بیٹھنے کو کہا ” جلیلہ کے مطابق ، انھیں سات گھنٹے انتظار کروایا گیا تھا لیکن کوئی بھی ان سے ملنے نہیں آیا ، جس کے بعد حکام نے ان کا پاسپورٹ واپس کردیا اور بتایا کہ وہ برطانیہ کے لئے ایک اور فلائٹ بک کرسکتی ہیں۔

انھوں نے ایف آئی اے کے عہدیداروں کو بتایا کہ جب تک وہ اپنی والدہ سے ملاقات نہیں کرتی اس وقت سے نہیں چلے گی ، جو اس کی حراست میں لئےجانے کی خبر سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد پریشان تھی۔
انہوں نے کہا کہ صرف ان افراد کے نام جن پر کسی معاملے میں شبہ ہے یا جن کا نام ایف ائی ار میں ہیں کا نام ای سی ایل میں رکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں کے نام ای سی ایل میں رکھے جاتے ہیں انہیں پہلے شوکاز نوٹس کے زریعے اطلاّ دیا جاتاہے. مگر انہں ایسی کوئی اطلاع جاری نہیں کیا گیا۔

جلیلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے افراد کو ریاستی اداروں کی جانب سے ہراساں کرنا معمول بن گیا ہے۔

ان کی گرفتاری اور بیرون ملک جانے سے روکنے کی خبر پر سوشل میڈیا میں بھی حکومت پر خوب تنقید سامنے آئی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جلیلہ حیدر سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک ٹرینڈ بھی شروع کیا گیا.

لاہور اور کوئٹہ میں جلیلہ حیدر کی گرفتاری کے خلاف ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور حقوق خلق موومینٹ کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے بھی کیئے۔ مظاہرین نے جلیلہ حیدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔احتجاجی مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ جلیلہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے فی الفور خارج کیا جائے۔

کوئٹہ میں تعینات وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک سینئر افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جلیلہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ان کے ‘متنازعہ کردار‘ کی وجہ سے ڈالا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا، ”دیکھیں یہ فیصلہ سکیورٹی اداروں کی سفارش پر گزشتہ سال کیا گیا تھا۔ جلیلہ حیدر ایسی کئی سرگرمیوں کا مبینہ طور پر حصہ رہی ہیں، جن میں ریاست مخالف بیانیے کو منظم سازش کے تحت پروان چڑھایا گیا تھا۔ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے اور ای سی ایل میں جس شہری کا نام ڈالا جاتا ہے، اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جلیلہ حیدر کا نام چونکہ ای سی ایل میں شامل تھا، اس لیے انہیں باہر جانے سے روکا گیا ہے۔‘‘

جلیلہ کی جانب سےاپنے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ کیے جانے کے بعد کہ اسے لاہور ایئرپورٹ پر روکا گیا ہے اور انھیںحراست میں لیا گیا ہے، اس کی بہن جو اسے رخصت کرنے آئی تھی سخت پرہشان ہویئں. اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر عالیہ حیدر نے کہا "آج میں نے محسوس کیا کہ گمشدہ شخص کے اہلخانہ کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔ جب میں نے اپنی بہن کو دیکھا تو میں ّم سے نڈھال ہوگیا اور میں اپنے انسو روک نہیں پا سکیں۔ لیکن میں خوش تھی۔ اور مجھے احساس ہوا کہ میں اس سے کتنا پیار کرتی ہوں۔

بلوچستان میں انسانی حقوق اور بلوچ مسنگ پرسنزکے لیے آواز اٹھانے والی معروف سماجی کارکن زاہدہ بلوچ کہتی ہیں کہ حکومت غیر آئینی اقدامات کے ذریعے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے۔ کوئٹہ میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”ریاستی ادارے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں عوام کے بنیادی حقوق سے کوئی سروکار نہیں۔ جلیلہ حیدر کی گرفتاری اور ملک سے باہر جانے سے روکنے کا عمل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست حقوق کے لیے آواز اٹھانےکو جرم سمجھتی ہے۔ ہمیں اس صورتحال پر شدید تشویش لاحق ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون و انصاف کے ادارے ملک میں غیر آئینی اقدامات کا سختی سے نوٹس لیں۔ شہریوں کو دیوار سے لگانے کا یہ عمل کسی بھی طور پر ضابطے کے مطابق نہیں ہوسکتا۔‘‘

زاہدہ بلوچ نے سوال کیا کہ آئے روز بے گناہ شہریوں کو، جو لوگ لاپتہ کر رہے ہیں، ان کے خلاف ضابطے کی کوئی کارروائی کیوں عمل میں نہیں لائی جاتی؟ انہوں نے مزید کہا، ”ریاستی جبر کے خلاف آواز ہمیشہ سماجی اور سیاسی کارکن ہی بلند کرتے رہے ہیں۔ جلیلہ کی لاہور میں گرفتاری سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ حکومت کسی بھی شہری کو بلاوجہ مجرم قرار دے کر اس کے نقل و حمل کو محدود کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ میری ذاتی طور پر یہ رائے ہے کہ اس واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہیے اور جن اہلکاروں نے جلیلہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا ہے، ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے۔ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر شہریوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنا کسی بھی طور پر قانونی نہیں ہو سکتا۔‘‘


خواتیں جمہوری محاز کے صدرعصمت شاہجہان کو جب جلیلہ کی حراست میں لئے جانے کی خبر ملی تو وہ فورا اسلام اباد سے لاہور ان کی بہنوں سے اظہار یکجہتی کرنے اور قانونی مدد فراہم کرنے پہنچ گئی. انہوں نے لاہور میں ڈبلیو ڈی ایف کے کارکنوں کو متحرک کرکے ایئر پورٹ پرایک مظاہرہ بھی کیا.

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ، جلیلہ کے وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ انھیں جلیلہ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئیں اور اسے “ہراساں کرنے کا فعل” قرار دیا۔

ڈبلیو ڈی ایف کے ممبران اور دیگر کارکنان ان کے فوری رہائی کا مطالبہ کرنے والے وکلاء کے ساتھ ائیرپورٹ پر جمع ہوئے۔

ڈبلیو ڈی ایف نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ردعمل میں جلیلہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا ، "جب آپ ہمارے ساتھیوں پر حملہ کرتے ہیں تو آپ ہم سب پر حملہ کرتے ہیں۔”

ڈبلیو ڈی ایف نے مطالبہ کیا کہ "جلیلہ کا نام فلفور ای سی ایل سے ہٹایا جائے اور اے ٹی اے جیسے کالے قوانیں کے ذریعہ سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانا بند کریں۔”

ڈبلیو ڈی ایف کی ایک متحرک کارکن ہدا بھرگری نے اپنے فیس بک پیج پر یہ تبصرہ کیا. "جب کامریڈ جلیلہ حیدر کو لاہور ایئرپورٹ پر تحویل میں لیا گیا تو ڈبلیو ڈی ایف کے ممبران سخت برہم ہوئے اور ان کی سلامتی اور رہائی کے حوالے سے تشویش ہوئی۔لیکن ڈبلیو ڈی ایف کے کارکنوں نے جس تیزی اور قوت کے ساتھ رد عمل اور یکجہتی کا اظہار کیا وہ بہت متاثر کن تھا۔”

"میں نے مشاہدہ کیا کہ ایک گھنٹہ کے اندر ہی ڈبلیو ڈی ایف کے تمام ممبران نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اپنے تمام معمولات کو بھول گئے ، اور ایئر پورٹ پر جلیلہ کی رہائی کا مطالبہ کرنے پہنچ گئے۔ کچھ رہنماء صبح 6 بجے لاہور کے لئے روانہ ہوئے ، کوئٹہ میں موجود کارکنوں نے اپنے ساتھی کی غیر قانونی نظربندی کے خلاف احتجاج کیا۔
 
"خواتین اپنے کامریڈ کی حمایت میں کھڑی ہو گیئں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئےگھنٹوں صرف کئے کہ ان کا ساتھی محفوظ رہے۔ فیمینزم یہی ہے۔جب تمام پدر شاہانہ اورغیرجمہوری قوتیں جلیلہ جیسی بہادر خواتین کے خلاف کھڑی ہوتی ہے جو مزاحمت کی علامت ہیں تو یہی حقوق نسواں کی یکجہتی اور سوشلسٹ حقوق نسواں کی سیاسی مزاحمت کی طاقت ہے جو ہمیں آپس میں جوڑتی ہےاور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا رہنے کی ہمت دیتی ہے ! مجھے فخر ہے کہ میں ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کا حصہ ہوں۔”


ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ ٹی سی پی) نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” بلا وجہ انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں کی نقل و حرکت کی آزادی کو نشانے بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔”

تاہم ، بعد میں ایچ آر سی پی نےجلیہ کو برطانیہ جانے کی اجازت دینے کے حکام کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔، لیکن ان کے اس دعوے کو کہ جلیلہ کا نام ای سی ایل پر ہونے کی وجہ سے انہیں چھ گھنٹے غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کی ضرورت پر بھی سوال اٹھایا۔

جلیلہ عوامی ورکرز پارٹی کی رکن ہیں اور خواتین کے حقوق کے لئے لڑنے والی ایک سوشلسٹ تنظیم ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ڈبلیو ڈی ایف) کے بلوچستان کی صدر ہیں۔ وہ ایک غیر منفعتی تنظیم ، ’ہم انسان‘ کی بانی بھی ہیں جو کمزور خواتین اور بچوں کے لئے کام کرتی ہے۔

جلیلہ بلوچستان میں سن دو ہزار اٹھارہ اور انیس میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہے۔
2018 میں ، انہوں نے اپنی برادری کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف احتجاجا بھوک ہڑتال پر چلی گئیں.۔انھوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بلوچستان کا دورہ کریں اور گذشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں ہزارہ قبیلے کےافراد کو قتل کئے گئے لوگوں کے ہزاروں بیواؤں اور یتیم بچوں کو تسلی دیں۔

گزشتہ سال کوئٹہ ہزار گنجی میں ہزارہ قبیلے کے افراد کی ایک بم دھماکے میں ہلاکت کے خلاف مغربی بائی پاس پر ہونے والے احتجاجی دھرنے میں بھی جلیلہ حیدر نے موثر کردار ادا کیا تھا۔ ہزارہ قبیلے کے احتجاج کے خاتمے کے لیے، جس مذاکراتی وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کوئٹہ میں ملاقات کی تھی، اس میں بھی جلیلہ حیدر شامل تھیں۔

جلیلہ حیدر پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) کی احتجاجی تحریک میں بھی سرگرم رہی ہیں۔

جلیلہ حیدر کو گزشتہ سال برطانیہ کے نشریاتی ادارے بی بی سی نے سو بااثر خواتین کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔

ایم این اے اور پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ نے ایف آئی اے کی کارروائی کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف ای سی ایل کے قانون کا غلط استعمال کے مترادف ہوگا۔

سیاسی کارکن اور استاد عمار علی جان نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ردعمل میں کہا: "ہم لاہور ایئرپورٹ پر جلیلہ حیدر کی بہنوں کے ساتھ ہیں۔ اس خاندان نے ہزارہ برادری پر انتہا پسندوں کے ظلم اور قتل وغارتگری کےخلاف مزاحمت میں بے پناہ ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج وہ ان کی بہنیں جلیلۂ کا انتظار کر رہے ہیں جسے ایف آئی اے نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا ہے۔ یہ توہین ناقابل قبول ہے۔”

پاکستان کی وزارت داخلہ نے اس واقعہ پر تبصرہ کے لئے اے ایف پی کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں