عزیز علی داد

گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار

از: عزیزعلی داد کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت...

524

عشق ممنوع ہے یہاں

تحریر: گمنام کوہستانی

کوہستان کی تین وادیوں — انڈس، سوات اور دیر — اور ان کے گرد و نواح میں رہنے والے قبائلیوں میں ماضی قریب تک دلہن کی قیمت ادا کی جاتی تھی۔ یہ قیمت نقد رقم، مال مویشیوں یا جائیداد کی صورت میں ادا کی جاتی تھی جسے مقامی گاوری زبان میں ‘پالوار’ کہتے ہیں۔ یہ ایک قدیم آریائی رسم ہے اور ہمارے آس پاس آباد دوسرے قبائل بھی اس رسم پر عمل کرتے تھے۔ بعض پشتون قبائل اب بھی اس رسم پر عمل کرتے ہیں جسے ‘ولور’ کہا جاتا ہے۔ لڑکے والے لڑکی کے ہاں رشتہ بھیجتے ہیں جہاں لڑکی کے وارثین انہیں ولور کے بارے میں بتاتے ہیں۔ لڑکے والے مطلوبہ ولور یا قیمت ادا کرکے شادی کرسکتے ہیں۔ مہنگی دلہن ہونا اعزاز کی بات ہوا کرتی تھی۔ شادی کے موقع پر عام طور پر دلہن کو والدین کی طرف سے زنانہ کمبل لنگی، کڑھائی والی چادر( چاپاں آگر)، اون کے بنے کمبل ( جھیل)، پلس، چمڑے کی بنی چارپائیاں اور دو چار برتن ملتے تھے۔ دلہا کو لڑکی والے اگر کپڑا دستیاب ہو تو شلوار قمیص ورنہ اونی شال اور کھسے دیتے تھے۔ سر پر باندھنے کے لئے پگڑی یا پکول دینا بھی ضروری سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے لڑکیوں کے بدلے رقم یا مویشی لینا چھوڑ دیا یوں پلوار کی رسم ختم ہوئی۔

آج کل لڑکی والوں کے ہاں سفید ریش بزرگوں کا جرگہ بھیج کر دونوں طرف کے بزرگوں کی رضامندی سے رشتہ طے کیا جاتا ہے۔ جہیز کا نہ تو یہاں ماضی میں رواج رہا ہے نہ آج ہے۔ والدین نے لڑکی کو کچھ دیا تو کوءی مذائقہ نہیں، نہ دیا تو کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں فلاں فلاں چیزیں چاہئے۔ آج کل عام طور پر شادی کے وقت دلہن کو گائے، بھیڑ بکری یا فرنیچر، اور برتن وغیرہ دئے جاتے ہیں۔ان علاقوں، خاص کر بالائی پنجکوڑہ کے وادیوں میں بیٹیوں کو وارث نہیں سمجھا جاتا. بیٹے ہی سب کچھ ہوتے ہیں .اسلئے بہت کم لوگ بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دیتے ہیں، زیادہ تر یہی مال مویشی یا برتن بانڈے وغیرہ دیتے ہیں۔

رشتے اپنے خاندان، یا قبیلے میں کیے جاتے ہیں، دوسرے قبیلوں اور علاقوں کے لوگوں کے ساتھ بہت کم رشتے کیے جاتے ہیں۔ منگنی زیادہ تر بچپن میں طے ہوتی ہے۔ اگر خوش قسمتی سے بچ گئے تو بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلا کام منگنی کا ہوتا ہے۔ تمام تر رشتے بزرگوں کی رضامندی سے طے ہوتے ہیں۔ بزرگ علاقائی، سیاسی، خاندانی مفاد دیکھ کر رشتہ طے کرتے ہیں۔ منگنی میں لڑکی یا لڑکا کی رضامندی پوچھنا تو دور کی بات بعض اوقات تو پتہ بھی نہیں ہوتا اور منگنی طے ہوجاتی ہے، بلکہ بعض اوقات تو شادی بھی ہو جاتی ہے۔ایک بار کسی لڑکی یا لڑکا کی منگنی ہوگئی تو دونوں میں سے کسی ایک کے مرنے کے بعد ہی جدائی کا تصور کیا جا سکتا ہے. دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ طلاق کا نتیجہ اکثر انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں نکلتا ہے۔ لڑکی، لڑکا جیسے بھی ہیں انہیں پوری زندگی ایک ساتھ بغیر کسی چوں و چرا کے گذارنے ہیں۔ کس سے منگنی کرنی ہے، شادی کب کرنی ہے یہ سب بزرگوں کے فیصلے ہوتے ہیں جن کے سامنے وقت کا بادشاہ بھی بے بس ہوجاتا ہے۔ عشق، پیار، محبت، پسند کی شادی کا مطلب بےشرمی، فحاشی، بے غیرتی ہے اور اس کا ایک ہی علاج ہے. موت!

ہمارے ہاں شاعر، گلوکار، فنکار نہیں ہیں۔ بالائی پنجکوڑہ اور سوات میں آباد گاوری قبائل میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جو شاعری کرتا ہو یا گلوکار ہو، جسے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ اگر کوئی ہے بھی تو وہ اپنے اندر موجود اس خداداد صلاحیت کاکھلے عام اظہار نہیں کرسکتا کیونکہ رومانیت سے دور قبائلی سماج میں اس قسم کے لطیف جذبوں کے اظہار پر پابندی ہے۔ محبوب کا نام لینا تو دور کی بات ہے اس کی طرف اشارہ کرنے کا مطلب بھی موت ہے۔ جنہوں نے اظہار کیا مارے گئے۔ یہاں شاعر اور گلوکارطبعی موت نہیں مرتے بلکہ مار دیئے جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں جھانک کر دیکھئے آپ کو کئی نام مل جائیں گے۔

رومانیت سے دور اس قسم کے معاشرے میں شادی کے ذریعے دو دل نہیں دو جسم ملائے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے انجان ان دو اجنبیوں کی شادی کے بعد سب سے بڑامقصد بچے پیدا کرنا ہوتا ہے اور وہ پیدا کرتے ہیں۔ گنتی کے دو چار کو چھوڑ کر باقی سب لوگوں کے ماشاءاللہ دس پندرہ بچے ہوتے ہیں۔ میرے خود گیارہ بہن بھائی ہے۔ یہاں ان باتوں پر بحث کرنا کوئی نہیں چاہتا۔ سب کے لئے یہ غیرت کا مسئلہ ہے۔ میں شائد یہاں کا پہلا انسان ہوں جو اس طرح کھلے عام ایک حساس موضوع پر بات کر رہا ہوں۔ آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا تعلق قطعا غیرت سے نہیں۔

ہم سب مسلمان ہیں اور مذہب اسلام نے بالغ لڑکا اور لڑکی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی پسند کے انسان سے شادی کرے۔ ملک کاآئین بھی یہی کہتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں لڑکی کی رائے لینا تو دور کی بات، لڑکے سے بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہے ہیں۔ صدیوں سے ہمارے ہاں لڑکیاں بھاگ رہی ہیں اور صدیوں سے ہم انہیں مار رہے ہیں۔ گزشتہ پچاس سالوں کا اگر حساب کیا جائے تو ہزاروں معصوم لوگوں کو غیرت اور فرسودہ رواجوں کے نام پر مارے گئے ہیں۔ ہم صدیوں سے خون ناحق بہا رہے ہیں. لیکن آج تک یہ نہیں سوچا کہ ایسے واقعات ہوتے کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک لڑکی اپنے والدین، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر ایک انجان آدمی کے ساتھ بھاگ جاتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ خونی رشتوں کو بھول کر، انہیں ذلت کی گہرائیوں میں دھکیل کر ایسا قدم اٹھاتی ہے؟ کیوں شادی شدہ عورتیں شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر غائب ہوجاتی ہیں؟ مانتا ہوں بعض اوقات کچھ لوگ زیادتی بھی کرتے ہیں لیکن عام طور پر ایسے واقعات میں ملوث افراد تعفن زدہ، اور گھٹن زدہ ماحول اور گھریلو تشدد سے تنگ اکر اور انتہائی مجبور ہوکر یہ قدم اٹھاتے ہیں۔

میں یہ بھی مانتا ہوں کہ اس قسم کے حساس مسائل پر یوں کھلے عام بات کرنا قابل اعتراض ہے لیکن معازرتی جبر اور تشدد اور فرسودہ روایات کو سہنا اور خاموش رہنا بھی جرم ہے. ہم صدیوں سے خون بہا رہے ہیں مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ موت سے علاج نہیں ہوا اب پیار سے علاج کرتے ہیں۔ بچپن کی منگنی وغیرہ جیسے فضول رسومات کو چھوڑ کر بزرگوں کو رضامندی کے ساتھ ساتھ لڑکا، لڑکی کی رضامندی بھی شامل کرتے ہیں۔ جب دو انسانوں کو اپک دوسرے کو پسند کرنےاور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا تو پھر بزرگوں کی پگڑیاں بھی محفوظ ہوں گے اور ہر انسان باہم احترام کے جزبے کے ساتھ بلا خوف زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے اور ایک نیا خوبصورت معاشرہ تشکیل پائے گا۔

یہاں اس قسم کے بحث کے دوران اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ‘لڑکا تو خیر مرد ہوتا ہے وہ اپنی پسند کا اظہار کر سکتا ہے مگر لڑکی کیسے کہہ سکتی ہے مجھے فلاں سے شادی کرنی ہے’۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مرد اپنے جنس کی بنیاد پر اپنی زندگی گزارنےاور اپنے فیصلوں میں خود مختار اور بااختیار ہے تو لڑکی بھی ایک جیتی جاگتی انسان ہے اسے بھی یہ حق حاصیل ہونا چاہئے۔ اگر مرد کو حق حاصل ہے تو عورت کو بھی مذہب، ملکی آئین اورعالمی انسانی حقوق کے چارٹر نے یہ حق دیا۔ دوسری بات اشرافیہ طبقہ اور جدید ترین ماحول میں پلے بڑھے لوگ جنہیں ہم ‘بےغیرت’ سمجھتے ہیں، کی لڑکیاں بھی آزادانہ طور پر یہ نہیں کہتی ہے کہ "مجھے فلاں شخص سے شادی کرنی ہے”۔ یہ ماں سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بیٹا کس کو پسند کرتی یا کرتا ہے۔ ماں اگر ساتھ دے اور باپ کی مدد شامل ہو تو کیوں کوئی گھر سے بھاگے؟

کسی کو پسند کرنا گناہ نہیں ہے۔ ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح انسان ہے۔ اسی مٹی سے پیدا ہوئے جس سے دوسرے قوم اور معاشرے کے لوگ بنے ہیں۔ عشق، اور محبت انسانی فطرت ہے اور ہم فطری جذبوں کو دقیانوسی پدر شاہانہ رواجوں تلے دبا تو سکتے ہیں، ختم نہیں کرسکتے۔ کچلنے سے یہ جذبے تڑپ اٹھتے ہیں اور پھر بغاوت بن کر ابھرتے ہیں اورلاوا کی طرح پھٹ جاتے ہیں اور خاندانی اور قبائلی نام و نمود اور روایات کو بہا کر لے جاتی ہے۔ پھٹنے سے پہلے اگر مداوا کیا جائے تو عزتیں بچ جائیں گی۔

مجھے معلوم ہے یہاں کچھ لوگ مجھ سے اختلاف کریں گے۔ کچھ کے نزدیک عشق، پیار اور محبت جیسی ‘فضول’ چیزوں کی حمایت کرکے میں نے خود کو سب سے بڑا ‘بےغیرت’ اور ‘بے شرم’ ثابت کیا ہے۔ اختلاف کیجئے، مجھے بے غیرت کہیے. آپ کے اختلاف کرنے اور مجھے بےغیرت کہنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے۔ محبت، پیار اور عشق جیسے لافانی انسانی جذبے کھبی ختم نہیں ہوں گے۔یہ جذبے ازل سے ہے اور رہتی دنیا تک رہیں گے.

بدقسمتی سے آج کے جدید سائینسی و سماجی علوم اورایجادات کے دور میں بھی ہم ایک ایسے قبائلی، وحشی معاشرے میں جینے پر مجبور ہیں جنہیں رومانیت چھو کر بھی نہیں گزری۔ جہاں پالوار کی رسم تو ختم ہو چکی ہے لیکن عورت آج بھی دیگر جانوروں اور اشیاء صرف کی طرح مردوں کی ملکیت تصور کی جاتی ہے۔ جہاں محبت سے نفرت اور نفرت سے محبت کی جاتی ہے۔

    عمران خان آزاد کا تعلق دیر بالا کے تھل، کلکوٹ کے علاقے سے ہے۔ وہ ایک ابھرتے ہوئے روشن خیال نوجوان لکھاری ہیں جو گمنام کوہستانی کے قلمی نام سے سماجی اور ثقافتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں