کھوار زبان اور کھو  شناخت! حقائق اور مفروضے

تحریر: کریم اللہ کھوار زبان چترال کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور سوات کے علاقہ کلام میں بولی جاتی ہے۔ چترال کی سب سے بڑی زبان ہونے کے...

380

وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: اصلی اور فلمی بادشاہت

تحریر: وسعت اللہ خان

برس ہا برس سے حسرت ہے کہ مرنے سے پہلے کاش وہ ریاست بھی دیکھنا نصیب ہو جائے کہ جس کے بارے میں ہم پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ اس میں کوئی آئین بھی ہوتا ہے۔ اس آئین کے تحت ادارے بنتے اور اپنے اپنے دائروں میں چلتے ہیں۔ یہ دائرے اتنے گہرے اور واضح ہوتے ہیں کہ نابینا شخص کو بھی دکھائی دے جائیں۔ یہی ادارے یکجا ہو کر ریاستی اختیار اور رٹ جنم دیتے ہیں۔ باہمی احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی دستوری طاقت ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی رٹ بتاتی ہے کہ ریاست فلمی نہیں اصلی ہے۔

فلمی ریاست وہ ہوتی ہے جس کا درباری سیٹ اصلی ریاست سے بھی زیادہ شاندار ہوتا ہے۔ فلمی ریاست میں بھی ایک حکمران ہوتا ہے، وزیر ہوتے ہیں، درباری ہوتے ہیں، قاضی ہوتے ہیں، سپاہ ہوتی ہے، رعایا ہوتی ہے اور پردہِ سیمیں پر دشمنوں سے خونخوار جنگیں بھی ہوتی ہیں اور حکمران اداکار انصاف بھی بانٹتا ہے۔

اصلی اور فلمی ریاست میں کوئی فرق ہے تو بس اتنا کہ اصلی ریاست کے پیچھے اصلی طاقت اور حقیقی کردار ہوتے ہیں اور فلمی ریاست کے پیچھے ایک پروڈیوسر اور ایک مصنف و مکالمہ نگار ہوتا ہے۔ کہانی کو ایک مقررہ بجٹ میں پردہِ سیمیں پر منتقل کرنے کے لیے ایک ہدایت کار ہوتا ہے۔ ہیرو اور ہیروئن سمیت فلم کے تمام کردار اور ایکسٹرا سکرین پر بظاہر اپنی من مانی کر رہے ہوتے ہیں مگر یہ بے ساختہ دکھائی دینے والی من مانی اور گفتگو کسی اور کی لکھی اور کنٹرولڈ ہوتی ہے۔
اکبرِ اعظم کا بس اتنا ہی اختیار ہے کہ وہ سکرین پر انارکلی کو چنوانے کے بعد شفٹ ختم ہونے پر میک اپ اتارتا ہے اور کاسٹیوم شفٹ انچارج کے حوالے کر کے موٹر سائیکل کو کِک لگا کر راستے سے سبزی لیتا ہوا گھر روانہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اگلی صبح اسے پھر شفٹ پر آ کر تاج پہن کر تخت پر بیٹھنا ہے۔

یہ طے ہے کہ فلمی بادشاہت کبھی اصلی بادشاہت کی جگہ نہیں لے سکتی مگر یہ طے نہیں کہ اصلی بادشاہت وقت اور حالات کے ہاتھوں گتے کے بنے سیٹ میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ تاریخ نے کئی اصلی ریاستوں کو فلمی بنتے دیکھا۔ آخری چھ عباسی خلفا کے پاس اتنا ہی اختیار تھا جتنا کسی اداکار کے قبضے میں ہوتا ہے۔ اورنگ زیب کے بعد جو بھی لال قلعے کے درباری سیٹ پر بیٹھا اداکار ہی تو تھا۔

کابل حکومت کیا ہے؟ اصلی کہ فلمی؟

خود ہمارے ہاں حکمران کون ہے؟ اصلی آئینی کردار؟ یا پھر فلم ساز، مصنف، ہدایتکار اور اداکار؟

جب معیشت کا منہ زور گھوڑا زین پر بیٹھنا تو درکنار پشت پر ہاتھ تک نہ دھرنے دے، جب خارجہ پالیسی کے الجھے گچھے کا سرا ہی نہ مل رہا ہو، جب یہی ٹپائی نہ دے کہ ریاستی اختیار نامی پرندے کی چونچ کس کے ہاتھ میں ہے، پروں کو کون کتر رہا ہے، دانے دنکے کا انچارج کون ہے، پنجرے کی صفائی کس کے ذمے ہے اور سدھائی کون کر رہا ہے؟ جب ان سوالوں کے جواب کسی ایک کو نہ معلوم ہوں تو ایسے عالم میں انویسٹمنٹ بچانے کے لیے سکرپٹ تو بدلنا ہی پڑتا ہے۔ مصالحے کی کمی پوری کرنے کے لیے بدتمیزی، بات بے بات گالم گلوچ اور ہر عملی و تصوراتی حریف پر زیلی مغبچوں کو چھوڑنا تو بنتا ہے۔
ترکی ہمارا یار ہے اور زبانِ یارِ من ترکی میں ہی ایک محاورہ ہے کہ آقا پر بس نہ چلے تو غلاموں کا غصہ غلاموں پر ہی نکلتا ہے۔

آئینِ پاکستان کا پہلا جملہ ہے ’اقتدارِ اعلی اللہ تعالی کی امانت ہے۔ ریاست یہ امانت عوام کے منتخب نمائندوں کے توسط سے استعمال کرنے کی پابند ہے۔‘

باقی آئین کو چھوڑیے۔ کیا اس پہلے جملے پر بھی ریاستِ پاکستان پوری طرح عمل کر پا رہی ہے؟ یا اس لائن کو بھی بس ایک اچھے سکرپٹ کی پہلی سطر کی طرح سراہنا کافی رہے گا؟ یہ سوال میرے دل میں مسلسل کلبلاتا رہتا ہے مگر پوچھوں بھی تو کس سے؟

بشکریہ بی بی سی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں