عزیز علی داد

گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار

از: عزیزعلی داد کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت...

387

کیا مولانا طارق جمیل ایک نئی مقدس گائے ہیں؟

بام جہان رپورٹ

مولانا طارق جمیل کی طرف سے میڈیا کو جھوٹا قرار دینے اور خواتین کو بے حیائی کا ذمہ دار ٹھہا دیا جس کی وجہ سے ان کے بقول کورونا وایرس کا عذاب خدا کی طرف سے نازل ہوا۔ اس متنازعہ بیان پر ملکی میڈیا کا نرم رویہ کئی سیاسی اور سماجی حلقوں کی تنقید کی زد میں ہے۔ کئی حلقے انہیں پاکستان کی نئی مقدس قرار دے رہے ہیں۔

مولانا طارق جمیل نے کل بروز جمعرات تمام میڈیا کو اس وقت جھوٹا قرار دیا جب وہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے ایک چندہ مہم میں ٹیلی تھون میں شرکت کر رہے تھے۔ ناقدین کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے اس مہم میں سرکار سے قربت مزید بڑھانے کے لیے عمران خان کی تعریف میں قصیدے بھی پڑھے، جسے کئی حلقے ہدف تنقید بنارہے ہیں۔
اس بیان کے خلاف حقوق انسانی کے کارکنوں اور سیا سی اور سماجی حلقوں سے شدید ردعمل سامنے ایا۔
حقوق انسانی کمیشن برائے پاکستان نے ایک ٹویٹر بیان میں کہا کہ انہیں اس بیان سے شدید دھچکہ لگا ہے۔

متنازعہ بیان کے بعد ملک کے کئی حلقے طارق جمیل پر کم اور پاکستانی میڈیا پر زیادہ چرغ پا ہیں۔ ان کے خیال میں ذرائع ابلاغ مولانا کو ایک نئی مقدس گائے سمجھتا ہے۔ انگریزی روزنامہ دی نیوز کے کالم نگار اور تجزیہ کار عامر حسین کا خیال ہے کہ میڈیا طارق جمیل سے خوفزدہ ہے،”طارق جمیل بظاہر بہت خوش اخلاق ہیں لیکن میڈیا کو معلوم ہے کہ ان کی پشت پر طاقت ور حلقے ہیں۔ اور اس ملک میں نہ ہی ان طاقت ور حلقوں پر تنقید ہو سکتی ہے اور نہ ان کے پروردہ مولویوں پر۔ تو میڈیا کو اپنی حدود کا علم ہے۔ اسی لیے انہوں نے مولانا پر سخت تنقید نہیں کی۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مولانا کے مقتدر حلقوں میں بہت اچھے مراسم ہیں،”میرا خیال ہے کہ میڈیا نے رویہ نرم رکھا کیوں کہ مولانا کے طاقت ور حلقوں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ تبلیغی جماعت کے خواص سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں کاروباری اور امیر افراد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی پبلک ریلشننگ بھی بہت اچھی ہے اور وہ کئی سیٹھوں سے بھی قربت رکھتے ہیں۔ تو یہ سارے عوامل نے شاید میڈیا کو مجبور کیا تو وہ ہاتھ ہولا رکھے۔

پاکستانی میڈیا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سیاست دانوں سے بہت سخت سوالات کرتا ہے۔ کئی سیاسی جماعتیں یہ بھی الزام لگاتی ہیں کہ وہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کی لائن کو ٹو کرتا ہے اور سیاست دانوں کو بدنام کرتا ہے۔

پی پی پی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مملکت برائے صنعتی پیداوار آیت اللہ درانی کا کہنا ہے کہ اگر ایسا بیان سابق صدر آصف علی زرداری نے دیا ہوتا تو میڈیا ابھی تک انہیں اور پی پی پی کو کافر قرار دے چکا ہوتا،”لیکن طارق جمیل اور تبلیغی جماعت کی طاقت کا لوگوں کو اندازہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جنرل محمودکہاں بیٹھیں ہیں۔ اس کے علاوہ تبلیغی جماعت کی موجودگی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ تو ان پر تنقید کیسے ہو سکتی ہے۔‘‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل ناصر ملک کا کہنا ہے میڈیا کا نرم رویہ اس تاثر کو مضبوط کرے گا کہ طارق جمیل ایک نئی مقدس گائے ہیں، جو تنقید سے بالا تر ہیں،”صحافتی تنظیموں کو فوری طور پر اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بیوروکریٹس سے لے کر آرمی آفیسرز تک طارق جمیل کے چاہنے والوں میں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیں۔‘‘

تاہم تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد طارق جمیل کا دفاع کرتے ہیں۔ جماعت سے وابستہ ایک کراچی کے عہدیدار سید طارق ہاشمی نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سوال یہ ہے کہ کیا ان کا بیان حقائق کے منافی ہے۔ کیا میڈیا جھوٹ نہیں بولتا۔ کئی معروف اینکرز دو ہزار آٹھ سے تیرہ تک یہ کہتے رہے کہ پی پی پی کی حکومت آج گرے گی یا کل گرے گی لیکن اس نے پورے پانچ سال حکومت کی۔ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کو بھی کئی مرتبہ میڈیا نے مروایا لیکن وہ درحقیقت زندہ تھے۔ تو کئی کتابیں ایسے جھوٹ پر لکھی جا سکتیں ہیں۔ اور مولانا نے بالکل درست فرمایا ہے۔‘‘

مولانا طارق جمیل کون ہیں؟

مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت کے ایک اہم رکن ہیں۔ ان کے بقول وہ زمانہ طالب علمی میں کافی جدت پسند ہوتے تھے اور انہیں میوزک سمیت کئی چیزوں سے لگاؤ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور تبلیغی جماعت کی سرکردہ اور اہم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نامی گرامی شخصیات کو تبلیغی جماعت میں لے کر آئے یا انہیں مذہبی بنایا، جیسا کہ معروف گلوکار جنید جمشید۔ ان کے ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا کرکٹرز پر بھی بہت اثر ورسوخ ہے اور ایک دور میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو کچھ ناقدین نے طنزیہ اسے رائے ونڈ کی ٹیم بھی کہا۔

طارق جمیل صاحب نے مشہور بالی وڈ اداکار عامر خان سے بھی ملاقات کی اور وہ پاکستانی اداکارہ وینا ملک کو بھی مذہب کی طرف راغب کرنے کوشش کرتے رہے۔

طارق جمیل کے کاروباری، عسکری اور سیاسی حلقوں سے بھی قریبی مراسم رہے اور نواز شریف سے لے کر عمران خان تک وہ سب ہی کے قریب رہے۔ وہ اس قربت کو اپنی غیر جانبداری قرار دیتے ہیں جب کہ ناقدین اسے موقع پرستی اور چاپلوسی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہیں کئی سرکاری اداروں میں لیکچرز کے لیے بھی دعوت دی جاتی ہے جب کہ وہ پاکستان کے کئی ٹی چینلوں پر بھی جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی دعا کا انداز ان کے عقیدت مندوں کو متاثر کرتا ہے جب کہ ناقدین اسے دکا وا قرار دیتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں وہ عمران خان کی حمایت پر خوب تنقید کا نشانہ بنے۔ یہ تنقید نہ صرف سیاسی اور سماجی حلقوں سے آئی بلکہ جعمیت علماء اسلام سمیت کئی مذہبی تنظیموں نے بھی ان پر نشترکے تیر چلائے۔

بایاں بازو کی سب سے بڑی جماعت عوامی ورکرز پارٹی نے بھی عمران خان اور طارق جمیل کے بیان پر سخت تنقید کیا۔

عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر یوسف مستی خان اور سیکریٹری جنرل اختر حسین ایڈووکیٹ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہےکہ مفتی منیب الرحمان, مولانا طارق جمیل اور دیگر ملّاؤں کی حالیہ گوہر افشانیوں کے بعد یہ واضح اور ضروری ہو چکا ہے کہ مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ کیا جائے۔

ان رہنماوں نے مولانا طارق جمیل کے عورت دشمن نیز میڈیا کے خلاف زہر آلود بیانات کی مذمّت کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ . جدید سائنسی دور میں کورونا جیسی عالمی وباؤں کو عورتوں کے لباس اور حیاء کے ساتھ جوڑنا جہالت کی انتہا ہے.

ان رہنماوں نے میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نےکہا کی اس طرح کے ملّاؤں کو ٹی. وی چینلز پر لایا جاتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں حکمران طبقات کی طرزِ
حکمرانی اور ہتھکنڈے تبدیل نہیں ہو ہئے ہیں. اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو اس طرح کے چونچلے اور چٹکلے ترک کرنے پڑینگے.

پارٹی قیادت نے کہا ہے کہ مولانا طارق جمیل 1990 سے لیکر آج تک حکمرانوں کی خوشامد میں سرگرم رہے ہیں.

ان رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ طارق جمیل کو خواتین اور بائیس کروڑ پاکستانیوں کی توہین کرنے پر اُسی طرح غیر مشروط معافی مانگنی چاہیے جس طرح انہوں نے میڈیا سے معافی مانگی ہے.
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے درست اور جرآت مندانہ فیصلے کریں. عوام کی قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جائے.

بشکریہ : ڈی ڈبلیو اردو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں