122

الوداع شہناز

فاروق سلہریا


ہفتے کی شام فاروق طارق کا یہ پیغام موصول ہوا کہ شہناز اقبال آخر کار کینسر کی جنگ ہار گئی ہیں۔ کچھ دن قبل ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔ اس کے بعد یہ خبر غیر متوقع تو نہ تھی مگر دل شکستہ ضرور تھی۔

شہناز اقبال فاروق طارق کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے ہی ہماری دوست اور ساتھی نہیں تھیں۔ وہ میرے انتہائی قریبی دوست طارق اقبال کی بڑی بہن بھی تھیں۔ ان دونوں کی وجہ سے شہناز اقبال سے تقریباً تیس سال پرانا تعلق تھا۔ ذاتی طور پر میرے لئے وہ ایک دوست، بڑی بہن اور کامریڈ کا رشتہ رکھتی تھیں لیکن بے شمار لوگوں کے لئے وہ ایک نڈر، بے باک اور کمٹڈ کارکن تھیں جنہوں نے تین دہائیوں تک خواتین کے حقوق اور ان کی ترقی کے لئے کام کیا۔

ان کی زندگی کی کہانی بھی انتہائی انسپائرنگ ہے۔ اسی کی دہائی میں وہ منڈی بہاؤالدین سے پنجاب یونیورسٹی پڑھنے کے لئے آ گئیں۔ اس دور میں چھوٹے شہروں کی کم ہی لڑکیاں یہ ہمت کرتیں۔ بلاشبہ ان کے والدین کی حمایت بھی ایک وجہ تھی۔ بیٹیوں کی تعلیم کے سوال پر ان کے والد کو اپنے خاندان کی مخالفت کا بھی سامنا تھا۔ اس سب کے باوجود شہناز اقبال نہ صرف لاہور پڑھنے پہنچ گئیں بلکہ ایم اے کرنے کے بعد، منڈی بہاؤالدین واپس جانے کی بجائے لاہور میں ہی نوکری شروع کر دی۔

نوے کی دہائی میں وہ شرکت گاہ میں جاب کرنے لگیں اور سالہا سال کئی ایسے پراجیکٹس اور ریسرچ منصوبوں کے ساتھ وابستہ رہیں جن کا مقصد خواتین کی ترقی، فلاح اور ایمپاورمنٹ تھا۔ بعد ازاں لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے وابستہ ہو گئیں۔

بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اس لئے ان کی تعلیم کے لئے بھی رہنمائی کی بالخصوص اپنی بہنوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ شہناز اقبال کا ابتدائی اِنی شیٹو تھا جس نے باقی بہنوں کے لئے نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ نوکری کے دروازے بھی کھول دئے۔ جس گھرانے کی خواتین کو تعلیم کی اجازت نہ تھی، وہ اب ملازمتیں کر رہی تھیں۔

1990ء میں ہی فاروق طارق سے ملاقات ہوئی۔ دونوں کی شادی پر دی نیوز نے ایک شاندار فیچر بھی لکھا کیونکہ یہ شادی انقلابی انداز میں ہوئی۔ کسی قسم کا روایتی خرچہ نہیں کیا گیا۔ ریلوے ہال میں ایک انقلابی پارٹی ہوئی جس کا خرچہ کامریڈز نے اٹھایا۔ سلامی سے جو پیسے ملے اسے بطور چندہ ’جدوجہد‘ کے حوالے کر دیا گیا۔ نہ کوئی جہیز، نہ کوئی بارات اور ولیمہ۔ دونوں کی جانب سے ایک مشترکہ انقلابی دعوت۔

مشعل اور عبداللہ کی شکل میں شہناز اقبال کی زندگی ایک طرح سے مکمل ہو گئی۔ دونوں بچوں کی تربیت اور پرورش ان کے ذمہ ہی تھی۔ اگر فاروق طارق گذشتہ تیس سال سے ایک متحرک کردار ادا کرتے رہے تو اس کی ایک وجہ شہناز اقبال کا ساتھ بھی تھا۔ نہ صرف وہ اس جدوجہد کی ساتھی تھیں بلکہ ہر مشکل وقت میں وہ حوصلے کے ساتھ کھڑی رہیں۔

فاروق طارق کی گرفتاری کے لئے کبھی پولیس کے چھاپے۔ کبھی خفیہ ایجنسی والوں کی پوچھ پرتیت۔ کبھی فاروق صاحب کی گرفتاری اور جیل۔ اس سے بھی زیادہ مشکل وہ معاشی حالات جس کا سامنا ان دونوں کو رہتا۔ شہناز اقبال نے کبھی فاروق طارق سے یہ نہیں کہا کہ وہ اپنا راستہ بدل لیں۔ نہ کبھی ہماری، جو فاروق طارق کے ساتھی تھے، دل شکنی کی۔

میں جب لاہور آیا تو فاروق طارق اور شہناز اقبال کا دھرمپورہ میں کرائے کا مکان ہاسٹل کے علاوہ دوسرا ہاسٹل اور گھر سے دور دوسرا گھر تھا۔ میں طارق اقبال، و قاص سعید (فاروق طارق کے بھتیجے)، شاہد اقبال (شہناز اقبال کے چھوٹے بھائی) یہیں پڑے رہتے۔ وی سی آر پر فلمیں دیکھنا۔ رات دیر تک گپیں لگانا۔ ہنسی مذاق۔ وہ سب ہم سب کی زندگی کی یادگار شامیں ہیں۔ یہ ساری رونق شہناز اقبال کے گرد ہوتی۔ وہ میری اور طارق اقبال کی شرارتوں پر ہنستی بھی اور کبھی کبھار ہلکا سا ڈانٹ بھی دیتیں کہ تم دونوں بلا سوچے سمجھے شرارتوں میں الجھ جاتے ہو۔

گذشتہ اکتوبر میں لاہور واپس آیا تو شہناز اور فاروق طارق کے گھر گیا۔ کچھ دیر بیٹھی باتیں کرتی رہیں۔ میری اور طارق اقبال کی اشاروں کنایوں میں ہونے والی فیس بک گفتگو بارے پوچھا۔ جب میں نے ’تشریح‘ کی تو تھورا سا ہنسیں۔ پھر بولیں تم دونوں اب یہ کام بند کر دو۔ کچھ لوگ اس کا غلط مطلب لے سکتے ہیں۔

یہ آخری ملاقات تھی۔

گذشتہ تقریباً دو سال سے، جب سے کینسر کی تشخٰیص ہوئی تھی، میں ان سے ملتا تو کبھی بھی ان کی صحت بارے بات نہ کرتا۔ وہ بھی میرے فیملی اور نوکری بارے یا سیاست پر بات کرتیں۔ پھرکچھ ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں۔ کینسر سے لڑتے ہوئے بھی وہ ہنسنا نہیں بھولیں۔

ہم ان کی ہنسی، جدوجہد، کمٹ منٹ کو یاد بھی رکھیں گے اور جاری بھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں